جنسی بے راہ روی کا سیلاب بلا خیز
آوارہ خیال عناصراور غیرذمہ دار میڈیا خاندانی نظام کی تباہی کے درپے
نور اللہ جاوید، کولکاتا
اخلاقی بحران سے سماجی تانے بانے کو شدید خطرات
شردھا قتل کو مذہب سے جوڑنے پر سارا زورصرف۔’لیو اِن ریلشن شپ‘ پر اٹھنے والے سوالات نظرانداز
خاندانی نظام کے بناو و بگاڑ کے ذمہ دار عوامل میں حکومت، قوانین اور سماج پر گہرا اثر ڈالنے والے میڈیا کا اہم رول ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں عدالتوں نے ہم جنسی کی شادیوں، اسقاط حمل ،ماورائے شادی جنسی تعلقات اور نکاح و طلاق سے متعلق کچھ ایسے فیصلے کیے ہیں جن سے بھارتی سماج پر خطرناک دور رس اثرات مرتب ہونے کے اندیشے پیدا ہو گئے ہیں۔ اور عالمی نسوانی تحریکات جیسے ’’میرا جسم میری مرضی مہم‘‘ ایران میں حجاب مخالف احتجاج اور سینما، ٹی وی اور OTT سیریلوں میں آزادانہ غیر ازدواجی تعلقات کو خوشنمائی کے ساتھ پیش کرنے کے نتیجے میں ایک ہیجان انگیز ہی نہیں بلکہ بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ شردھا کا آفتاب کے ساتھ ’لو ان ریلیشن شپ‘ میں ناجائز طریقے سے رہنا لبرل یا آزاد خیال طبقوں کی نظر میں قطعی غلط نہیں تھا تو دوسری طرف دائیں بازو کی دھرم سنسکار کی علم بردار ٹولیوں کے نزدیک یہ ایک ناپید اور خیالی ’’لو جہاد‘‘ کا کیس بن گیا۔ حالاں کہ آفتاب کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے، وہ بالکل ایک غیر مذہبی آدمی ہے ۔اس نے اپنے کسی بھی پوسٹ میں مذہب پر مبنی تبصرے نہیں کیے ہیں ۔اس کے باوجود شردھا کے قتل کو آفتاب کے دینی جذبے سے مربوط قتل باور کروایا جارہا ہے ۔اس بے راہ روی کو اسلام کی ایک نہایت مقدس اصطلاح جہاد سے جوڑ کر مسلمانوں کو بدنام کرنے کا ایجنڈا پورا کرنے میں میڈیا مصروف ہوگیا ہے اور ان سوالوں کو سرے سے ہی غائب کر دیا گیا جن کے اٹھانے سے شردھا کے بہیمانہ قتل کا اصل محرک سامنے آسکتا تھا اور اس بات کا پتہ چلایا جا سکتا تھا کہ آخر آفتاب کو اتنے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کی ہمت کیسے ہوئی؟ شردھا کے اپنے والدین کا گھر چھوڑنے کے اسباب پر کسی نے بات نہیں کی۔ شردھا نے کن حالات میں اپنا گھر چھوڑا اور وہ کون سے عوامل تھے جس نے شردھا میں یہ جرأت پیدا کی کہ نام نہاد محبت کی خاطر اس نے والدین کا گھر چھوڑنے کو ترجیح دی۔ دو نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ملانے والی ویب سائٹس کے طریقے کار کیا ہیں؟ یہ وہ سوالات تھے جن پر شردھا کے قتل کے سلسلے میں بات ہونی چاہیے تاکہ ملک میں مزید ایسے کسی واقعہ کا اعادہ نہ ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ شردھا کا اس طرح قتل کوئی پہلی واردات نہیں ہے۔ دو دن قبل ہی اداکارہ وانی کپور کی بیٹے کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کی واردات سامنے آئی ہے۔ شردھا کے قتل کا واقعہ جن دنوں روشنی میں آیاتھا انہی دنوں دہلی سے متصل غازی آبادی میں ایک خاتون کی جانب سے مرد آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کا قتل کر کے گھر میں دفن کردینے کا واقعہ سامنے آیا۔ مگر قتل کے ان دونوں واقعات پر میڈیا میں کوئی چیخ و پکار نہیں ہوئی۔ دراصل ان واقعات میں فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے میڈیا کو کچھ نہیں ملا۔ مغرب کی اندھی تقلید کے سنگین نتائج اور اخلاق باختہ سوچ و فکر پر اٹھنے والا سوالات درکنار ہو گئے، اس لیے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والے اور اخلاقیات کا جنازہ نکالنے والے آزاد خیال افراد نے جنہیں آوارہ خیال کہنا زیادہ صحیح ہو گا، اس معاملے میں خاموش رہے۔ نوجوانوں کو شادی جیسے مقدس رشتے کے بندھن میں جوڑنے سے گریز، ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ کے رجحانات میں اضافہ اور ہم جنسی پرستی کی کھلے عام حمایت کے بھارتی معاشرہ پر نہایت مضر اثرات پڑ رہے ہیں لیکن اس سے متعلق سوالات کو بھی غائب کر دیا گیا ہے۔
’’ہفت روزہ دعوت‘‘ کے گزشتہ سے پیوستہ شمارے میں قطر میں جاری عالمی فٹ بال کپ پر مغرب کی ناراضگی اور پروپیگنڈے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا تھا۔ مغرب کی تمام تر خواہشات کے باوجود کامیابی کے ساتھ عالمی فٹ بال کپ اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے ۔تاہم اس درمیان قطر کو کئی امور پر مطعون کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ان میں ہم جنس پرستی کی حمایت کا مسئلہ سب سے زیادہ چھایا ہوا ہے۔ قطر نے عالمی فٹ بال کپ کے دوران ہم جنسی پرستی کی حمایت میں ہر قسم کے مظاہروں اور نمائش پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس پر یورپی میڈیا مسلسل قطر کی تنقید کر رہا ہے۔ یورپی شائقین میں کئی اس پابندی کی خلاف ورزی کی کوشش کررہے ہیں۔جرمن سفیر بذات خود اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آئے۔ ایسے میں یہ بات قابل غور ہے کہ مغرب کو ایل جی بی ٹی (ہم جنس پرستوں) سے اس قدر ہمدردی کیوں ہے؟ انسانوں کو غلام بنانے والے، انسانی بستیوں پر ایٹم بم گرانے والے اور شہروں و دیہاتوں کو کلٹسر بموں سے ویران کرنے والے حقوق انسانی کے ان نام نہاد چمپیئنوں کی ہم جنسی پرستی کی پرزور حمایت کے اسباب کا تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ کہیں اس حمایت کے پیچھے اقتصادی منافع کارفرما تو نہیں ہے؟
کیوں کہ ہم جنس پرستی اور جنسی بے راہروی سے نہ صرف خاندان تباہ ہو رہے ہیں بلکہ انسانی صحت کو بھی خطرے سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ خود امریکہ اور یورپ کے آزاد ادارے جنسی بے راہ روی اور ہم جنسی پرستی کے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں مگر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔
حالیہ برسوں میں ملک میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات میں تیزی سے اضافے کے اسباب پر بھی غور کرنا چاہیے۔سخت قوانین اور پولیس کی سخت سیکورٹی کے باوجود ملک کے بڑے شہر خواتین کے لیے غیر محفوظ کیوں بنتے جا رہے ہیں؟ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں خواتین کے لیے کام کرنا کیوں مشکل ہوتا جا رہا ہے؟ ایک سروے کے مطابق ملک کے سات شہروں بنگلورو، چنئی، دہلی، حیدرآباد، کولکاتہ، ممبئی اور پونے میں 527 افراد میں سے 19 فیصد افراد نے تسلیم کیا کہ انہیں دفتر میں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بنگلورو میں 51 فیصد کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا، جب کہ دہلی 31 اور حیدرآباد میں 28 فیصد نے کہا کہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے۔ ان 7 شہروں میں 38 فیصد نے کہا کہ کام کی جگہوں پر مرد بھی خواتین کی طرح جنسی طور پر ہراسانی کے شکار ہوتے ہیں۔ کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کی شکایات کی کل تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے لیے ذمہ دار کون ہے۔آخر ہمارے شہر خواتین کے لیے غیر محفوظ کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی بینک کی 2022 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے لیے سفر کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ 80 فیصد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے مگر ان میں سے صرف دو فیصد خواتین اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرأت کر پاتی ہیں کیوں کہ ان خواتین کا نظام پر بھروسہ ختم ہو چکا ہے۔ انہیں یقین نہیں ہے کہ ان کی شکایات کا ازالہ ہو سکے گا۔
بھارت جنسی بے راہ روی کی قیمت جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کی شکل میں چکا رہا ہے
جنسی بے راہ روی کا طوفان کوئی چند سالوں میں نہیں آیا ہے بلکہ اس کی جڑیں 18ویں صدی کے نصف آخر میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب سے ملتی ہیں۔ 1760 کی دہائی سے شروع ہونے والے صنعتی انقلاب نے لاکھوں گاوؤں کو اجاڑ دیا، بڑی تعداد میں لوگ روزگار کی خاطر دیہاتوں سے شہروں کی طرف کوچ کر گئے۔ اس کے نتیجے میں یورپ میں بڑے بڑے شہر تو آباد ہوئے لیکن اس کی وجہ سے وہاں کا خاندانی نظام کمزور ہو گیا۔ رہی سہی کسر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مرد وعورت کے درمیان عدم تناسب نے پوری کر دی۔ خواتین اپنے خاندان کا وجود برقرار رکھنے کے لیے قلیل معاوضہ اور طویل دورانیہ کے لیے کام کرنے پر مجبور ہوئیں۔ سرمایہ داروں نے ان محنت کش خواتین کا نہ صرف استحصال کیا بلکہ عزت و عصمت کا بھی سودا کیا۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پیداوار میں اضافہ ہوا اور اس پیداوار کی کھپت کے لیے لوگوں میں صارفیت کا رجحان پیدا کرنے کے لیے جنسی بے راہ روی اور خواہشات کو بے لگام کرنے کی مہم شروع کر دی گئی اور ان سب میں خواتین اہم کردار ادا کر سکتی تھیں۔چناں چہ نسوانی تحریک کے ذریعہ خواتین کو جنسی بے راہ روی کے اس میدان میں پہنچادیا گیا جہاں وہ ماں، بہن، بیوی یا بیٹی نہیں رہی بلکہ جنسی کشش اور دعوت عیش کا نمونہ بن گئی۔ فیمنزم کی تحریک نے خواتین کو ایک ایسے مرحلے میں پہنچا دیا جہاں شادی کو ہی چیلنج کر دیا گیا۔شادی کو عورت کو محکوم بنانے کی مردانہ سازش کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ چند دہائی قبل تک دوسری اور تیسری دنیا اور خود یورپ میں بھی غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو غیر قانونی اور اخلاق باختگی قرار دے کر اس میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جاتی تھی۔ بعد میں فیمنزم کی تحریک شروع ہوئی جس کے نتیجے میں امریکہ، اٹلی، فرانس، اسپین او سوئٹزرلینڈ لینڈ کے علاوہ کئی ایشیائی ممالک مثلا جاپان اور جنوبی کوریا میں ماورائے شادی جنسی تعلقات کو جرائم کی فہرست سے نکال کر جائز قرار دیدیا گیا۔ اور اب ان ممالک کی فہرست بھارت بھی شامل ہو گیا ہے۔ پہلے بھارت میں ماورائے شادی جنسی تعلقات رکھنے کو تعزیرات ہند کی دفعہ 497 کے تحت غیر قانونی اور جرم تصور کیا جاتا تھا۔اس کی رو سے غیر ازدواجی جنسی تعلقات رکھنے والے مرد کو پانچ سال تک کی سزا ہوتی تھی مگر سپریم کورٹ نے بیک جنبش قلم غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو جرائم کے زمرے سے خارج کر کے غیر اخلاقی جنسی تعلقات کو جائز قرار دے دیا۔ علاوہ ازیں ہم جنس پرستی کے جواز پر بھی سپریم کورٹ نے مہر لگا دی کہ دفعہ 377 دقیانوسی سوچ کا نتیجہ ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جنسی بے راہ روی کو جواز بخشنے کے لیے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت والی بنچ نے آئین کی دفعات 14 اور 21 کو بطور ثبوت استعمال کیا کہ یہ دونوں دفعات شخصی آزادی کی ضمانت دیتی ہیں۔ ایک طرف مختلف قوانین کے ذریعہ شخصی آزادی، اظہار خیال کی آزادی پر قدغن لگانے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف معاشرے کو تہ و بالا کردینے والے اقدامات کو ان دو دفعات کے نام پر جواز بخشا جا رہا ہے۔ عدالت نے ماوارئے شادی جنسی تعلقات رکھنے پر جرم قرار دینے والے تعزیرات ہند کی دفعہ 497 اور ہم جنسی کو غیر قانونی قرار دینے والی دفعہ 377 کو دقیانوسی اور شخصی آزادی پر روک لگانے والی قرار دے کر کالعدم قرار دیدیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھارتی سماج پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کا اندازہ National Opinion Reacherch Centre University of Chicago کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔بھارت میں 25 فیصد مرد اور 17 فیصد خواتین نے اعتراف کیا کہ ان کے غیر ازدواجی تعلقات ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 65 فیصد غیر ازدواجی جنسی تعلقات کا نتیجہ علیحدگی پر منتج ہوتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان عدم اعتماد کے نتیجے میں قتل اور سازش کا معاملہ بھی سامنے آتا ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ شردھا اور آفتاب میں سے کسی ایک کے ایک سے زائد جنسی تعلقات تھے اسی وجہ سے دونوں کے درمیان عدم اعتمادی اور تناو پیدا ہوا۔ چوں کہ ان دونوں کے تعلقات لیو ان ریلیشن شپ کے نتیجے میں تھے، اس میں والدین کی رضامندی شامل نہیں تھی، والدین سے دونوں کے بھی روابط نہیں تھے کہ وہ اپنے مسائل اپنے بڑوں کے ذریعے حل کر سکتے تھے۔ ڈپریشن اور تنازع نے اس معاملے کو اس انجام تک پہنچا دیا۔ شردھا کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ جن دنوں یہ معاملہ روشنی میں آیا انہی دنوں ایک اور خبر سامنے آئی کہ دلی سے متصل غازی آبادی میں ایک خاتون نے اپنے مرد آشنا کے ساتھ مل کر پہلے اپنے شوہر کا قتل کر کے اسے گھر میں ہی دفن کر دیا اور پھر پولیس میں شوہر کی گمشدگی کی خبر درج کرادی۔ کئی مہینوں کے بعد اصل واقعہ سامنے آسکا۔ شخصی آزادی کے نام پر سپریم کورٹ نے تعزیرات ہند کی دفعہ 497 کو اگرچہ منسوخ کردیا ہے مگر اس کی منسوخی سے ہونے والے اثرات کا جائزہ نہیں لیا کہ بھارتی سماج غیر ازدواجی تعلقات کی وجہ بکھر کر رہ جائے گا اور اس کے نتیجے میں کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ جس مغربی تہذیب کی تقلید کی جا رہی ہے اس کی اپنی صورت حال بھی کس قدر بھیانک ہو چکی ہے اس کا اندازہ ’’دی گارجین‘‘ کی ایک رپورٹ جو 4 جولائی 2022 کو اقتصادی امور کے نامہ نگار رچرڈ پارٹنگٹن نے تحریر کی ہے، کے مطابق برطانیہ میں 1.8 ملین بچے سنگل والدین کے ساتھ رہتے ہیں اور ان میں سے نصف غربت کے شکار ہیں۔اس کی وجہ سے معاشرتی اور اقتصادی اثرات گہرے مرتب ہو رہے ہیں، بچوں کو صحیح تعلیم و تربیت نہیں ملنے کی وجہ سے ان کے جرائم میں ملوث ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ان بچوں میں ذہنی تناو اور ڈپریشن بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
بی بی سی کے ہانا رچرڈسن نے برطانیہ میں خاندانی ٹوٹ پھوٹ سے متعلق اپنی رپورٹ میں سنٹر فار سوشل جسٹس کے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے ’’برطانیہ کے دس لاکھ سے زائد بچے باپ کے بغیر پروان چڑھ رہے ہیں۔ ایسے بچوں کی تعداد میں سالانہ بیس ہزار سے زیادہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ محض چند سالوں میں ایسے بچوں کی تعداد بیس لاکھ سے زائد ہوجائے گی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے 40 سالوں سے سنگل والدین گھرانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور اب 30 لاکھ بچے باپ کے بغیر اپنی ماؤں کے ساتھ بڑے ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ باپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے نوجوانوں کے جرائم، وضع حمل اور جنسی بے راہ روی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشتر بچوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہے ان کا باپ کون ہے؟ بی بی سی کے اس رپورٹ میں لیورپول کے ریور سائیڈ وارڈ کے ایک محلے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 65 فیصد گھرانوں میں کوئی باپ موجود نہیں ہے۔انگلینڈ اور ویلز میں 236 جیب والے قصبے ہیں جہاں 50 فیصد سے زیادہ گھرانوں کے زیر کفالت بچے ہیں جن کی سرپرستی اکیلی ماں کرتی ہے۔رپورٹ میں شادی کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ شادی شدہ جوڑے کو ٹیکس میں رعایت دی جائے۔ مشہور انگریزی جریدہ دی اکانومسٹ ٹائمس نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ برطانیہ میں بہت جلد ایسے بچے اکثریت میں ہوں گے جن کے والد کا کوئی سراغ نہیں ہے۔
ہم جنس پرستی اور شادی سے ماورا جنسی تعلقات کے طبی نقصانات
اکانومکس فرسٹ آر ہیلتھ فرسٹ (Economics First or Health First) کے مصنف ڈاکٹر جاوید جمیل ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ
جنسی بے راہ روی کو فرو غ دینے کے پیچھے دراصل اکنامکس اور اقتصادیاتی ترقی کارفرما ہے۔ جنسی بے راہ روی اور ہم جنس پرستی کے فروغ کی وجہ سے انسانی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں مگر دوسری طرف اس کی وجہ سے میڈیکل انڈسٹری کا کاروبار بڑھتا ہے۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ ترقی اور فروغ پانے والی میڈیکل انڈسٹری ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سائنس کے محققین کا اتفاق ہے کہ شادی ہی سب سے زیادہ محفوظ جنسی تسکین کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ جتنے طریقے ہیں وہ سب کے سب غیر محفوظ ہیں۔ایک سے زائد مرد سے جنسی تعلقات قائم کرنے والی خواتین کو صحت کے متاثر ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ یہی صورت حال ہم جنس پرستی کی بھی ہے۔ ایڈس سے اب تک چار کروڑ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تو پھر عالمی طاقتیں Promiscuity (ایک سے زائد مردوں سے جنسی تعلقات) کو جرائم کی فہرست سے کیوں نہیں نکالتیں اور ہم جنسی پرستی کی حمایت کیوں کرتی ہیں؟
ولیمینٹک میں ایسٹرن کنیکٹیکٹ اسٹیٹ یونیورسٹی میں نفسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈیرڈری لی فٹزجیرالڈکی ایک تحقیق کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ جنسی بے راہ روی دنیا کا سب سے زیادہ خطرناک عمل ہے۔ فلیگ کے پھیلنے کے پیچھے بھی یہی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ STDs بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے امریکی مراکز کی رپورٹ کے مطابق کہ ہر سال 19 ملین نئے STD انفیکشن ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ عام STDs میں کلیمائڈیا، سوزاک اور آتشک ہیں، لیکن سب سے زیادہ عام ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) ہے۔ HPV منہ یا جنسی اعضاء کو متاثر کرتا ہے جبکہ زیادہ تر لوگ جانتے ہی نہیں کہ وہ متاثر ہیں۔ HPV کا تعلق سروائیکل کینسر اور منہ اور گلے کے کینسر سے بھی ہے۔ ڈیرڈری لی فٹزجیرالڈ کہتے ہیں کہ ڈپریشن میں جنسی توازن کے کھونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بہترین جذباتی، جسمانی اور جنسی صحت طویل مدتی تعلقات میں ہی مضمر ہے۔ اگر آپ ایک سے زائد تعلقات قائم کرتے ہیں تو پھر آپ کو اس کی قیمت پر بھی غور کرنا چاہیے جو صحت اور عمر دونوں کو متاثر کرتی ہے۔ ایک سے زائد خواتین یا مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے کی وجہ (STDs) اور HIV/AIDS اور دیگر جان لیوا بیماریاں جیسے پروسٹیٹ کینسر، سروائیکل کینسر، اور منہ کے کینسر کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
ڈاکٹر جاوید جمیل کہتے ہیں کہ ہم جنس پرستی کے بارے میں مغرب کا رویہ ہمیشہ سے متضاد رہا ہے۔ ایک طرف وہ ہم جنس پرستی کو انسانی جذبے سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کی آزادی کی پرزور وکالت کرتے ہیں تو دوسری طرف اس سے ہونے والے نقصانات پر رپورٹیں بھی پیش کرتے ہیں اور ٹرانسجینڈر اور ہم جنسی پرستی دونوں کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ ٹرانسجینڈر کا وجود حقیقی ہے۔ اس کے اپنے مسائل ہیں مگر مردوں کے مرد سے اور خواتین کے خواتین سے جنسی تعلقات تو بالکل الگ امر ہے۔ان دونوں کوایک دوسرے سے خط ملط نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جنس پرستوں کی عمریں اس کی وجہ سے 25 سے 30 سال کم ہو جاتی ہیں، ایسے جوڑے کے سوزاک، کلیمیڈیا، آتشک، ہرپس، ایچ آئی وی/ایڈز اور دیگر جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن، آنتوں کے انفیکشن، کینسر، شراب نوشی، خود کشی کرنے کے امکانات میں 60 فیصد اضافہ ہوتا ہے، ایسے میں انسانی صحت کو تباہی کے غار میں دھکیلنے والی عادتوں کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے اس کی حمایت اور فروغ پر قوت کیوں صرف کی جاتی ہے۔ دراصل یہ مغرب کی مادیت پرستی اور اقتصادی ترقی کی لالچ کا نتیجہ ہے۔جنسی بے راہ روی اور ہم جنسی پرستی اگر ختم ہوجائیں گے تو اتنی بڑی بھیانک بیماریاں بھی نہیں ہوں گی اور پھر دواوں، اسپتال اور جانچ کے نام پر کارروبار بھی نہیں ہو گا۔ افریقی ممالک میں ایڈز کے پھیلنے کے عوامل کو بھی ذہن نشیں رکھنے کی ضرورت ہے۔
جنس اور جنسیت پر متعدل رویہ اختیار کرنے کی ضرورت
جنسیت کا موضوع ہمیشہ سے حساس رہا ہے مگر اس مسئلے کو ہمیشہ دو انتہاوں کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ ایک طرف جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے قانون، اخلاقی، مذہبی و معاشرتی پابندیوں سے آزادی کی وکالت کی جاتی ہے تو دوسری طرف جنسیت اور جنسی خواہشات کی ضرورت کی نفی کی جاتی ہے۔ جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنسیت کو انسانی جبلت کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اس کو معاشرتی و مذہبی اصول و ضوابط کے تحت پابند کر دیا جائے تو اس سے نہ صرف انفرادی طور پر فوائد حاصل ہوں گے بلکہ اسی پر انسانی معاشرے کی بقا اور ترقی کا انحصار بھی ہے۔
تاریخ انسانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب بھی جنسیت عام ہوئی اس کی بھاری قیمت معاشرے کو چکانی پڑی ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ڈپریشن اور اس کے نتیجے میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے وہ اسی جنسی بے راہ روی کا نتیجہ ہے۔ یونان، روم، ہندستان، نیز قدیم مصری تہذیبوں کے خاتمے میں جہاں ناانصافی، طبقاتی تفریق اہم وجوہات رہی ہیں وہیں بے لگام جنسیت بھی اہم عامل رہا ہے۔ جس قوم میں
بے لگام جنسیت عام ہو جاتی ہے اس قوم کو نیست و نابود ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ بھارت میں جنسی بے راہ روی اور ہم جنس پرستی خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا بھارت بے باپ کے دو ملین بچوں کی تربیت اور نگہبانی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ صحیح تعلیم و تربیت نہیں ہونے کی صرف اتنی بڑی تعداد اگر جرائم سے جڑ جاتی ہے تو کیا ملک ان جرائم پر قابو پانے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اس لیے جنسیت کو عام کرنے والے ادارے، ویب سائٹس، ٹی وی پروگرامس اور OTT جیسے پلیٹ فارمس کو اخلاقی اصول و ضوابط کا پابند بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں جرم کے ہر ایک واقعے کو فرقہ وارنہ یا سیاسی نقطہ نظر سے دیکھنے کے بجائے انسانی فطرت، اس کے تقاضے اور معاشرتی ماحول کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ شردھا اور آفتاب کے واقعے کو جس طریقے سے میڈیا میں ہائی لائیٹ کیا گیا اور گجرات اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران لو جہاد سے جوڑ کر سیاسی نفع اٹھانے کی کوشش کی گئی اگر انتخابی موسم نہیں ہوتا تو شاید اس کا میڈیا پر اتنا واویلا نہیں مچایا جاتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنایا جائے جنسی بے راہ روی کے نقصانات اور اس کے منفی اثرات سے نئی نسل کو آگاہ کیا جائے۔ لیو ان ریلشن شپ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ مادر پدر آزاد تہذیب کی تقلید کرنے کے بجائے مشرقی اقدار اور تہذیب سے رشتہ استوار کیا جائے۔
***
***
’’جنسی بے راہ روی کو فرو غ دینے کے پیچھے دراصل اکانومکس اور اقتصادیاتی ترقی کارفرما ہے۔ جنسی بے راہ روی اور ہم جنس پرستی کے فروغ کی وجہ سے انسانی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں مگر دوسری طرف اس کی وجہ سے میڈیکل انڈسٹری کا کاروبار بڑھتا ہے ۔آج دنیا میں سب سے زیادہ ترقی اور فروغ پانے والا میڈیکل انڈسٹری ہی ہے ۔ وہ سوال کھڑا کرتے ہیں کہ سائنس کے محققین کااتفاق ہے کہ شادی ہی سب سے زیادہ محفوظ جنسی تسکین کا ذریعہ ہے ۔اس کے علاوہ جتنے طریقے ہیں وہ سب کے سب غیر محفوظ ہیں ۔ایک سے زاید مرد سے جنسی تعلقات قائم کرنے والی خواتین کی صحت کے متاثر ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔یہی صورت حال ہم جنس پرستی کی ہے۔ایڈس سے اب تک چار کروڑافراد کی موت ہوچکی ہے۔تو پھر عالمی طاقتیں Promiscuity(ایک سے زاید مردوں سے جنسی تعلقات )کو جرائم کی فہرست سے کیوں نکالتے ہیں اور ہم جنسی پرستی کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔‘‘(ڈاکٹر جاوید جمیل)
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 ڈسمبر تا 24 ڈسمبر 2022