جے آئی ایچ نے ہلدوانی میں بے دخلی کی مہم پر سپریم کورٹ کے امتناعی حکم کا خیرمقدم کیا، کرناٹک اور دیگر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں فرقہ پرستی کو فروغ دینے پر تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی، جنوری 7: جماعت اسلامی ہند نے سپریم کورٹ کی جانب سے ہلدوانی میں بڑے پیمانے پر بے دخلی پر روک لگانے کا خیر مقدم کیا ہے اور معاشرے میں خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے بڑھتی ہوئی بے حسی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ہفتہ کو اپنے ہیڈ کوارٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے جے آئی ایچ کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ حکم امتناعی سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد مضبوط ہوگا۔

جے آئی ایچ کے اسسٹنٹ سکریٹری واثق ندیم خان، جو جے آئی ایچ کے سکریٹری ملک معتصم خان کی قیادت میں ہلدوانی جانے والی جے آئی ایچ کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ تھے، نے کہا کہ اس پوری مشق کا مقصد تھا شہر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا۔

انھوں نے نشان دہی کی کہ علاقے میں بڑی تعداد میں مسلم ووٹروں کی موجودگی بی جے پی کی ہلدوانی اسمبلی سیٹ جیتنے کی راہ میں رکاوٹ بنی اور یہی وجہ تھی کہ عدالتی مداخلت کے ذریعے مسلم آبادی کو بے دخل کرنے کی بیک ڈور کوشش کی گئی تاکہ مستقبل کے انتخابات میں بی جے پی اس سیٹ کو جیت سکے۔

انھوں نے کہا کہ متاثرہ علاقے میں غیر مسلم آبادی بھی ہے لیکن مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت ہے۔

قومی راجدھانی میں تقریباً 12 کلومیٹر تک ایک کار سے گھسیٹی جانے والی انجلی سنگھ کی المناک موت، ایک 17 سالہ لڑکی پر اسکول جاتے ہوئے تیزاب سے حملے اور چھتیس گڑھ کے کوربا ضلع میں ایک عورت کو اس کا پیچھا کرنے والے کے ذریعے 51 بار چھرا گھونپے جانے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ ’’یہ سب کچھ معاشرے کی بڑھتی ہوئی بے حسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف جرائم میں کمی نہ آنا افسوسناک ہے۔ انھوں نے کہا کہ این سی آر بی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2021 میں خواتین کے خلاف مجرمانہ مقدمات میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے 32 فیصد کیسز ’’شوہروں کے ظلم‘‘ سے متعلق تھے۔

یہ بتاتے ہوئے کہ اسلام نے خواتین کو بہت زیادہ عزت اور احترام دیا ہے پروفیسر سلیم نے خواتین کے تئیں لوگوں کا نظریہ اسکول کی سطح سے ہی بدلنے کی ضرورت کا اظہار کیا۔

پروفیسر سلیم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’لوگوں کو خواتین کی عزت کرنے اور ان پر مظالم اور بے حسی کو ختم کرنے کے لیے حساس بنانا ضروری ہے۔‘‘

کرناٹک اور دیگر ریاستوں میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جے آئی ایچ رہنما نے کہا کہ ’’یہ تشویش ناک ہے کیوں کہ کرناٹک میں بھی اور بہت جلد قومی سطح پر اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔‘‘

پروفیسر سلیم نے کہا ’’کالجوں میں حجاب پہننے کی مخالفت، ہندو تہواروں میں مسلمانوں کو اسٹال اور دکانیں لگانے سے منع کرنے اور عیسائی اجتماعات پر حملہ کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ کرناٹک میں نفرت اور تعصب کے کارندوں کو آزاد چھوڑا گیا ہے۔‘‘

بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں عدالتی احکامات کے بغیر مختلف بہانوں سے مسلمانوں کے مکانات کے چنیدہ انہدام کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ بی جے پی کے حق میں اکثریتی کمیونٹی کے ووٹوں کو پولرائز کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا ’’جماعت محسوس کرتی ہے کہ اقلیتوں کی تکلیف کے لالچ کے ذریعے اکثریت کو خوش کرنے کا یہ رجحان ہمارے قومی مفاد میں نہیں ہے اور یہ ہماری جمہوریت اور آئینی اقدار کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ سیاسی جماعتوں اور رائے دہندگان کا فرض ہے کہ وہ اس رجحان کو ختم کریں۔‘‘

پروفیسر سلیم نے دسمبر 2022 میں چھتیس گڑھ میں قبائلی عیسائیوں پر حملے اور ان کے آبائی گاؤں سے ہزاروں کی نقل مکانی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔