جہانگیرپوری تشدد: دہلی کے ایک وکیل نے سپریم کورٹ سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے باضابطہ پینل بنانے کی درخواست کی

نئی دہلی، اپریل 18: بار اینڈ بنچ نے اطلاع دی کہ دہلی کے ایک وکیل نے پیر کو سپریم کورٹ سے جہانگیرپوری تشدد کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔

انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق ایڈوکیٹ امرت پال سنگھ خالصہ نے کہا کہ دہلی پولیس کی تفتیش جزوی اور فرقہ وارانہ ہے۔

ہفتہ کے روز شمال مغربی دہلی کے جہانگیرپوری میں ہنومان جینتی کے جلوس کے دوران ہندو اور مسلم کمیونٹی کے افراد میں جھڑپ ہوئی تھی۔ تشدد میں آٹھ پولیس اہلکار اور ایک شہری زخمی ہوئے۔ دی انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کیا کہ اب تک پولیس نے 21 لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن میں سے 16 مسلمان ہیں۔ اس معاملے میں دو نابالغوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

خالصہ نے پیر کو چیف جسٹس این وی رمنا سے کہا کہ یہ دوسرا موقع ہے جب دہلی میں دو سالوں میں دو فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔

انھوں نے مزید کہا ’’۔۔۔اور دونوں مواقع پر اقلیتی برادری کے ارکان کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس عدالت نے یہاں تک کہ دہلی پولیس کو 2020 میں فسادات روکنے میں ناکامی پر بھی تنبیہ کی تھی۔‘‘

معلوم ہو کہ شمال مشرقی دہلی میں 23 فروری سے 26 فروری 2020 کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ اس تشدد میں 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

جہانگیرپوری تشدد پر درج ایف آئی آر میں پولیس نے کہا کہ ہنومان جینتی جلوس کے ایک مسجد کے قریب رکنے کے بعد چار یا پانچ لوگوں نے اس کے شرکا سے بحث شروع کر دی۔ جس کی وجہ سے دونوں طرف سے پتھراؤ ہوا۔ اس کے نتیجے میں بھگدڑ بھی مچ گئی۔

پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے دونوں گروپوں کو الگ کر دیا لیکن چند منٹ بعد انھوں نے دوبارہ پتھراؤ شروع کر دیا اور نعرے بازی شروع کر دی۔ اس کے بعد جائے وقوعہ پر موجود پولیس افسر نے مزید سیکورٹی تعینات کرنے کے لیے کہا، جس نے صورت حال پر قابو پانے کے لیے تقریباً 40-50 آنسو گیس کے دستی بموں کا استعمال کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا کہ پتھر پھینکنے اور فائرنگ کے عمل سے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ ہجوم نے ایک اسکوٹر اور چند دیگر گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ ریپڈ ایکشن فورس کی دو کمپنیاں جہانگیرپوری اور اطراف میں تعینات کی گئی ہیں۔

تشدد کی تحقیقات کے لیے کرائم برانچ اور اسپیشل سیل کی دس ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔

اس سے قبل 10 اپریل کو رام نومی کے جلوسوں کے دوران ملک بھر میں اسی طرح کی جھڑپیں ہوئی تھیں۔ گجرات، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور گوا میں پھوٹنے والے تشدد میں دو لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور کئی دیگر زخمی ہو گئے تھے۔

اسی دن دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مبینہ طور پر رام نومی کے موقع پر ہاسٹل میس میں پیش کیے جانے والے گوشت کو لے کر طلبا میں جھڑپیں ہوئیں۔

2 اپریل کو راجستھان میں کرولی شہر کے مسلم اکثریتی علاقے میں ہندو نئے سال کے پہلے دن مبینہ طور پر فرقہ وارانہ گانے بجاتے ہوئے ایک موٹر سائیکل ریلی کے وہاں سے گزرنے کے بعد فرقہ وارانہ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔