آئی ٹی قوانین: مرکزی حکومت شہریوں کی رازداری کے حق میں ’’دخل اندازی کی کوشش کر رہی ہے‘‘، سابق سپریم کورٹ جج سری کرشنا نے نئے قواعد پر اٹھائے سوال
نئی دہلی، مئی 31: ریٹائرڈ سپریم کورٹ جج بی این سری کرشنا نے انفارمیشن ٹکنالوجی کے نئے قواعد پر تنقید کی ہے، جو قواعد 50 لاکھ صارفین والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے حکومت کے کہنے پر پیغامات کے بھیجنے والے کی شناخت ظاہر کرنا ضروری بناتے ہیں۔
دی اکنامک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سری کرشنا نے کہا کہ حکومت ’’رازداری کے بنیادی حق میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘
ریٹائرڈ جج، جنھوں نے اس کمیٹی کی سربراہی کی تھی جو پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کے مسودے کے ساتھ سامنے آئی تھی، نے کہا کہ رازداری کے تحفظات کو توڑنے کا مطالبہ اس وقت تک قانونی نہیں ہے جب تک پارلیمنٹ نے اس کے لیے کوئی قانون منظور نہیں کرتا۔ پی ڈی پی بل کا مسودہ حکومت کو پیش کیا گیا اور اس کو تین سال ہوچکے ہیں اور ابھی اسے قانون میں بدلا جانا باقی ہے۔
واٹس ایپ نے، جس کے ہندوستان میں تقریباً 40 کروڑ صارفین ہیں، حکومت کے آئی ٹی قواعد کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے اور اسے رازداری کے حق اور آئین کے خلاف بتایا ہے۔
واٹس ایپ نے دہلی ہائی کورٹ کے سامنے ایک درخواست میں استدلال کیا کہ ہر ایک پیغام کو تلاش کرنے کا حکم غیر آئینی ہے اور لوگوں کے رازداری کے بنیادی حق کے خلاف ہے۔ 27 مئی کو ٹویٹر نے بھی یہ کہا تھا کہ وہ آزادی اظہار رائے کو ’’ممکنہ خطرے‘‘ سے متعلق ہے تشویش میں ہے۔
تاہم مرکز نے کہا ہے کہ رازداری کا حق کوئی بنیادی مطلق حق نہیں ہے اور نئے قواعد معقول ہیں۔
سری کرشنا نے ’’مجھے اب بھی لگتا ہے کہ یہ آزاد ملک ہے لیکن میں اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ شکوک و شبہات کا شکار ہو رہا ہوں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ واٹس ایپ جیسے میسجنگ پلیٹ فارم سے پیغام بھیجنے والے کی شناخت کے لیے کہنا دوسرے لوگوں کے نجی پیغامات تک بے قابو رسائی کا راستہ کھول سکتا ہے۔
سری کرشنا نے اخبار کو یہ بھی بتایا کہ وہ آزادی اظہار رائے کی وجہ سے کچھ بھی کہنے کے حق دار ہیں۔ انھوں نے مزید کہا ’’میں سوشل میڈیا پر جو بھی کہتا ہوں وہ مجھے غدار نہیں بناتا ہے اور نہ ہی ایسا شخص جو میرے ملک سے نفرت کرتا ہے۔ اگر میں آکسیجن کی کمی پر حکومت پر تنقید کرتا ہوں تو کیا یہ ملک دشمن یا مجرمانہ فعل ہے؟ لیکن اگر میں دہشت گردی کی کسی سرگرمی کے بارے میں بات کرتا ہوں تو یہ قابل عمل ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ آپ میرے ٹیلیفون تک رسائی حاصل کرسکیں اس سے قبل آپ کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہوں۔ ہمارے پاس ایک قانون ہونا چاہیے جو اسے کنٹرول کرتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ 25 فروری کو سوشل میڈیا کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد کا ایک نیا سیٹ جاری کیا گیا تھا۔ نئے قواعد عملی طور پر ان پلیٹ فارمز کو پہلی بار سرکاری نگرانی کے دائرہ کار میں لاتے ہیں۔