جماعت اسلامی ہند نے بلقیس بانو عصمت دری کیس کے مجرموں کی رہائی کی مذمت کی
نئی دہلی، اگست 17: جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) نے بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس کے مجرموں کی رہائی کی شدید مذمت کی ہے۔
میڈیا کو جاری کردہ ایک بیان میں جے آئی ایچ کے قومی نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے کہا ’’ہم بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس اور اس کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے مجرموں اور عمر قید کی سزا پانے والوں کی رہائی کو یقینی بنانے میں گجرات حکومت کے کردار سے مایوس ہیں۔‘‘
پروفیس سلیم نے کہا ’’ایسے فیصلے جن کا مقصد کسی مخصوص حلقے کو خوش کرنے کے لیے سیاسی منافع حاصل کرنا ہے، انتہائی قابل اعتراض ہیں۔ ہم اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ اس معاملے میں مداخلت کرے گی تاکہ سرکاری حکومتی پالیسی کی آڑ میں کی جانے والی اس سنگین ناانصافی کو ختم کیا جا سکے۔‘‘
جے آئی ایچ کے رہنما نے کہا ’’معافی کی پالیسی چھوٹے جرائم کے لیے جیلوں میں بند لوگوں کے لیے لاگو کی جانی چاہیے، نہ کہ ان لوگوں کے لیے جو عصمت دری اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم کے لیے سزا یافتہ ہیں۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’اگر ریاستی حکومتوں کو گھناؤنے جرائم کے لیے سزا یافتہ ہونے کے باوجود معافی کی پالیسی کے ذریعے اپنی پسند کے مجرموں کو رہا کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، تو یہ ہمارے انصاف کی فراہمی کے نظام کا مذاق اڑائے گا اور شہریوں کی اس نظام سے امید ختم ہو جائے گی۔‘‘
انھوں نے کہا ’’انصاف سب کے لیے ہمارے آئین کے سب سے زیادہ ماننے والے اصولوں میں سے ایک ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جمہوریت کمزور ہو جائے گی۔ اس سے ایسے لوگوں اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو حوصلہ ملے گا کیوں کہ وہ انتہائی گھناؤنے جرائم کے ارتکاب کے باوجود جلد یا بدیر سسٹم کے ذریعے ضمانت حاصل کرنے کا یقین رکھیں گے۔ جس طرح سے ان مجرموں کی تعظیم اور ستائش کی جا رہی ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہ ناری شکتی کے فروغ دینے والے اور خواتین کی عزت اور وقار کے محافظ ہونے میں ہماری منافقت کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔‘‘
پروفیسر سلیم انجینئر نے مزید کہا ’’بلقیس بانو کیس میں رہا ہونے والوں کو سی بی آئی کورٹ نے مجرم قرار دیا تھا اور اس فیصلے کو بمبئی ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔ ان 11 مجرموں میں سے صرف ایک نے سزا کی معافی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے گجرات کی ریاستی حکومت کو وقت سے پہلے رہائی کے لیے اس کی اپیل پر غور کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن ریاستی حکومت نے ایک پینل تشکیل دیا اور تمام 11 مجرموں کی معافی کے حق میں فیصلہ کیا۔ جب ہم واقعات کے اس سلسلے کو نوٹ کرتے ہیں تو یہ بلا شبہ ایک خطرناک نظیر قائم کرتا ہے جو ہمارے انصاف کی فراہمی کے نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ اگر ہم جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو بچانا چاہتے ہیں تو اس فیصلے کو تبدیل کرنا ہوگا۔‘‘