کیا یہ کافی نہیں کہ تم لوگوں کو ہندوستان میں رہنے دیا جارہا ہے؟
دس اور گیارہ دسمبر کی درمیانی شب جامعہ کے طلبا و طالبات پر بہت بھاری تھی، جب پولیس نے کریک ڈاؤن میں سیکڑوں طلبا کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ پیش ہے ایک طالب علم کی روداد جو اس رات پولیس کی بہیمیت کا شکار ہوئے تھے۔
صلاح الدین صدیقی
پولیس کے کریک ڈاؤن سے کچھ دیر پہلے تک میں لائبریری میں تھا۔ اس وقت پولیس کیمپس میں آنسو گیس کے گولے چھوڑ رہی تھی۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ لائبریری سے باہر آگیا تھا۔ ہر سمت دھواں ہی دھواں تھا۔ میں جامعہ میں اپنے شعبے کے قریب تھا۔ میں نے دیکھا کہ یونیورسٹی کے گیٹ نمبر سات کے گارڈ آنسو گیس کی وجہ سے وہاں سے ہٹ گئے تھے۔ گیٹ کا بولٹ اندر سے لگا ہوا تھا یعنی گیٹ پر تالا نہیں لگا تھا۔ پولیس کے لوگ گیٹ کھول کر اندر آگئے۔ وہ دوڑتے ہوئے اور مغلظات بکتے ہوئے میرے پاس آئے۔ میں نے ان سے بات کرنا چاہی۔ میں نے ان سے کہا کہ آنسو گیس کے گولے نہ چھوڑیں۔ اندر طلبا ہیں اور طالبات ڈری ہوئی ہیں۔ اسی اثنا میں ایک پولیس والے نے مجھے دبوچ لیا اور اپنے ڈنڈے سے مجھے مارنا شروع کردیا۔ تین پولیس والے مجھے گسیٹتے ہوئے لے کر چلنے لگے۔ انھوں نے مجھے بے رحمی سے تقریباً دو سو فٹ تک گھسیٹا۔ ساتھ ہی وہ گالیاں بھی بک رہے تھے۔
ایک پولیس والے نے مجھے دبوچ لیا اور اپنے ڈنڈے سے مجھے مارنا شروع کردیا۔ تین پولیس والے مجھے گسیٹتے ہوئے لے کر چلنے لگے۔ انھوں نے مجھے بے رحمی سے تقریباً دو سو فٹ تک گھسیٹا۔ ساتھ ہی وہ گالیاں بھی بک رہے تھے۔
آگے درجنوں پولیس والے کھڑے تھے۔ وہاں اور بھی طلبا موجود تھے جنھیں انھوں نے زنجیر سے باندھ رکھا تھا۔ ہر پانچ پانچ منٹ بعد پولیس والے ہم پر ڈنڈے برسانے آجاتے تھے۔ پھر پولیس کی وین آئی جس میں ہمیں اسی طرح بے رحمی سے مارتے ہوئے ٹھونس دیا گیا اور این ایف سی تھانے میں لے جایا گیا۔ پورے راستے گالیوں اور ڈنڈوں سے ہماری ضیافت ہوتی رہی۔
تھانے میں ہمیں شدید سردی میں ننگے فرش پر بٹھادیا گیا۔ وہاں پہلے سے پانچ چھ طلبا موجود تھے، مجموعی طور پر ہم سولہ طلبا تھے۔ ایک طالب علم کی ناک میں فریکچر تھا، اور شدید خون بہہ رہا تھا۔ تنزیل اور مصطفی نامی دو طالب علموں کے دونوں ہاتھوں میں فریکچر تھا۔ میری حالت قدرے بہتر تھی، میں انھیں دلاسا دینے اور سنبھالنے کی کوشش کررہا تھا۔ ہم نے پولیس سے گزارش کی کہ ہمیں اسپتال لے جایا جائے، ہمیں شدید چوٹیں آئی ہیں، لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ بار بار پانی مانگنے پر بھی نہیں پلایا گیا۔ آخر دو گھنٹے کے بعد ایک کانسٹبل نے ایک بوتل پانی لاکر دیا۔
پولیس اہل کار پورا وقت ہمیں تھانے میں گالیاں دیتے رہے اور طعن و تشنیع کرتے رہے کہ کیا یہ کافی نہیں کہ تم لوگوں کو ہندوستان میں رہنے دیا جارہا ہے، کھانے کمانے دیا جارہا ہے۔
قصہ مختصر، گیارہ بجے سپریم کورٹ کے وکیل کولن گونسالوے اور جامعہ کے رجسٹرار اور پراکٹر تھانے پہنچے۔ انھوں نے بچوں کو اتنی دیر تک طبی امداد بہم نہ پہنچائے جانے پر اعتراض کیا۔ آخر ان کی ایما پر تمام طلبا کو بارہ بجے ایمس لے جایا گیا۔ جامعہ انتطامیہ کی طرف سے دو اہل کار بھی ہمارے ساتھ گئے تھے۔ ایمس کے ڈاکٹروں کے حوالے سے بھی میرے بعض ساتھیوں کو امتیازی اور متعصبانہ سلوک کی شکایت رہی۔ آخر، ایم ایل سی کے بعد ہمیں دوبارہ تھانے لے جایا گیا، اور صبح سات بجے سب کو چھوڑ دیا گیا۔ ہمیں لوٹنے کے لیے کسی سواری کا نظم نہیں کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بیشتر بچوں کے موبائل، پرس اور پیسے چھین لیے گئے تھے۔ میری اسمارٹ واچ بھی پولیس نے چھین لی تھی، جو واپس نہیں دی گئی۔
(صلاح الدین صدیقی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ سیاسی علوم میں طالب علم ہیں۔)