خود کفیل بھارت! زندگی کی گاڑی کھینچنے کےلیے خواتین کی جدوجہد
دلی کی سڑکوں پر کاروبارکرنے والی خواتین کی کہانی
افروز عالم ساحل
شام کے سات بج چکے ہیں۔ جامعہ نگر کی سڑکوں پر زبردست بھیڑ ہے۔ گاڑیاں لگاتار ہارن بجاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ اسی شور میں سڑک پر ایک عورت پلے کارڈ لیے کھڑی ہے۔ پلے کارڈ پر درج ہے ’میں بیوہ ہوں۔ میرے چار بچے ہیں، میرا کوئی سہارا نہیں ہے، میری مدد کیجئے۔‘
دلی جامعہ نگر میں رہنے والوں کے لئے یہ کوئی نیا نظارہ نہیں تھا۔ ہر دن یہاں کی سڑکوں پر ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں غیر ملکی خواتین مدد کی آواز لگاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ لیکن جامعہ نگر پولیس اسٹیشن کے پاس کھڑی اس عورت کی کہانی کچھ مختلف ہے۔ پرانی دلی کے علاقے چتلی قبر کی ہاجرہ بی کی شادی جامعہ نگر کے تیکونہ پارک کے قریب رہنے والے سعید احمد کے ساتھ ہوئی تھی۔ زندگی غربت میں ہی سہی لیکن خوشی خوشی گزر رہی تھی لیکن یہاں بننے والے میٹرو کی وجہ سے ان کا گھر توڑ دیا گیا۔اپنا گھر ٹوٹ جانے کے صدمے سے سعید احمد بے حد پریشان ہوئے اور ایک بیٹا، تین بیٹیوں اور بیوی کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
ہاجرہ بی نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ شوہر کے انتقال کے بعد وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی کینٹین میں برتن دھونے کا کام کرتی تھیں لیکن لاک ڈاؤن کے بعد ان کے روزگار کا یہ ذریعہ بھی چھن گیا۔ پھر کچھ دنوں تک ایک گھر میں کھانا بنانے کا کام کیا لیکن لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی وہ لوگ دلی چھوڑ کر چلے گئے جس کی وجہ سے یہ کام بھی بند ہو گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ دلی وقف بورڈ سے ہر مہینہ ملنے والی 2500 کی رقم بھی لاک ڈاؤن کے بعد نہیں ملی۔ مگر امانت اللہ خان دلی وقف بورڈ کے چیئرمین بننے سے انہیں پھر وہاں سے مالی مدد ملنے کی امید ہے۔
ہاجرہ بی کے ساتھ صرف ان کا سات سالہ لڑکا رہتا ہے جبکہ ان کی تین لڑکیاں اتر پردیش کے کھتولی کے قریب ایک یتیم خانہ میں ہیں جہاں ان کی تعلیم کا بھی نظم ہے۔ ہاجرہ بی اپنے لڑکے کے ساتھ جسولہ کے جھگی جھونپڑی والے علاقے میں کرایہ کے مکان میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کئی دنوں سے کام کی تلاش میں پریشان ہیں۔ ان کے پاس کوئی روزگار کا ذریعہ نہیں ہے چنانچہ اسی مجبوری میں وہ پوسٹر ہاتھ میں لیے کھڑی ہوئی ہیں۔ آتے جاتے لوگ کچھ مدد کر دیتے ہیں بس اسی سے گزر بسر ہو جاتی ہے۔
اسی جامعہ نگر میں اس طرح کی دوسری کچھ اور کہانیاں بھی ہیں۔
اپنی تمام تر پریشانیوں کے باوجود بعض عورتیں سڑک کے کنارے اپنا بزنس جمائی ہوئی ہیں۔ شاہین باغ کی مسجد طیب کی گیٹ پر ایک نقاب پوش نو عمر لڑکی موزے، گرم دستانے وغیرہ فروخت کرتی ہے۔ آس پاس کے لوگوں کا کہنا ہے کہ قریب ایک مہینے سے یہ بچی ہر روز شام 4 بجے سے رات 9 بجے تک یہیں بیٹھی رہتی ہے، اس کی پردہ پوشی کے سلسلے میں لوگ کہتے ہیں کہ آج تک نہ اس نے کسی سے غیر ضروری بات کی اور نہ ہی کوئی اس کی شکل دیکھ پایا ہے۔
ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے جب اس لڑکی کی دکان پر پہنچ کر گفتگو کرنے کی کوشش کی تو اس نے ہماری ساتھی افشاں خان سے بات کرنے کو ترجیح دی۔ لڑکی نے اپنا نام پروین بتایا۔ اس کی عمر 15 سال ہے لیکن وہ اپنی عمر 25 سال بتاتی ہے۔ اس کے بیان کے مطابق اس کے والد کا پتہ نہیں ہے۔ اب وہ کہاں ہیں کیا کام کرتے ہیں بقید حیات ہیں بھی یا نہیں، کسی سوال کا وہ جواب نہیں دیتی۔ بس یہی کہتی ہے کہ اس کی امی نے اس سلسلہ میں کسی سے بات کرنے سے منع کیا ہوا ہے۔
اس نے البتہ اتنا ضرور بتایا کہ وہ پڑھائی کر رہی ہے اور اچھی نوکری کے لیے انگریزی بھی پڑھنا چاہتی ہے۔ خیال رہے کہ اس لڑکی کی تصویر گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
ایک مہینہ سے زیادہ مدت سے اسی مسجد کے سامنے ڈرائی فروٹس بیچنے والے محمد اشتیاق کا تاثر بھی یہی ہے کہ یہ لڑکی کم گو ہے اور خریداروں سے صرف قیمت بتانے کی حد تک ہی بات کرتی ہے۔
محمد اشتیاق بھی اسی جگہ اپنا بزنس چلاتے ہیں۔ ان کی کہانی بھی لاک ڈاؤن سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق لاک ڈاؤن سے پہلے وہ پینٹر تھے لیکن لاک ڈاؤن میں انہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ اشتیاق بہار کے ضلع ارریہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا باشندہ ہے۔ گھر میں اکیلا کماتا ہے اور وہ اپنے ضعیف ماں باپ، بیوی اور دو بیٹیوں کا اکیلا سہارا ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد اشتیاق بے روزگار ہوا تو اس کے مالکِ مکان نے اس کو ڈرائی فروٹس بیچنے کا مشورہ دیا اور کاروبار کے لیے مالی مدد بھی کی۔
پروین کی طرح ہی بٹلہ ہاؤس چوک پر مسجد کے قریب ایک عورت ہاتھ سے بنے کچھ گرم دستانے اور ماسک بیچنے کا کام کرتی تھی لیکن اب وہ نظر نہیں آتی۔ آس پاس کے دوکانداروں کا کہنا ہے کہ کسی نے ان کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی تو اگلے دن سامان خریدنے والے کم ان کی تصویر لینے والے زیادہ آنے لگے چنانچہ اس نے آنا ہی بند کر دیا۔ اس خاتونکے بارے میں مقامی لوگوں کو کچھ خاص جانکاری نہیں ہے۔
مسجد اصلاح بٹلہ ہاؤس کے باہر موزے، دستانے، رومال وغیرہ کی دکان لگانے والی 32 سال کی ریشما کی کہانی بھی بڑی افسوسناک ہے۔ ریشما شہر مرادآباد کی رہنے والی ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں، شوہر پیتل کا کام کرتے تھے۔ پیتل آنکھوں میں لگ جانے سے آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ یہ خاتوں اپنی گزر بسر کے لئے کچھ چیزیں فروخت کر کے خاندان کا پیٹ پالتی ہیں۔
ریشما بتاتی ہیں کہ ان کی تصویر کسی نے سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی جس کے بعد لوگ مستقل حال چال پوچھنے آ رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجبوری میں کسی کسی کو اپنی کہانی بھی بتانی پڑتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پر تصویر ڈالنے سے گزشتہ کچھ دنوں سے ان کے یہاں گاہگ بڑھے ہیں اور تجارت میں فائدہ ہوا ہے۔ کسی ذریعہ سے ریشما تک یہ خبر پہنچی تھی کہ کسی نے ان کے نام پر چندہ بھی جمع کیا ہے مگر ریشما کو اس میں سے ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔
مسجد کے باہر دکان لگانے کا سبب بتاتے ہوئے ریشما نے کہا کہ وہ یہاں خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔ اپنی تعلیم کے سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ والد انہیں پڑھانا چاہتے تھے لیکن وہ بچپن میں ہی انتقال کر گئے۔ ان کی وفات سے ریشما اندر سے ٹوٹ گئیں جس کے بعد ان کی والدہ نے انہیں اپنی بہن کے حوالے کیا۔ یہ کہتے ہوئے ریشما جذباتی ہوگئیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کم عمری میں ہی ان کی شادی کرادی گئی تھی جہاں ان کے ساتھ بہت برا سلوک ہوا۔ ریشما پہلے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں لیکن لاک ڈاؤن میں احتیاط برتنے کے نام پر لوگوں نے انہیں گھروں میں بلانا چھوڑ دیا۔ اس بیچ ان کی طبیعت بھی بگڑ گئی۔ آج کل وہ یہی کام اپنے لیے مناسب سمجھتی ہے۔
ذاکر نگر کی جامع مسجد کے باہر بھی شاہین باغ کی ایک خاتون نے اپنی دکان لگائی ہے وہ اپنا نام بتانا ضروری نہیں سمجھتیں۔ ان سے بات چیت میں معلوم ہوا کہ مسجد طیب کے باہر جو با پردہ لڑکی بیٹھتی ہے وہ انہی کی بیٹی ہے اور انہوں نے ہی اسے بات کرنے سے منع کیا ہوا ہے۔ طویل گفتگو میں خاتون نے بتایا کہ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ شوہر سے روز روز کی لڑائی سے وہ تنگ آگئی تھی، لاک ڈاؤن میں یہ لڑائی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تو شوہر سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ علیحدگی کے بعد سے وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہیں۔ یہ خاتون صدر بازار یا شاستری نگر سے اپنی دکان کے لئے ضروری سامان لا کر شام کو فروخت کرتی ہیں۔
اپنی تعلیم کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر زیادہ پڑھی لکھی ہوتیں تو کسی دکان پر سیلس وویمن کے طور پر کام کرتیں۔ حالانکہ ان سے بات چیت میں محسوس ہوا کہ پڑھی لکھی خاتون ہے۔ وہ اپنی گفتگو میں زیادہ تر انگریزی الفاظ کا استعمال کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی دونوں بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی خواہشمند ہیں۔
ان کا احساس ہے کہ سڑک کے کنارے دکان لگانے کو کچھ لوگ ہلکا اور چھوٹا کام تصور کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کسی سے بھیک مانگنے سے بہتر ہے کہ میں خود کچھ کروں۔ اگر میرے اس کام کو دیکھ کر کوئی بھیک مانگنے سے باز آجائے تو میں اسے اپنے لیے بڑی بات سمجھتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ بعض اچھے لوگوں نے میری مدد بھی کی اور مجھے حوصلہ بھی دیا۔ کسی تنظیم کی طرف سے مالی تعاون ملنے کے سوال پر اس خاتون نے کہا کہ اگر ہماری تنظیمیں اتنی بہتر ہوتیں تو عورتوں کو روزگار کے لیے سڑک پر آنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
ہفت روزہ دعوت کی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ لاک ڈاؤن کے بعد پورے جامعہ نگر کے علاقے میں بھیک مانگنے والی عورتوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے، ان میں بیشتر عورتیں غیر مسلم ہیں جو مسلم عورتوں کے لباس میں بھیک مانگتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلم خواتین ہیں جو اپنی گزر بسر کے لئے چھوٹا موٹا کاروبار کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جو ایک اچھا قدم ہے۔
***
مسجد اصلاح بٹلہ ہاؤس کے باہر موزے، دستانے، رومال وغیرہ کی دکان لگانے والی 32 سال کی ریشما کی کہانی بھی بڑی افسوسناک ہے۔ ریشما شہر مرادآباد کی رہنے والی ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں، شوہر پیتل کا کام کرتے تھے۔ پیتل آنکھوں میں لگ جانے سے آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ یہ خاتوں اپنی گزر بسر کے لئے کچھ چیزیں فروخت کر کے خاندان کا پیٹ پالتی ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021