جس کی جتنی سَنکِیا بھاری اس کی اتنی بھاگیداری
تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات میں صرف سہ رخی مقابلہ یا کچھ اورہونا بھی ممکن ہے ؟
ابوحرم ابن ایاز عمری
بی ایس پی تلنگانہ میں مسلمانوں کو متناسب نمائندگی دے گی، کوئی فرقہ پرست پارٹی حکومت نہیں بنائے گی
تعلیم ،روزگار،صحت اور ڈیولپمنٹ جیسے تمام مسائل انتخابات کا لازمی حصہ بنیں
بہوجن سماج پارٹی تلنگانہ کے ریاستی صدر آر ایس پروین کمار سے ہفت روزہ دعوت کی خصوصی بات چیت
’’ایک قومی سیاسی پارٹی کے طور پر بی ایس پی فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔نیز تلنگانہ کے عوام بھی مکمل سیکولر ہیں جو آنے والے اسمبلی انتخابات میں کسی بھی فرقہ پرست پارٹی کو اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہماری پارٹی تلنگانہ اسمبلی کے لیے تقریباً دس مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارے گی جو کہ ریاست میں مسلم آبادی کے تناسب کےمطابق ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر آر ایس پروین کمار
بھارت میں 2024کے انتخابات سے قبل ہونے والے پانچ ریاستی انتخابات کئی نوعیتوں سے نہایت ہی اہم اور معنی خیز سمجھے جارہےہیں۔کیونکہ ایک طرف مرکز میں برسراقتدار پارٹی اپنی بنیادیں کھوکھلی ہوتی محسوس کررہی ہے اور اس کو مضبوط کرکے کسی بھی قیمت پر اسمبلی انتخابات جیتنا اپنا مقصد بناچکی ہے تو وہیں پر ’انڈیا الائینس‘ نے بھی اپنی مکمل کوششیں اور طاقتیں داؤ پر لگا دیا ہے ، نتیجتاً عوام کے نظریات میں ہلچل پیدا کرنے کے سلسلے میں ایک حد تک وہ کامیاب بھی نظر آرہی ہے اور ساتھ ہی بہار کے ذات پات کی بنیاد پر جاری کردہ مردم شماری نے تو انتخاباتی نتائج کا رخ ہی موڑ دیا ہے۔
مذکورہ پانچ ریاستوں میں سے ایک ریاست تلنگانہ ہے جہاں ظاہری طور پر مرکزی دھارے کی میڈیا کے مطابق انتخابات سہ رخی نظر آرہے ہیں یعنی ایک طرف پچھلے دس سالوں سے بر سر اقتدار پارٹی بی آر ایس (بھارت راشٹرا سمیتی )دوبارہ حکومت کی خواہاں ہے تو دوسری طرف کانگریس حال ہی میں پڑوسی ریاست کرناٹک میں نمایاں کامیابی کے بعد وہی فارمولا تلنگانہ میں بھی دوہرانا چاہتی ہے تو تیسری جانب بی جے پی بھی جنوبی بھارت میں اپنے پھیلاؤ کے لئے کرناٹکا کے بعد تلنگانہ کو ہی نہایت موزوں اور مناسب مقام سمجھ رہی ہے کیونکہ تمل ناڈو اور کیرلا کی سرزمین وہاں کی دراوڑانہ فکر ،اڈیار ی نظریات ، علاقائی و لسانی حمیت اور دیگر کئی نوعیتوں سے بی جے پی کے لئے ناسازگار سمجھی جاتی ہے ۔
تلنگانہ میں جہاں تین بڑی پارٹیاں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں وہیں پر مجلس اتحاد المسلمین اپنے مخصوص حلقوں میں متفقہ اور یقینی فتح کی امید میں مطمئن ہے لیکن ایک اور پارٹی بھی ہے جو اتر پردیش سے نکل کر تلنگانہ میں اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش میں مصروف ہے جسے بی ایس پی (بہوجن سماج وادی پارٹی ) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس پارٹی نے باقاعدہ اپنا سی ایم چہرہ بھی بنا لیا ہے جو کہ اس وقت بی ایس پی کے ریاستی صدر آر ایس پروین کمار ہیں ۔ جو ایک فعال آئی پی ایس آفیسر تھے ، سیاست میں اترنے سے قبل ان کا ایک شاندار انتظامی کیریئر رہ چکا ہے ۔اسی لئے انہیں پچھلے دنوں منعقدہ بھروسہ سبھا میں مایاوتی نے آشرواد دیتے ہوئے بحیثیت’ وزیر اعلیٰ امیدوار‘ ڈاکٹر پروین کے نام کا اعلان کیا تھا ۔
تلنگانہ میں پچھڑی ہوئی ذاتوں اور دلت طبقات کو جوڑنے اور متحدکرکے ان کی آبادی کے تناسب سے انتخابات میں نمائندگی کے لئے یہ لوگ کوشش کررہے ہیں ۔اسی لئے ان کا ماننا ہے کہ ’’جس کی جتنی سنکیا بھاری اس کی اتنی بھاگیداری ‘‘ یعنی آبادی کے تناسب سے جس کمیونٹی کی تعداد زیادہ ہے اس کی نمائندگی حکومت میں اتنی ہی زیادہ ہونی چاہئے ۔
اسی مناسبت سے بہوجن سماج پارٹی اور انکے رہنما تلنگانہ میں زمینی پیمانے پر کوششیں کررہے ہیں۔جس کے لئے انہوں نے 300 دنوں کی’ تلنگانہ یاترا‘ نکالی جو تین حصوں میں منقسم تھی ۔اس سفر کے دوران ریاستی صدر نے زمینی حالات کا جائزہ لیا اور مختلف مسائل کو ٹویٹر اور دیگر ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کی ۔
ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پچھلے مہینوں تلنگانہ پبلک سرویس کے تقریباً 16 پیپرز لیک ہوگئے تھے اس پر انہوں نے آواز اٹھائی اور ایک روزہ بھوک ہڑتال بھی کیا جس کے نتیجے میں امتحانات ملتوی ہوگئے لیکن پروین کمار کی مانگ یہ بھی تھی کہ تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن کی 6 رکنی باڈی کو تحلیل کرکے نئی باڈی ترتیب دی جائے کیونکہ موجودہ باڈی پروفیشنل نہیں ہے اوراس کے چئیر مین کا ذاتی بیک گراؤنڈ سروس کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ محض تعلقات کی بنیاد پر اس مقام تک پہونچا ہے ۔
یاد رہے کہ آزادیٔ ہند کے بعد سے متحدہ آندھرا پردیش میں اورقیام تلنگانہ کے بعد بھی ہمیشہ ریاستی پبلک سروس میں کسی نہ کسی مسلم شخص کی نمائندگی لازماًہوتی رہی ہے لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ موجودہ تلنگانہ پبلک سروس کمیشن کی مرکزی باڈی میں ایک بھی مسلم شخص موجود نہیں ہے ۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کئی سارے اندیشوں کو جنم دیتا ہے ۔
موجودہ تلنگانہ کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام میں کئی حوالوں سے درستگی اور سدھارازحد ضروری ہے کیونکہ عموماً تعلیم کے نام پر جب بھی کوئی سرکاری اسکول یا ادارہ قائم کرنےکی بات کی جاتی ہے تو اس کو قیام و طعام کے ساتھ منسلک کرکے کئی مسائل بیان کئے جاتے ہیں اور وہ معاملہ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے ولو بالفرض اگر اس قسم کے چند اسکولز قائم بھی ہوتے ہیں تو ان سے استفادہ کرنے والوں کا تناسب کل آبادی کے طلباء میں سے صرف 2 یا 3 فیصد ہوا کرتا ہے ۔بقیہ 97 یا 98 فیصد طلباء روزینہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جس میدان میں سرکاری اسکولوں کی حالت زار کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے اسی لئے اس میدان میں پرائیوٹ اسکولوں کا اچھا خاصا دبدبہ اور پولرائزیشن پایا جاتا ہے ،جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ تلنگانہ کے کئی سرکاری اسکولز کرائے کی عمارتوں میں چل رہے ہیں جن کے کرایوں کی ادائیگی بھی بروقت نہ ہونے کی وجہ سے مالکان ِعمارت سخت پریشان اور ارکان حکومت سے نالاں ہیں ۔اس موقع پر ایک سوال کا پیدا ہونا فطری ہے کہ آخر حکومت اپنے پاس وسیع پیمانے پر اراضی اور پرکشش بجٹ کے باوجود سرکاری زمینوں پر مستقل عمارتیں کیوں قائم نہیں کی ہے؟ تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ اس کا ایک اہم مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ عوام کو ہمیشہ سرکار کے آگے ہاتھ پھیلانے والا بنا کر رکھا جائے اسی طرح اگر بیک وقت مکمل انفراسٹرکچر تیار کرنے کا پروجیکٹ منظور کیا جائے تو پھر اس کے لئے کروڑوں روپیوں کی لاگت آسکتی ہے انہیں رقومات کو بچانے کیلئے حکومت اس جانب توجہ نہیں دے رہی ہے ۔اسی طرح تعلیم کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ پچھلے تقریباً پانچ سالوں سے معصوم بچوں کے لئے پری اسکول کٹ بھی حکومت کی جانب سے نہیں آئی ہے کیونکہ دو سال تو ویسے ہی کوویڈ میں گزر گئے اور بقیہ تین سالوں میں حکومت نے ایک مرتبہ چھتیس گڑھ والے کو ٹینڈر دیا اور ایک مرتبہ کسی دلی کے شخص کو لیکن دونوں ہی مرتبہ سامان بچوں تک نہیں پہونچ پایا ۔غرض اس طرح کے اور بھی کئی مسائل تعلیم کے حوالے سے تلنگانہ میں پائے جاتے ہیں جن کی جانب توجہ کی سخت ضرورت ہے ۔
اسی طرح ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ’دلت بندھو اسکیم ‘کے تحت یک مشت نقدی دلت افراد کے حوالے کر دی جاتی ہے جو بغیر کسی سخت کرائیٹیریا کے ہوتی ہے جس کے تحت ایک مرتبہ دس لاکھ روپئے دے دئے جاتے ہیں اور ہمیشہ کیلئے ان کی زبان بند کردی جاتی ہے جبکہ اس ضمن مین بہوجن سماج پارٹی جوکہ دلت اور تمام پچھڑے طبقات کی نمائندگی کرتی ہے اس نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ دلت بندھو کو ایک مرتبہ دس لاکھ روپئے دے کر خاموش کرادینےسے بہتر ہے کہ ان کے لئے روزگار کے مواقع پیش کئے جائیں یا انہیں کوئی بزنس لگاکر دیا جائے تاکہ وہ اس کے ذریعہ اپنی معاشی حالت کو بہتر بناسکے ۔اور اس پارٹی کا یہ ماننا ہے کہ سرکاری روزگار سے بہتر ہے کہ سیلف امپلائی مینٹ پر فوکس کیا جائے۔اور جو بھی سرکاری ٹینڈر ہوتے ہیں وہ عموماً ارکان حکومت کے قریبی رشتے داروں ، دوست احباب یا پھر کسی بڑے مالدار شخص کو ہی دئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے امیر اور امیرترین ہوتے جا رہے ہیں اور غریب مزید غریب ترین بن رہے ہیں لہذا ٹینڈرز بھی آبادی کے تناسب کے حساب سے ہی مختلف ذاتوں اور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو دئے جائیں تاکہ سرکاری امور میں بھی پولرائزیشن کو ختم کیا جاسکے ۔
بعض ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ تلنگانہ میں فی الوقت رشوت اپنے عروج پر ہے تقریباً کئی سرکاری معاملات میں کہیں نہ کہیں عوام کو رشوت سے واسطہ پڑتا ہےجس میں گتے داروں کو کئی ساری بل کی رقومات ریلیز کروانے کیلئے بھی 5 سے 6 فیصد کمیشن ادا کر نا پڑتا ہے ورنہ صرف انتظار کرنا پڑتا ہے اپنے حق کے پیسے تو نہیں ملتے صرف وعدے اور امیدوں پر ہی بہلادیا جاتاہے ۔
تعلیم ، روزگار اوررشوت کے علاوہ اور بھی کئی مسائل ہیں جیسے صحت کی سہولیات کو ریاست میں ممکنہ مقدار تک آسا ن بنانا وغیرہ ۔ان تمام میں اصلاحات کے لئے بہوجن سماج پارٹی کام کرنے کا دعویٰ کررہی ہے ۔ جس کے لئے انہوں نے مکمل انتخابات کی تیاری کرلی ہے اور آبادی کے تناسب سے ہی امیدوار طئےکرنے کیلئے بی ایس پی سے اس الیکشن میں 10 کے قریب مسلم امیدوار کھڑے کئے جائیں گے ۔اور بی ایس پی کے امیدوار تلنگانہ کی مکمل 119 سیٹوں پر کھڑے کئے جائیں گے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کسی بھی پارٹی کے ساتھ الائنس کرنے کے موقف میں نہیں ہیں اس بابت جب ریاستی صدر پروین کمار سے سوال کیا گیا تو انہوں نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ ’’بی ایس پی واحد سیکولر پارٹی ہے جو آئین کی حفاظت کرنے کی پابند ہے اور یہ بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کرتی رہتی ہے ۔ اسی طرح دوسری تمام قومی پارٹیاں ’بہوجن سماج‘کو مستقل بھوکمری اور بھکاری کی حالت میں رکھ رہی ہیں جبکہ بی ایس پی کمزور شہریوں کو بااختیار بنانا اور انہیں حکمرانی کے قابل بنانا چاہتی ہےاسی وجہ سے مستقل جدوجہد جاری ہے ۔اور بی ایس پی کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ بغیر کسی الائنس کےتن تنہا متعصب اور فرقہ وارانہ طاقتوں سے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور حالیہ الیکشن کے تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں 50 تا 60 فیصد سیٹوں پر جیتنے کا ٹارگیٹ بنائے ہوئے ہیں ۔ ‘‘جب ان کی طاقت کے حوالے سے پوچھا گیا کہ جس طاقت کی بات وہ کررہے ہیں وہ کیا ہے تو ان کا یہ کہنا تھا کہ بہوجن میں ایس سی – ایس ٹی- او بی سی ، مینارٹی اور تما م کمزور طبقات مل کر بھارت کا تقریباً 80 فیصد کے قریب ہوتے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی طاقت ہے اور وہ منتشر ہے اسی طاقت کو متحد کرنے کی کوششوں میں بی ایس پی مصروف ہے ۔ او ر بی ایس پی کا یہ بھی ٹارگیٹ ہے کہ انتخابات کے موقعوں پر جو پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اس رواج کو بھی ختم کیا جائے اسی لئے ان کے بڑے سے بڑے پروگرام میں جتنے بھی لوگ ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں پارٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ ہر فرد اپنے ذاتی خرچ پر آتا ہے اور ساتھ میں اپنا توشہ بھی لاتا ہے یعنی کھانے کا تک انتظام پارٹی کی جانب سے نہیں کیا جاتا جو کہ ایک بہت بڑی فکری اور تعمیری تبدیلی کہلائی جاسکتی ہے ۔
غرض ریاست تلنگانہ میں 30 نومبر کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں جبکہ ووٹوں کی گنتی 03 دسمبر 2023 کو مقرر ہے اور جب انتخابات قریب ہوں تو ہر پارٹی کا یہی دعویٰ رہتا ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کردار ادا کررہی ہے اور اس کے نہایت ہی بلند عزائم ہیں لیکن انتخابات کے نتائج طئے کریں گے کہ آیا تلنگانہ میں سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بی آر ایس پر عوام نے اعتماد کیا ہے یا کانگریس کے وعدوں سے متاثر ہو کر انڈیا الائنس کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے یا پھر بی جے پی ، مجلس اتحاد المسلمین اور بی ایس پی جیسی پارٹیاں کچھ اور ہی کردار ادا کرتی ہیں یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
***
***
ریاست تلنگانہ میں 30 نومبر کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں جبکہ ووٹوں کی گنتی 03 دسمبر 2023 کو مقرر ہے اور جب انتخابات قریب ہوں تو ہر پارٹی کا یہی دعویٰ رہتا ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کردار ادا کررہی ہے اور اس کے نہایت ہی بلند عزائم ہیں لیکن انتخابات کے نتائج طئے کریں گے کہ آیا تلنگانہ میں سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بی آر ایس پر عوام نے اعتماد کیا ہے یا کانگریس کے وعدوں سے متاثر ہو کر انڈیا الائنس کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے یا پھر بی جے پی ، مجلس اتحاد المسلمین اور بی ایس پی جیسی پارٹیاں کچھ اور ہی کردار ادا کرتی ہیں یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023