تب آزادی کے پروانوں کو بھی ان کے لباس سے جانا جاتا تھا، کپڑوں کی وجہ سے جامعہ کے چار افراد نے گنوائی تھی اپنی جان
وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تبصرہ کیا ہے کہ ان کی شناخت ان کے کپڑوں سے ہوسکتی ہے۔ یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ جب ملک میں عدم تعاون اور تحریک خلافت چل رہی تھی، تب آزادی کے پروانوں کو بھی ان کے لباس سے جانا جاتا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گاندھی جی نے 1921 میں غیر ملکی کپڑوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔
افروز عالم ساحل
بات اس وقت کی ہے جب تحریک خلافت جاری تھی۔ مہاتما گاندھی جی ملک کا دورہ کررہے تھے۔ وہ لوگوں سے برطانوی حکومت کے ساتھ عدم تعاون کی اپیل کر رہے تھے۔ ستمبر 1920 میں کلکتہ کانگریس کے خصوصی اجلاس میں گاندھی جی نے یہ تحریک پیش کی کہ ملک کی آزادی کے لیے سرکاری تعلیم کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے، یعنی برطانوی حکومت سے اسکولوں اور کالجوں کے لیے سرکاری اعانت نہ لی جائے۔ گاندھی جی جی کی نظر میں سرکارسے اعانت لینے کی وجہ سے یہ ادارے ’محکوم ذہنیت‘ کے گہوارے بن گئے تھے۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ ملک کے اسکولوں اور کالج کے طلبا کو آزادی حاصل کرنے کے قومی نظریے سے تعلیم دی جائے۔ ساتھ ہی سمجھ دار طلبا آزادی کے پیغام کو عام کرنے کے لیے پورے ہندوستان کے دیہی علاقوں میں پھیل جائیں۔
گاندھی جی کا واضح نظریہ تھا کہ ’اسی حکومت نے رولٹ ایکٹ بنایا ہے۔ خلافت سے متعلق اپنا وعدہ توڑا ہے۔ بدنام زمانہ فوجی عدالتیں قائم کی ہیں۔ ہمارے بچوں کو برطانوی پرچم کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کیاہے۔ اس حکومت کے ساتھ تعاون کرنا، اس کی قانون ساز کونسلوں میں بیٹھنا یا اپنے بچوں کو ان کے اسکولوں میں بھیجنا حرام ہے۔ ‘
جامعہ ملیہ اسلامیہ نے گاندھی جی کے اسی عدم تعاون اور خلافت تحریک کی کوکھ سے جنم لیا۔ جامعہ اس دور میں ایک پل کی طرح تھا۔ قومی تحریک کے سب سے بڑے رہنما مہاتما گاندھی جی اور ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی مسلمان۔ جامعہ ان دونوں کے مابین ایک خاص رشتے کا پل بن چکا تھا۔ گاندھی جی کے افکار، مسلمانوں کے مفادات، ان کے دشواریاں، سیاست، یہ سارے معاملات جامعہ کے اس دور کے محور کے گرد گھومتے ہیں۔
جامعہ اس ملک کی قومیت کے احساس میں اندر تک موجود ہے۔ خود گاندھی جی نے کئی موقعوں پر اس سچائی کی گواہی دی۔ جامعہ کے قیام سے لے کر جامعہ کو ڈوبنے سے بچانے تک گاندھی جی نے جی جان لگا دیا۔ یہ وہی جامعہ ہے، جہاں گاندھی جی کے بیٹے دیوداس نے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ جہاں گاندھی جی کے پوتے رسک لال نے تعلیم پائی۔ رسک کی موت صرف 17 سال کی عمر میں یہیں ہوگئی تھی۔ یہ وہی جامعہ ہے، جہاں کستوربا نے اپنی زندگی کے اہم دن گزارے۔ گاندھی جی نے جامعہ کو بہت کچھ دیا۔ بدلے میں جامعہ سے بھی بہت کچھ پایا۔ گاندھی جی کو جامعہ سے بہت لگاؤ تھا۔ انھوں نے جتنا جامعہ کو اپنا سمجھا، جامعہ نے بھی گاندھی جی کو اتنا ہی پیار اور عزت دی ۔ گاندھی جی کا جامعہ آج پھر ملک کے ’تاناشاہوں‘ کے خلاف نہ صرف اٹھ کھڑا ہوا ہے، بلکہ پورے ملک کو جگا دیاہے۔
جب جامعہ کے طلبا پر گولی چلی…
وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تبصرہ کیا ہے کہ ان کی شناخت ان کے کپڑوں سے ہوسکتی ہے۔ یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ جب ملک میں عدم تعاون اور تحریک خلافت چل رہی تھی، تب آزادی کے پروانوں کو بھی ان کے لباس سے جانا جاتا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گاندھی جی نے 1921 میں غیر ملکی کپڑوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔
گاندھی جی کی اس اپیل پر تحریک عدم تعاون کے رفقا نے غیر ملکی کپڑے جلانے کے لیے علی گڑھ میں ستیہ گرہ شروع کیا۔ اہل جامعہ اس کی قیادت کر رہے تھے۔ ملحوظ رہے کہ تب جامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ میں تھا۔ اسی عدم تعاون کی تحریک کے درمیان 5 جولائی 1921 کو علی گڑھ میں فساد ہوا۔ وہ نام نہاد ’دیش بھکت‘ جنہوں نے انگریزوں سے معافی مانگ لی تھی، وہ پولیس کی حمایت کر رہے تھے۔ انہوں نے پولیس کی حمایت میں خواجہ عبدالمجیدصاحب کا گھر جلادیا تھا۔ وہیں پولیس احتجاج کرنے والوں کو ’لے سوراج‘ کہتے ہوئے لاٹھیوں سے بری طرح پیٹ رہی تھی۔ اس سانحے میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد کی موت واقع ہوگئی تھی۔
جب مہاتما گاندھی جی کو علی گڑھ سانحے کی خبر ملی، تو انہیں اس سے بہت تکلیف پہنچی۔ اس خبر نے ان کو پریشان کر دیا تھا۔ اسی پریشانی میں انہوں نے اس سلسلے میں ایک مراسلہ جاری کیا۔ مراسلے میں لکھا تھا کہ منزل کے اتنے قریب پہنچنے پر اب علی گڑھ کے عوام جوش میں تشدد کا سہارا لے کر تحریک عدم تعاون کے رفقا یا دوسروں کے ذریعہ کیے گئی تشدد کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرکے کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھائیں گے اور یوں گھڑی کی سوئی پیچھے کی جانب گھمانے کی کوشش سے گریز کریں گے۔
گاندھی جی کا یہ پیغام اردو اور ہندی، دونوں زبانوں میں عام کیا گیا تھا اور مقامی قائدین نے علی گڑھ واقعے کی حقیقت کا پتہ لگانے میں بڑی مستددی دکھائی۔
گاندھی جی نے علی گڑھ واقعہ کو ایک لمبے عرصے تک یاد رکھا۔ 14 اگست 1921 کے نوجیون (گجراتی) میں ’موت کا خوف‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں گاندھی جی نے لکھا تھا ’اب تک ملک میں صرف نوجوانوں کی موت ہوئی ہے۔ علی گڑھ میں جن لوگوں نے اپنی جانیں گنوا ئیں ان کی عمر 21 سال سے کم تھی۔ انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ لیکن اب بھی اگر حکومت خون خرابے پر تلی ہوئی ہے، تو مجھے یقین ہے کہ اس وقت پہلی جماعت کے کسی فرد کی قربانی دی جائے گی۔‘
علی گڑھ واقعہ میں جامعہ کے لوگوں کو مسلسل ہراساں کیاجاتا رہا۔ بہت سے افراد گرفتار بھی کیے گئے۔ گاندھی جی اس پر مستقل نظر رکھے ہوئے تھے۔
جامعہ کے لیے بھیک مانگنے کو تیار تھے گاندھی جی
28-29 جنوری 1925 کو دہلی کے قرول باغ میں مقیم حکیم اجمل خاں صاحب کی رہائش گاہ شریف منزل میں جامعہ کی فاؤنڈیشن کمیٹی کا جلسہ ہوا، جس کے آخر میں فیصلہ کیا گیا کہ جامعہ کو چلتے رہنا چاہیے۔ دوسرے دن یعنی 29 جنوری کو گاندھی جی بھی موجود تھے۔ انہوں نے حکیم صاحب کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ مشکلات اور مالی پریشانیوں کے باوجود جامعہ کو چلانا ہی ہوگا، بھلے ہی اس کے لیے مجھے بھیک ہی کیوں نہ مانگنی پڑے۔ عبد الغفار مدھولی صاحب اپنی کتاب ’جامعہ کی کہانی‘ میں گاندھی جی رقم طراز ہیں۔ ’اگر آپ کو روپیے پیسے کی تنگی کا سامنا ہے تو میں بھیک مانگ لوں گا۔ ‘ اس پرحکیم صاحب نے کہا- ’گاندھی جی کی اس بات سے میری ہمت بندھی ہے، اور میں نے طے کر لیا کہ جامعہ کا کام ہرگز بند نہ ہونے دیا جائے گا۔ ‘
جامعہ ملیہ اسلامیہ سے لفظ ’اسلامیہ‘ خارج کرنے کی گاندھی جی نے کی تھی مخالفت
ایک موقع پر جب گاندھی جی کو یہ معلوم ہوا کہ ان کے ایک قریبی دوست نے تجویز پیش کی ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنا نام بدل دے، اس سے غیر مسلم ذرائع سے فنڈ حاصل کرنا آسان ہوجائے گا، تو اس پر گاندھی جی نے کہا، اگر ’اسلامیہ‘ لفظ نکال دیا گیا، تو انہیں اس تعلیمی ادارے میں کوئی دل چسپی نہیں ہوگی۔
اس بات کا ذکر پروفیسر محمد مجیب نے اپنے ایک مضمون ’مہاتما گاندھی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ‘میں کیا ہے۔ ان کا یہ مضمون 1969 میں جامعہ سے نکلنے والے اردو رسالہ ’جامعہ‘ کے نومبر کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔
یہی نہیں، سید مسرور علی اختر ہاشمی اپنی کتاب میں یہ بھی لکھتے ہیں، ’گاندھی جی نے نہ صرف جامعہ ملیہ کے ساتھ لفظ ’اسلامیہ‘ قائم رکھنے پر زور دیا بلکہ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ اس کے اسلامی کردار کو بھی برقرار رکھا جائے۔‘
ملحوظ رہے کہ پروفیسر محمد مجیب (1902–1985) ایک عظیم مجاہد آزادی، ماہر تعلیم اور انگریزی و اردو ادب کے اسکالر تھے۔ مجیب صاحب نے آکسفرڈ میں تاریخ کا مطالعہ کیا۔ پھر پرنٹنگ کے مطالعے کے لیے جرمنی چلے گئے۔ وہاں ذاکر حسین صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی۔ 1926 میں اپنے دو دوستوں، عابد حسین اور ذاکر حسین، کے ساتھ وہ ہندوستان واپس لوٹ کر جامعہ کی خدمت میں لگ گئے۔ 1948 سے 1973 تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر رہے۔ 1965 میں حکومت ہند کی طرف سے ادب اور تعلیم کے میدان میں انھیں پدم بھوشن سے نوازا گیا تھا۔
گاندھی جی کا سوال: کیا جامعہ محفوظ ہے؟
ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک کے جو حالات تھے، ان سے قارئین بخوبی واقف ہوں گے۔ اس مشکل دور میں گاندھی جی نے 9 ستمبر 1947 کی صبح دہلی اسٹیشن پہنچ کر پہلا سوال یہی کیا تھا – ’کیا ذاکر حسین خیریت سے ہیں؟ کیا جامعہ ملیہ اسلامیہ محفوظ ہے؟‘ اتنا ہی نہیں، دوسرے ہی دن صبح صبح اپنا بھروسا پکا کرنے کے لیے خود جامعہ آئے۔
11 ستمبر 1947 کے ٹائمس آف انڈیا کی ایک خبر کے مطابق، مہاتما گاندھی جب اوکھلا میں جامعہ کے پناہ گزین کیمپ میں آئے تو یہاں ذاکر حسین نے ان کا استقبال کیا۔ مسلمان مہاجرین نے گاندھی جی کو بتایا کہ ان کے گاؤوں میں ان کے ساتھ کیا آفت نازل ہوئی تھی۔ گاندھی جی نے یہاں برقعہ پوش مسلمان خواتین کے ایک گروپ سے خوف پر قابو پانے اور ہمت برقرار رکھنے کے لیے کہا۔ گاندھی جی کو یہاں ایک نوزائیدہ بچہ بھی دکھایا گیا، جس کے والدین کو بلوائیوں نے قتل کردیا تھا۔ اس دن جامعہ کے ایک دروازے میں گاندھی جی کی ایک انگلی دبنے کی وجہ سے تھوڑا زخم بھی آگیا تھا۔
گاندھی جی کی امید: پرانے دن واپس آئیں گے…
6 اپریل 1947 کو گاندھی جی نئی دہلی میں منعقدہ ایک ’پرارتھنا سبھا‘ میں تقریر کررہے تھے۔ اس تقریر میں انہوں نے کہا ’’… پرانے دن لوٹ آئیں گے، جب ہندوؤں اور مسلمانوں کے دلوں میں محبت تھی۔ خواجہ صاحب اب بھی قومی مسلمانوں کے صدر ہیں۔ دوسرے بھی جوقومی جذبے والے مسلمان لڑکے ان دنوں علی گڑھ (ایم اے او کالج) سے نکلے تھے، وہ آج جامعہ کے اچھے طلبا اور کام کرنے والے بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب صحارا کے ریگستان میں نخلستان کی طرح ہیں…