مجھے دلاسا نہیں چاہیے چچا صاحب!
اے عقل کے مارے ہوئے مصلحت پسندو! تم ہمیں دیوانہ ہی سمجھو لیکن یہ یاد رکھو کہ تمھاری عقل ہماری دیوانگی سے ہی ہے۔ ہماری موت پر خاموش رہو۔ ہماری چیخوں پر رقص کرو۔ ہماری آہوں کو لوری بنا لو۔ ہمارے زخموں کی کیاری میں کھارا پانی ڈال لو۔ ہمارے وجود کے خاتمے پر جن کا انعقاد کرلو۔ ہم تم سے کوئی امید نہیں رکھتے۔
سفیرؔ صدیقی
ایک غیر انسانی قانون کی مخالفت کرتی ہوئی بلا تشدد نعرے لگاتے ہوئی، ایک ’نادان‘بھیڑ کا حصہ میں بھی تھا۔ ہم جیسے دل سے کام لینے والےدیوانے، عقل کے مارے، مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے تھے۔ مسلک سے پرے، رنگ و نسل اور علاقے سے بےپروا، بس ایک انسانی حق کی بقا کے لیے سڑکوں پر اترے ہوئے تھے۔ ایک دانش گاہ سے دور خاصی دور، اتنی دور کہ وہاں سے تیز لاؤڈ اسپیکر پر دی گئی صدا بھی آدھے راستے میں دم توڑ دے۔ اچانک وہاں لاٹھی کا سہارا لیے کچھ عقلی معذوروں کا حملہ ہم دیوانوں پر شروع ہوا اور ہم کسی قریبی پناہ گاہ کی تلاش میں دوڑ پڑے۔
آشرم ریلوے اسٹیشن پہنچ کر ہم نے اپنے مادرِ علمی کا رخ کرنے کا ارادہ کیا جسے ہم سب سے محفوظ جگہ تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ یہاں ہوئی اس بھگڈر اور عقلی معذوروں کی بربریت سے ہمارا دانش کدہ محفوظ ہوگاکیوں کہ اس کا اس جگہ ہوئی تشدد سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ دانش گاہ سے دور جو بھی تشدد ہوا اس میں عقلی اور عملی طور پر ان عقلی معذوروں کا ہی ہاتھ ہے جن کی بیساکھیاں خون سے اپنی پیاس بجھاتی ہیں اور چیخوں کی دھن پر رقص کرنا چاہتی ہیں۔ ان عقلی معذوروں کی بیساکھیوں کے ننگے ناچ سے پہلے ہم دیوانوں نے کوئی نادانی تو کیاعقل کا بھی کام نہیں کیا تھا۔ بس جوش میں نعرے لگا لگا کر اپنا گلا پھاڑ رہے تھے۔
تبھی اچانک ہمیں اپنا جگر پھٹنے کی اطلاع ملی۔ اپنے وطن میں زہر کی بارش اور خون کے نالوں کی روانی کی خبر نے عقلوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ اور پھر ایک لاتعلق دانش گاہ کے بےقصور بچوں کے جسموں پر عقلی معذوروں کی بیساکھیوں کا ایسا ننگا ناچ شروع ہوا کہ شاید جہنم کی آگ بھڑکانے والے سخت دل فرشتوں نے بھی درد کے مارے اپنی آنکھیں بند کر لی ہوں۔
جامعہ۔۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ۔۔۔ ایک تاریخ۔۔۔ ایک دستاویز۔۔۔ ایک نشانی۔۔۔ ایک ثبوت۔۔۔ ایک انقلاب کا مظہر۔۔۔ کل شام اپنی تمام تر بے بسی کے ساتھ آنسوؤں کے غبار میں سرد آہیں بھر رہا تھا۔ اس کی کوکھ میں نشو و نما سے گزرتے ہوئے اس کی علمی اولادیں اپنی علمی غذا حاصل کر رہی تھیں، کہ ان عقلی معذوروں نے کسی اور کی خطاؤں کی سزا ان بچوں کو جامعہ کی کوکھ سے نکال کر دی۔
بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگانے والے عقلی معذوروں کے ٹکڑوں پر پلنے والی خاکی کپڑوں میں مکفون بے حس لاشوں نے اس ملک کے مستقبل میں قائےریاں لانے والی بچیوں کو رحمِ مادر میں ہی اس طرح زود و کوب کیا کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے ہی اس شدت سے روئیں کہ آسمان خون رونے لگا۔ کچھ بچیوں اور بچوں کے بدن پر تو نشانِ عبرت کے طور لوہے کے چھوٹے چھوٹے گرم ٹکڑے بھی داغے گئے۔ ان کو رحمِ مادر میں ہی مارنے کےلیے ان کی ماں یعنی جامعہ کی ایک ایک رگ میں وہ دھواں بھرا گیا کہ آنی والی نسلیں بھی اس کے اثر سے سانس لینے میں تکلیف محسوس کریں۔
ان بچوں کے کھلونے یعنی لائبریری کی بے جان کتابیں بھی چیخ اٹھیں۔ علم نے سانس لینے سے انکار کر دیا، فلسفہ اپنی فکر سے عاری ہو گیا، سیاسیات اپنے نظریوں سے بچھڑ گئی، جسمانی علوم نے اپنے متعلقات پر ہوتے ہوئے ظلم پر وہ آنسو بہائے کہ ان کا ورق ورق لائبریری کے یخ فرش پر اس درد کی عکاسی کے لیے بکھرا پڑا تھا ، اور اسی سائنسی علوم کو اپنی ان وحشیانہ ایجادات سے نفرت ہو گئی جنھوں نے کل اسی کو اپنا شکار بنا لیا تھا۔
لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ تو معمولی سی بات ہے۔ کچھ دیوانوں کے زخمی ہونے سے بھلا عقل مندوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔ بلکہ انھیں تو خوشی ہے کہ چلو ملک میں دیوانگی کم ہوگی۔ مزید ستم یہ کہ یہ صاحبانِ عقل اپنے اپنے لایعنی مصلحت آمیز مشوروں کے ساتھ ہماری بچی کھی آواز بھی بند کر دینا چاہتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ہم نے کل اپنی نادانی کی سزا بھگتی۔ ان کے مطابق خاموشی سب سے بہتر علاج ہے اور ہم ان عقل کے ماروں کے بغیر کچھ نہیں ہیں۔ یہ عقل والے اس بات سے بےخبر ہیں کہ ہم جیسے دیوانوں کے ذریعے دلائی گئی آزادی کی ہی روٹیاں توڑنے والے یہ عقل کے متوالے اور مصلحت کے علم بردار ہماری نادانی کے بغیر کچھ نہیں ہیں۔
سامنے کی بات ہے اگر دنیا میں بد صورتی نہ ہو تو خوب صورتی کی کوئی اہمیت نہ رہ جائے۔ تو اے عقل کے مارے ہوئے مصلحت پسندو! تم ہمیں دیوانہ ہی سمجھو لیکن یہ یاد رکھو کہ تمھاری عقل ہماری دیوانگی سے ہی ہے۔ ہماری موت پر خاموش رہو۔ ہماری چیخوں پر رقص کرو۔ ہماری آہوں کو لوری بنا لو۔ ہمارے زخموں کی کیاری میں کھارا پانی ڈال لو ۔ہمارے وجود کے خاتمے پر جن کا انعقاد کرلو۔ ہم تم سے کوئی امید نہیں رکھتے، لیکن خدارا اس وقت ہمیں اپنے مصلحت کوش مشوروں سے نوازنا بند کرو۔ اگر ہم آج سڑک پر اترے ہیں تو اپنی مرضی سے اپنے حق کے لیے اترے ہیں۔ لیکن اگر تم اسی طرح عقل کی سنتے رہے تو یاد رکھو بہت جلد تمھیں سڑک پر ذلیل کر کے پھینک دیا جائے گا۔ ہم اپنی جنگ لڑ رہے ہیں، اور لڑتے رہیں گے۔ تم اگر ہمارے ساتھ آنا چاہو تو خوش آمدید، اگر نہیں آنا چاہتے تو اپنی عقل کا ڈھولک اپنی چہار دیواری میں بجاؤ۔ ہمیں ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے؎
مِرے غموں کا مداوا کریں نصیحت نہیں
مجھے دلاسا نہیں چاہیے چچا صاحب!