اسرائیل اور فلسطین پر مودی اور بھاگوت کی جگل بندی

ہر مذہب و ثقافت کے احترام کا گمراہ کن دعویٰ ۔ قول اور عمل میں بد ترین تضاد

ڈاکٹر سلیم خان

آر ایس ایس اپنےپریوار والوں کو ہندو مذہب کی تہذیب و ثقافت کا پابند کیوں نہیں بناسکی؟
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو بولنے کا بڑا شوق ہے۔ مودی یگ میں یہ کوئی برائی نہیں ہے ۔ میڈیا چونکہ پہلے کی طرح سر سنگھ چالک کو نظر انداز نہیں کرتا اس لیے وہ اکثر سلگتے موضوعات پر اپنے زرین خیالات پیش کرتے ہیں اور ان کی خوب تشہیر بھی ہوجاتی ہے۔اس کے باوجود کچھ مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر انہیں عظیم ترسیاسی مصالح کے پیش نظرخاموش رہنا پڑتا ہے مثلاً سناتن پر تنقید یا ذات پات والی مردم شماری وغیرہ ۔ اسی طرح کا ایک تنازع فلسطین اور اسرائیل کا بھی ہے۔ اس پر انہوں دو ہفتے تک صبر کیا اور بہت سوچ سمجھ کر جو اصولی باتیں کہیں ان سے اختلاف کرنا مشکل ہے ۔ اس کے علاوہ اپنی خود ستائی کے لیے جو کذب بیانی کی گئی وہ بھی نئے بھارت میں نقص نہیں بلکہ خوبی بن گئی ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے فرمایا اسرائیل اور حماس لڑ رہے ہیں اس مسئلہ پر ہندوستان میں کبھی کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ اس بیان کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ موصوف نہ تو ہندوستان کی تاریخ سے واقف ہیں اور نہ یہ جانتے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی کی وجہ کیا ہے؟
موہن بھاگوت کو سب سے پہلے اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہیے کہ یہ اسرائیلی استعمار کے خلاف فلسطینیوں کی جنگ آزادی ہے۔ ہندوتوا کے موجد اور سب سے بڑے دانشور وی ڈی ساورکر بھی اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وطن عزیزمیں پہلی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی تھی۔ اس سے ترغیب لے کر بعد میں خود ساورکر نے بھی انگریزوں کے خلاف الم بغاوت بلند کیا اور اسی لیے انہیں انڈمان نکوبار کی جیل بھیجا گیا ۔ یہی سبب ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے وہاں کا ہوائی اڈہ ساورکر کے نام سے منسوب کیا۔ موہن بھاگوت یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ آگے چل کر اس جنگ سے وی ڈی ساورکر تائب ہوگئے تھے ۔ انہوں نے اس کو غلطی سمجھ کر انگریزوں کے تئیں اپنی وفاداری کا اظہار کردیا تھا اور ساری عمر خدمت کرنے کی پیشکش کے عوض جیل سے خلاصی حاصل کی تھی لیکن ان کے علاوہ دیگر ہزاروں مجاہدین آزادی نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے اور مسلسل لڑتے رہے ۔مولانا محمد علی جوہر سے لے کر گاندھی جی تک ، مولانا آزاد سے لے کر پنڈت نہرو تک اور نیتا جی سبھاش چندر بوس سے لے کر میجر جنرل شاہنواز حسین تک نے آزادی کے حصول تک اپنی جدو جہد جاری رکھی ۔ موہن بھاگوت یہ ضرور کہہ سکتے تھے کہ ان کی اپنی تنظیم اس کشمکش سے دور عافیت کی خاطر تہذیب و ثقافت کاچولہ اوڑھ کر انگریزوں سے ساز باز کرتی رہی لیکن جنگ آزادی کا انکار نہیں کرتے۔
موہن بھاگوت نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ یہ ہندوؤں کا ملک ہے، جو تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے۔ بیان کے اس حصے میں دو غلط بیانیاں ہیں ۔ اول تو یہ صرف ہندووں کا نہیں بلکہ یہاں بسنے والے سارے باشندوں کا ملک ہے۔ بھگوت جی نے اس ملک کو صرف ہندووں کا کہہ کر آگے کے اپنے ہی دعویٰ کی نفی کردی کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے۔موہن بھاگوت کی زبان جو بات کہہ رہی ہے اگر وہی ان کے دل میں بھی ہوتی تو وہ ہندوستان کو صرف ہندووں کا ملک نہیں کہتے ۔ ویسے یہ سچائی ہے کہ اس ملک میں مٹھی بھر فسطائی عناصر کے علاوہ اکثریت تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے فی الحال فسطائیوں کی سرکار ہے جس نے ذرائع ابلاغ کو خرید رکھا ہے اس لیے میڈیا میں اس کا بول بالا ہے۔ یہ لوگ زبان سے تمام مذاہب کے احترام کی بات تو کرتے ہیں مگر عملاً تضحیک اور تذلیل کرتے ہیں ۔ اس لیے ملک کے اندر آئے دن مساجد اور گرجا گھروں پر حملے ہوتے ہیں ۔ گجرات اور منی پور جیسا فساد ہوتا ہے اور قتل و غارتگری کرنے والوں کو بچایا جاتا ہے۔ ان کی سزاوں میں تخفیف کرکے اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ یہ گھناونی حرکت کوئی اور نہیں ان کی اپنی پارٹی بی جے پی کرتی ہے ۔ اپنے بغل بچہ کو روکنے سےقاصر آر ایس ایس کے سربراہ کو لمبی چوڑی ہانکنے سے گریز کرنا چاہیے۔
سنگھ کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ اس ملک میں وہ مذہب و ثقافت ہے جو تمام فرقوں اور عقائد کا احترام کرتی ہے۔ وہ مذہب ہندومت ہے۔ اس بات کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ شاید موہن بھگوت اخبارات نہیں پڑھتے یا شتر مرغ کی مانند حقائق سے منہ چراتے ہیں۔ وہ جس دن تقریر فرما رہے تھے اسی دن یہ خبر آئی کہ دہلی ( تھانہ کنجھاولہ) کے علاقہ میں محمد سلمان نامی نوجوان کی ایک ہجوم نے نام پوچھ کر وحشیانہ پٹائی کی۔ اس سے نوےّ ہزار روپئے لوٹنے کے بعد جئے شری رام کا نعرہ لگوایا اور پیشاب پلانے کی کوشش کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا دہلی اسی ملک کی راجدھانی نہیں ہےجس کی وہ تعریف و توصیف کررہے تھے ؟ اگر ہے تو کیا وہاں ہندو مت کے ماننے والے تمام فرقوں اور عقائد کا احترام کرتےہیں؟ بھاگوت نے جس مہاراشٹر میں یہ پروچن دیا اس میں اسی ہفتہ سورج دیو رام دھکارے نامی پولیس حوالدار نے نام پوچھ کرعظیم سید کو قتل اورفیروز شیخ کو زخمی کردیا ۔ اس سے قبل چیتن سنگھ چوہان نامی ریلوے پولیس کےاہلکار نے تین مسافروں کو نام پوچھ کر ہلاک کیا اور یوگی کی حمایت میں نعرے لگائے۔ کیا یہ سب لوگ ہندو نہیں ہیں ؟
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ہیٹ کرائم کے2014 میں 323 کیسز تھے جو مودی راج میں 2020 تک بڑھ کر 1,804 ہوگئے یعنی سرکاری رپورٹ کے مطابق سات سالوں میں چھ گنا یا تقریباً 500 فیصد اضافہ ہوگیا ۔ تعزیرات ہند کی جس دفع کے تحت مقدمات درج ہوئے ہیں وہ ’’مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کے فروغ‘‘ سے متعلق ہے ۔ موہن بھاگوت جی بتائیں کہ امیت شاہ کی وزارتِ داخلہ کے ذریعہ جاری کیےجانے والے یہ اعدادو شمار جھوٹے ہیں یا ان کا بیان غلط ہے؟ یہ نفرت انگیزی صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش کی ڈبل انجن سرکار کے تحت ایک قبائلی پر پیشاب کرنے اور ویڈیو بنانے نیز دلت عورت کو برہنہ کرنے کے واقعات بی جے پی کے رہنما یعنی سنگھ پریوار کے لوگ انجام دے چکے ہیں ۔ اس سوال کا جواب تو موہن بھاگوت کو دینا ہی پڑے گا کہ آر ایس ایس اپنےپریوار کے لوگوں کو ہندو مذہب کی تہذیب و ثقافت کا پابند کیوں نہیں بناسکی؟ ورنہ ان کی باتوں پر کوئی یقین نہیں کرے گا ۔
موہن بھاگوت نے ناگپور کے ایک اسکول میں چھترپتی شیواجی مہاراج کی تاجپوشی کے 350 سال پورے ہونے پر منعقدہ پروگرام میں کہا کہ ساری دنیا میں ہر طرف لڑائی ہے۔ روس یوکرین جنگ اور حماس اسرائیل جنگ جاری ہے مگر ہمارے ملک میں اس طرح کے مسائل پر کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے شیواجی مہاراج کے زمانے کی مثال دے کر کہا کہ اس وقت یہ صورتحال پیدا ہوئی تھی ، لیکن ہم نے مذہب کے معاملے پر لڑائی نہیں کی۔ یہ بات درست ہے کہ وہ ایک سیاسی جنگ تھی مگر آر ایس ایس کے بانی ہیگڑیوار نے اسی کو مذہبی رنگ دے کر ہندووں کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ ساورکر نے اس کو پوری طرح ہندو مسلم بنانے کے بعد مسلم شہزادی کے ساتھ شیواجی کے حسن سلوک پر تنقید کی اور آبروریزی نہیں کرنے کو غلط بتایا ۔ بھاگوت جی کے ذریعہ ہندو مت کی نئی تعریف کے بعد ساوکر کی ہندوئیت مشکوک ہوجاتی ہے کیونکہ بھاگوت کہتے ہیں ہم ہندو ہیں اور ایسا صرف ہندو ہی سوچ سکتا ہے۔
وقت کے ساتھ سرسنگھ چالک کی یادداشت کمزور ہوچکی ہے ورنہ اس طرح کی جنگ کا انکار کرنے والے بھاگوت جی کو یادہوناچاہیے کہ چند ماہ قبل انہوں نے کہا تھا کہ ہندو گزشتہ ایک ہزار سال سے جنگ کی حالت میں ہیں۔ دوسری طرف، دلت رہنما وامن میشرم اکثر یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ نچلی ذات کے لوگوں کو اونچی ذات والے پچھلے تین ہزار سالوں سے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔ لہٰذا، یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ اپنی سماجی اور مذہبی ساخت کی پیچیدگیوں کی وجہ سے صدیوں سے تصادم کی حالت میں ہے۔اس کے علاوہ ابھی حال خود انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ اس ملک دوہزا ر سالوں ہم وطنوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا گیا ۔ یہ وحشیانہ سلوک خود ہندووں نے اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ کیا ۔ انہیں عبادتگاہ تک میں آنے سے روک دیا ۔ اس کی تو دنیا بھر میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی ۔
اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے موہن بھاگوت نے کہا ہم دوسرے تمام (مذاہب) کو مستردنہیں کرتے ۔ وہ زور دے کر بولے کہ ’ یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے مسلمانوں کی حفاظت بھی کی ہے‘ ۔کاش کے بھاگوت جی ایک آدھ مثال دے کر بتاتے کہ سنگھ کے ذریعہ مسلمانوں کو بچانے کا کام کس سیارے پر کیا گیا کیونکہ اس سر زمین پر تو سنگھیوں کو مسلمانوں اور عیسائیوں کی ماب لنچنگ کرتے اور دنگا فساد بھڑکاتے ہی دیکھا گیا ہے۔ یہاں پر سنگھی سرکاریں مسلمانوں کا بے دریغ انکاونٹر کرتے اور مظلوموں کے مکانوں و دوکانوں پر بلڈوزر چلاتےنظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود جب وہ کہتے ہیں کہ یہ(بچانے کا) کام صرف ہندو کرتے ہیں۔ یہ کام صرف بھارت کرتا ہے۔ دوسروں نے ایسا نہیں کیا تو یہ سن کر ہنسی آتی ہے۔ عام ہندو تو بیچ بچاو کام کرتا ہے لیکن جب اس پر سنگھ کا خمار چڑھ جاتا ہے تو پھر وہ درندگی پر اتر آتا ہے۔ اس بیان کا واحد مثبت پہلو یہ اعتراف ہے کہ اگر سارے فرقوں اور عقائد کا احترام کیا جائے گا تو اسرائیل جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی ورنہ یہاں بھی وہی ردعمل ہو گا جو یوکرین اور غزہ میں ہورہا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی بھی اگر موہن بھاگوت کی طرح رک کر بیان دیتے تو شاید اس میں جذباتیت نہیں ہوتی ۔7؍اکتوبر حملے کے بعد انہوں نے جلد بازی سے کام لیا لیکن اسرائیل کے ساتھ ان کا ہنی مون الاہلی اسپتال پر بمباری کے بعد ختم ہوگیا ۔ مودی سرکار نے جب ٹھنڈے دماغ سے اسرائیل کی یکطرفہ حمایت پر غور کیا تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا جو فطری تھا ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ان میں سب سے اہم سارے مسلم ممالک کا اسرائیل کے خلاف متحد ہوجانا ہے ۔ ایسے میں اسرائیل کی حمایت مطلب ان سب کی مخالفت ہوتا ہے جو بڑا خسارے کا سودہ ہے۔ہندوستان کے لیے مسلم دنیا سے تعلقات استوار رکھنا مختلف پہلو سے بہت بڑی ضروری ہے۔ اسرائیل کے اندر تو چند ہزار ہندوستانی ہیں جن کو واپس لے آنا قدرے آسان ہے جبکہ اس معاملے میں بھی ابھی تک چند سو زیادہ لوگوں کو واپس لانے میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ عرب دنیا میں موجود ہندوستانیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کو اگر واپس لانا پڑجائے تو یہ حکومت کے لیے بہت بڑی مصیبت بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ایسے میں نہ صرف بیروزگاری کی زبردست لہر چل جائے گی بلکہ ان لوگوں کے توسط سے ملک میں آنے والا زر مبادلہ بھی بند ہوجائے گا ۔
بیروزگاری کے علاوہ ہندوستانی مصنوعات کی برآمد کا بھی سنگین مسئلہ ہے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے ٹریڈ پارٹنرس مسلم ممالک ہیں۔اسرائیل سے دوستی کے سبب اگرمسلم دنیا میں ہندوستانی اشیاء کا بائیکاٹ شروع ہوجائے تو نہ صرف تاجر متاثر ہوں گے بلکہ ان کی پیداوار میں مصروف محنت کشوں کے روزگار پر بھی اس کا زبردست منفی اثر پڑے گا اور بازارو صنعت کی مندی میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔ ایسے میں سربراہانِ مملکت کی دوستی بھی کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ مسلم صارفین اسرائیل کے مخالف اور فلسطین کے حامی ہیں۔ ایندھن کے معاملے میں آج بھی ہندوستان کا عرب ممالک پر انحصار ہے۔ روس کے ساتھ تجارتی معاہدہ چینی کرنسی یوآن میں ادائیگی کے سبب مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔ ایسے میں اگر تیل کی درآمد متاثر ہوتی ہے تو مہنگائی آسمان میں پہنچ جائے گی اور بی جے پی کے لیے آئندہ سال قومی انتخاب جیتنا ناممکن ہوجائے گا۔ بعید نہیں کہ کسی نے وزیر اعظم کو ان تمام حقائق سے آگاہ کیا ہو اور یہ باتیں ان کی سمجھ میں آگئی ہوں ۔ اس کے بعد انہیں اپنی شبیہ سدھارنے کے لیے ایک موقع کی تلاش تھی جو اسپتال پر حملے کے بعد ہاتھ آگیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی فلسطین کے صدر محمود عباس کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
وزیراعظم مودی کے دفترنے بتایا کہ غزہ کے الاہلی اسپتال میں شہریوں کی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ہندوستان اور اس خطے کے درمیان روایتی طور پر قریبی اور تاریخی تعلقات کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے خطے میں دہشت گردی، تشدد اور بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے اسرائیل فلسطین مسئلہ پر ہندوستان کے دیرینہ اور اصولی موقف کا اعادہ کیا۔ صدر محمود عباس نے صورتحال کے بارے میں اپنے تجزیے کا اشتراک کیا۔ انہوں نے ہندوستان کی حمایت پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا اور ہندوستان کے موقف کو سراہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد بھیجنا جاری رکھے گا۔ دونوں رہنماؤں نے رابطہ بنائے رکھنے پر اتفاق کیا۔ ہندوستان سمیت اگر امریکہ ، جرمنی ، فرانس ، برطانیہ وغیرہ شروع سے یہی موقف اختیار کرتے تو شاید اسرائیل اسپتال پر حملہ نہیں کرنے کی سفاکی کا مظاہرہ نہیں کرتا بقول غالب؎
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
فلسطین کے ساتھ مسئلہ صرف وزیر اعظم کی ذاتی شبیہ کا نہیں ہے کیونکہ وہ تو 2002کے بعد ایسے بگڑی کہ پھر سدھرنے کا نام نہیں لیتی ۔ اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں ہے کہ وطن عزیز کی دیرینہ خارجی پالیسی اسرائیل کے بجائے فلسطین کی حامی رہی ہے۔ اس کی وجہ فطری ہے کیونکہ جس وقت فلسطینیوں پرمغربی استعمار کی درپردہ حمایت سے اسرائیل کی غلامی مسلط کی جارہی تھی اس وقت ہندوستان کے اندر برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد جاری تھی ۔ اس لیے گاندھی جی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک سبھی نے فلسطینی کاز کی حمایت کی۔ گزشتہ سال یومِ فلسطین کے موقع مودی سرکار نے خود وزیر اعظم کے نام سے ایک خط جاری کرکے فلسطینیوں کی آزاد ی و خودمختاری کے حق کو تسلیم کیا اور اس مقصد کے حصول کی خاطر تائید و تعاون کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود جذبات سے مغلوب ہوکر یا سیاسی مفاد کی خاطر وزیر اعظم نے غاصب اسرائیل کی کھل کر ایسی حمایت کی جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعظم کے ایک بیان نےہندوستان کو مظلوموں کے بجائے ظالموں کا حامی بنادیا۔
انڈیا ٹوڈے چینل پر معروف صحافی راجدیپ سر دیسائی سے بات چیت کرتے ہوئے فلسطین کی مشہور مصنفہ سوسان ابوالہوا نے اس پر حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا استعماری قوتوں کا اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ ان کی تاریخ اور فطرت دونوں اس سے ہم آہنگ ہے لیکن ہندوستان جوان کی غلامی کے خلاف برسوں تک برسرِ جنگ رہا ہے وہ کیسے اسرائیل کا حامی ہوگیا؟ سوسان کا یہ سوال واجب ہے کیونکہ جدید استعمار کی بدترین شکل اسرائیل ہے۔ سوسان ابوالہوا سوال کرتی ہیں کہ آخر حکومت ہند اپنی تاریخ کیسے بھول گئی؟ وہ بیچاری یہ نہیں جانتیں کہ جب وطن عزیز میں آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی تو اس وقت بھی موجودہ حکومت کی مادرِ تنظیم انگریزی استعمار کے خلاف لڑنے کے بجائے اس سے ساز باز کررہی تھی۔ وہ ان کے بدنام زمانہ منصوبے بانٹو اور کاٹو یا بانٹ کر حکومت کرو کے اصول کو بروئے کار لارہی تھی ۔ بدقسمتی آج بھی اقتدار میں بنے رہنے کی خاطر اسے وہی سب کرنا پڑ رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پر انگریزوں کے لیے مخبری کا الزام لگا تھا مگر انہوں نے آزاد فلسطین کی حمایت کرکے اپنے دامن سے وہ داغ دھو دیا جبکہ وزیر اعظم مودی نے جذباتیت کا شکار ہوکر ایک کلنک اپنی پیشانی پر لگا تولیا۔ اپنی غلطی کا احساس کرلینے کے بعد اب وہ اسے پونچھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔غزہ میں بھیجی جانے والی قابلِ تعریف مدد بھی اس حصہ ہے لیکن اگر وہ وہ اسرائیل کی ناراضی سے بے نیاز ہوکر جنگ بندی کے لیے عملی اقدام کریں گے تبھی انہیں کامیابی ملے گی ورنہ نغمہ نگار اندیور نے لکھا تھا ’ قسمیں وعدے پیار وفا سب ، باتیں ہیں باتو ں کا کیا ‘ ۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 وطن عزیز کی دیرینہ خارجی پالیسی اسرائیل کے بجائے فلسطین کی حامی رہی ہے۔ اس کی وجہ فطری ہے کیونکہ جس وقت فلسطینیوں پرمغربی استعمار کی درپردہ حمایت سے اسرائیل کی غلامی مسلط کی جارہی تھی اس وقت ہندوستان کے اندر برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد جاری تھی ۔ اس لیے گاندھی جی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک سبھی نے فلسطینی کاز کی حمایت کی۔ گزشتہ سال یومِ فلسطین کے موقع مودی سرکار نے خود وزیر اعظم کے نام سے ایک خط جاری کرکے فلسطینیوں کی آزاد ی و خودمختاری کے حق کو تسلیم کیا اور اس مقصد کے حصول کی خاطر تائید و تعاون کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود جذبات سے مغلوب ہوکر یا سیاسی مفاد کی خاطر وزیر اعظم نے غاصب اسرائیل کی کھل کر ایسی حمایت کی جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعظم کے ایک بیان نےہندوستان کو مظلوموں کے بجائے ظالموں کا حامی بنادیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023