محمد عمر فلاحی قاسمی
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (بنی اسرائیل:1)
پاک ہے وه جو لے گيا ايک رات اپنے بندے كو مسجد حرام سے دور كی اس مسجد تک جس كے ماحول كو اس نے بركت دی ہے تاكہ اسے اپنی كچھ نشانيوں كا مشاہده كرائے۔ حقيقت ميں وہي ہے جو سب كچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
اسراء ومعراج كے واقعہ كا خلاصہ:
مذكورہ بالا آيت ميں واقعہ اسراء ومعراج كو نہايت ہی اختصار كے ساتھ بيان كيا گیا ہے۔ امام بخارى نے إسراء ومعراج كے واقعے كو تفصيلاً نقل كيا ہے کہ نبى ﷺ ام ہانی كے گھر پر اپنى پیٹھ كے بل ليٹے ہوے تھے كہ گھر كى چھت ميں سوراخ ہوا اور دو فرشتے انسانى شكل ميں نازل ہوئے اور آپ كو حطيم كى طرف زمزم كے پاس لے گئے پھر آپ كے سينے كو چيرا اور آپ كے قلب أطہر كو نكالا، اسے ماء زمزم سے دھویا اور اسے ايمان وحكمت سے بھر ديا تاكہ وه اس چيز کے لیے تيار ہوجائيں جو کچھ وه مشاہده كرنے والے تھے تاكہ وه يقين اور روحانی طور پر تيار ہو جائيں۔ ابن حجر عسقلانى نے اس پر اپنى تعليق لگاتے ہوئے کہا کہ جو کچھ شق صدر اور دل كے نكالنے کا واقعہ اور اس كے علاوه خارق العادات چيزيں ذكر ہوئی ہیں ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اسے بغير كسى تعرض كے اللہ كى قدرت اور اس كى صلاحيت كو تسليم كريں کہ اس سے كوئى چيز مستحيل نہيں ہے۔ پھر جبريل عليہ السلام آتے ہيں ايک جانور (براق) كے ساتھ۔ يہ جانور گھوڑے سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا جو اپنا اگلا قدم تا حد نگاه رکھتا تھا۔ جب نبى ﷺ اس پر سوار ہوئے تو وه تھوڑا سا بدک رہا تھا۔ يہاں تک كہ جبريل عليہ السلام نے كہا تو ٹھہر جا كيونكہ اس سے قبل اس سے بہتر انسان نے تيرى سوارى نہيں كى۔ تو نبى ﷺ اس پر جم كر بيٹھ گئے حتى كہ اس كے پسينے بہنے لگے، پھر وه ان دونوں كو لے كر بيت المقدس كى طرف روانہ ہوا۔ اس سفر ميں پہلى منزل يثرب كى تھى جہاں آپ كو كھجوروں كے باغات اور پہاڑياں نظر آتى ہيں، آپ نے سوال كيا تو جبريل امين نے فرمايا يہ آپ كا ہونے والا دار الہجرت ہے۔ اگلى منزل كوه سینا ہوتی ہے، جہاں اتر كر آپ نے دو ركعت نماز پڑهى، پھر اگلى منزل بيت اللحم تھى جو سيدنا عيسى عليہ السلام كى جائے پيدائش ہے اور پھر آخرى منزل بيت المقدس۔ وہاں پر آپ نے براق كو باندھ ديا اور پھر بيت المقدس ميں آپ نے تمام انبياء كى امامت كى اس ميں سيدنا جبريل امين بھى آپ كے مقتدى كى حيثيت سے شامل رہے۔ پھر مقام قبہ الصخراء پر جہاں سے فرشتے آسمان كى جانب پروان كرتے ہيں وہاں ايک سيڑهى نمودار ہوتى ہے اور وہاں سے آپ کا دوسرا سفر معراج كا شروع ہوتا ہے۔ وہاں سے جبريل عليہ السلام اور آپ سماء دنيا پر چڑهتے ہیں۔ وہاں پر انہوں نے آدم عليہ السلام كو ديكھا، انہوں نے انہيں مرحبا كہا اور ان پر سلام عرض كيا، انہيں اپنے دائيں شہداء كى روحوں كو دکھلایا اور بائيں جانب بدبخت لوگوں كى روحوں كو دكھلايا، پھر آپ دوسرے آسمان كى طرف چڑهے تو وہاں انہوں نے حضرت يحى اور عيسى عليہم السلام كو ديكھا، انہوں نے انہیں سلام عرض كيا آپ نے ان دونوں کو سلام عرض كيا پھر تیسرے آسمان پر تشريف لے گئے اور وہاں انہوں نے حضرت يوسف عليہ السلام كو ديكھا، پھر آپ نے حضرت ادريس عليہ السلام كو چوتھے آسمان پر ديكھا، اور پھر پانچويں آسمان پر ہارون عليہ السلام سے ملاقات ہوئی، پھر چھٹے آسمان پر موسى عليہ السلام سے ملاقات ہوئی اور ساتويں آسمان پر سيدنا ابراہيم عليہ السلام سے ملاقات ہوى، تمام كے تمام نے آپ كو سلام عرض كيا اور آپ كى نبوت كا اقرار كيا، پھر آپ سدرة المنتہى پر چڑهے اور بيت المعمور پہنچے پھر آسمان كے اوپر چڑهے اور الله رب العزت سے ہم كلام ہوئے۔ آپ پر پچاس وقت كى نمازيں فرض ہويں پھر نبى ﷺ اپنے رب كے پاس رجوع كرتے رہے يہاں تک كہ پانچ وقت كى نمازيں باقى رہيں، آپ كے پاس دودھ اور شراب كا پيالہ پيش كيا گيا آپ نے دودھ كا انتخاب كيا تو كہا گيا کہ آپ نے فطرت كو پاليا۔ پھر آپ نے جنت كى نہريں ديكھيں دو بالكل ظاہر تھیں اور دو مخفی تھیں، پھر آپ نے جہنم كے داروغہ كو ديكھا اور آپ نے سود كے كھانے كى سزا اور يتيموں كے مال كو ظلم كى بنياد پر كھانے والے كی سزا کو ديكھا، اس كے علاوه بے شمار مشاہدات آپ كو كرائے گئے۔
واقعہ معراج ميں دروس اور اسباق:
1۔ قدرت ربانى كى معرفت كہ وه رب كتنا عظيم ہے اور اس کی قدرت كتنى لا متناہى ہے جس نے اتنی بڑى دنيا كى خلقت كى وه ذات ايک انسان كو عالم آسمان ميں لے جانے اور پھر اسے دنيا تک لوٹانے سے كيسے عاجز ہوسكتی ہے؟ يہ وه ربانى سفر تھا جس كى كيفيت اور ماہيت كا اندازه انسان نہيں لگا سكتا كيونكہ الله كا معاملہ تو يہ ہے كہ: إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ جب وه كسى چيز كا اراده كرتا ہے تو بس كہتا ہے ہو جا تو وه ہوجاتى ہے۔
2۔ الله كى خلقت اور رعنائى كا ادراک جس سے الله كى عظمت كا انسان كو اندازه ہوتا ہے اور اس کی عظيم قدرت كا اندازه ہوتا ہے جس سے اس کے نفس كو وثوق، اس كے دل كو اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ اس نے ايک مضبوط سہارے كو تھاما ہے جو اس کے لیے ہميشہ خير ہى كرتا ہے، كبھى برا اور شر نہيں چاہتا۔
3۔ اسراء و معراج نبی ﷺ كے عظيم معجزات ميں سے ہے، الله رب العزت نے نبى ﷺ كو وه عزت ومنزلت بخشى جو اس سے قبل كسى بھى انسان كو نصيب نہيں ہوئی۔ آپ نے الله رب العزت كى آيات كا مشاہده كيا جس كا ادراک كسى بشر كو ہوہى نہيں سکتا الا يہ كہ تائيد الہى ہو۔ اس طرح اس مكان تک رسائى حاصل ہوئی جہاں آپ نے الله رب العزت جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا اس كے كلام كو سنا جو انسانى عالم سے مشابہ نہيں ہوسكتا۔ اس طرح واقعہ اسراء ومعراج خاص كر اہل قريش كو اور عام طور سے دنيا كو يہ پيغام تھا كہ جس نبى كى وقعت كا تمہيں اندازه نہيں اس كى قدرومنزلت كو پہچانو كہ اس کا مقام اور اسكى حيثيت رب كريم كے يہاں كيا ہے۔
4۔ نماز كى فضيلت اور اہميت: اسلام کے جتنے بھى احكام وفرائض ہيں الله رب العزت نے حضرت جبريل كے ذريعہ دیے ہیں ليكن نماز كو يہ مقام حاصل ہے كہ اسے رب كونين نے ساتويں آسمان پر نبى آخر الزماں كو بلا كر آپ كو ہديہ كيا۔ یہ اس عظيم سفر اور نماز كى اہميت ومنزلت پر دليل ہے، اسى لیے اسلام نے اس پر بہت زیاده زور ديا ہے اور اسے ہر حال ميں قائم كرنے كا حكم ديا ہے۔ اسلام كے دوسرے احكام بوقت عذر اس ميں يا تو معافى ہے يا اسے مؤجل كرنے كى رخصت ہے۔ جيسے اگر مريض يا مسافر ہے تو روزه مؤخر كرسكتا ہے۔ اگر اسباب مہيا نہيں ہيں تو حج ساقط ہوجاتا ہے۔ اگر مال بقدر نصاب نہيں ہے تو زكوة واجب نہيں ہے، ليكن نماز خواه سفر ہو يا حضر ہو، مريض ہو كہ صحتمند، خوف كى حالت ہو يا امن كى، كسى بھى حالت ميں معاف نہيں ہے۔ اگر كھڑے ہوكر نہيں پڑھ سكتے تو بيٹھ كر پڑھیں اگر بيٹھ كر نہيں تو ليٹ كر اور اس كى بھی استطاعت نہيں تو اشارے سے پڑھیں اگر وضو كى قدرت نہيں تو تيمم سے، لیکن نماز كس بھى حالت ميں معاف نہيں ہے۔ نماز نبى كى آنکھوں كى ٹھنڈک ہے۔ نماز سے جان بوجھ كر لا پروائى پر فقہاء نے سخت فتوے جارى كرتے ہوئے كہا کہ ايسا شخص فاسق ہے اور اعاده كلمہ واجب ہے۔ ايسے شخص كو مسلمانوں كے قبرستان ميں نہيں دفن كيا جائے گا اور اگر اسلامى حكومت ہے تو اسے جيل ميں ڈال ديا جائے گا۔
قيامت ميں سب سے پہلے جس چیز کا سوال ہوگا وه نماز ہے۔
اگر اس ميں كاميابى ہوگئى تو باقى كى منزليں آسان ہوجائيں گى ليكن اگر اسے رد كرديا گيا وہاں ناكامى ہاتھ آئى تو بقيہ أعمال بھی رد كرديے جائيں گے۔
نبى ﷺ نے ايسے شخص سے اعلان براءت فرمايا جو نماز كى پابندى نہيں كرتا۔ فرمایا کہ ميرے اور ميرى امتيوں كے درميان جو شفاعت کا عہد وپيماں ہے وه نماز پر مبنی ہے جس نے اسے جان بوجھ كر ترک كيا اس نے كفر كيا اور كافروں کے لیے كوئى شفاعت نہيں ہے
جو نماز جان بوجھ كر چھوڑتا ہے احاديث ميں آتا ہے کہ الله رب العزت كل اس كا حشر فرعون وقارون اور ہامان وابى بن خلف كے ساتهہ كرے گا۔ كتنا سنگين جرم ہے نماز كو جان بوجھ كر ترک كرنا۔ آج ضرورت ہے كہ ہم اپنى زندگيوں كا جائزه ليں، اپنے ايمان كا جائزه ليں۔ نماز سے اپنى زندگیوں كو آراستہ كريں۔
5۔ اسلام دين فطرت ہے جس ميں انسانوں کے لیے سراسر ہدايت ہے۔ اس رات كے واقعات ميں سے ايک واقعہ يہ بھى ملتا ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے دودھ كے پيالے كا انتخاب كيا او اسے پيا اس پر احاديث میں آتا ہے كہ حضرت جبريل امين نے فرمايا: آپ نے فطرت كو پاليا اور فطرت كى ہدايت ہوئی۔ دودھ كو فطرت سے تعبير كرنے كى وجہ يہ ہے كہ پہلى چيز جو نومولود كے پيٹ ميں جاتى ہے اور اس كے سريان كو سيراب كرتى ہے وه دودھ ہى ہے۔
فطرت كى سلامتى يہى اسلام كا لب ولباب ہے: ہمارا عقيده، ہمارى شريعت، اس كے تمام احكام ہر چيز اس فطرت سے ہم آہنگ ہیں جسے الله نے پيدا فرمايا قبل اس كے کہ ہم اپنى شہوت پسندى ميں اسے گدلا كرديں ہم اپنى ذاتى مفاد كى لالچ ميں اسے پراگنده كرديں، اسى لیے الله رب العزت نے بھى اس دين حنيف كو دين فطرت سے تعبير کرتے ہوئے فرمايا: فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ۔
6۔ اسراء ومعراج كا واقعہ ہميں يہ پيغام ديتا ہے كہ ہم اپنے نبى كے مقام ومنزلت كو پہچانيں۔ رب ذوالجلال والاكرام نے كس طرح ان كے مقام كو بلند كيا اور رفعت كى اس منزلت كو پہنچايا جہاں آج تک كوئى انسان نہيں پہنچ سكا۔ آپ ساتويں آسمان تک پہنچے۔ پيدل چلے اس بقعہ مباركہ ميں يہاں تک كہ سدرہ المنتہى تک رسائى حاصل ہوئی، رب ذوالجلال سے ہم كلام ہوئے۔ ہمارے اوپر واجب ہے كہ ہم اس رسول سے محبت كريں، اس كے اسوہ اور طريقے سے محبت كريں، اس كى دعوت اور آفاقى مقصد كو لے كر اٹھيں جس کے لیے رسول الله نے مكہ كى گليوں ميں تكليفيں برداشت کیں، شعب ابى طالب ميں محصور كیے گئے، طائف ميں پتھر كھائے، اس مقصد كو ہم اپنا مقصد بنائيں۔ الله رب العزت كا ارشاد ہے: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ اے نبى ان سے كہہ دو كہ اگر تم الله سے محبت كرتے ہو تو ميرى اتباع كرو، الله تمہيں اپنا محبوب بنا لے گا بے شک الله بہت ہى رحيم اور مغفرت فرمانے والا ہے۔
عزيزو! اگر كسى كو الله كى خوشنودى حاصل ہوجائے، اس كى رضا نصيب ہوجائے تو اس كى تو دنيا بھى كامياب اور اور آخرت بھى كامياب۔ آج ہمارى دنيوى ناكاميوں كى نماياں وجہ يہى ہے كہ ہم نے اپنے نبى كى منزلت كو نہيں پہچانا، ہم نے ان كے اسوہ كو ترک كيا ہم نے ان کے منہج كو بھلايا، ہم نے ان كے ہدف اور مقصد كو چھوڑ کر اپنے خود ساختہ مقاصد طے كرليے اور ان كے پیچھے اپنى توانائياں صرف كر رہے ہیں، نتيجہ خدا ہى ملا نہ وصال صنم۔ آج يہ امت ہر طرف زخم خورده ہے۔
7. اسراء ومعراج كے واقعے ميں سبق ہے كہ نبى ﷺ كى دعوت عام تھى۔ آپ سارے جہاں کے لیے نبى بناكر بھيجے گئے تھے۔ متعدد روايات سے يہ بات ثابت ہے كہ آپ نے اسراء ومعراج كى رات بيت المقدس ميں تمام انبياء كى امامت كى۔ اس ميں دليل ہے كہ اسلام ايک عالمى دين ہے اور يہ سارى كائنات کے لیے ہدايت كا واحد سرچشمہ ہے جسے لے كر آپ مبعوث كیے گئے تھے۔ آپ نے پورى امانت کے ساتھ اس كا حق ادا كيا اور اسے بہترين شكل ميں برپا كر كے دكھلا ديا، پھر امت مسلمہ اس كى وارث ہوئی، اسى لیے اس امت كو خير امت كہا گيا اور اس امت كو الله كى مخلوق پر، الله كى حجت تمام كرنے کے لیے ذمہ دار بنايا گيا ہے، ارشاد بارى ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا – البقرة: 14۔ اسى طرح ہم نے تمہيں امت وسط بنايا تاكہ تم لوگوں پر شہادت كا فريضہ انجام دے سكو اور نبى تم پر شہادت پورى كرسكے۔ ہم اپنے مقام ومنزلت كو پہچانيں۔ ہم اپنى منزلت كو اگر پہچانيں گے الله بھى ہمارى دنيا ميں پہچان باقى ركھے گا۔ ياد ركھیے کہ ہم كٹہرے ميں كھڑے كیے گئے ہيں، جس ميں ذمہ دارى سے پہلو تہى الله كے غضب كو دعوت دينے كے مترادف ہے۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ۔ يہ وعيد صرف اہل كتاب کے لیے نہ تھی، يہ اس امت کے لیے بھى ہے اور امت بالفعل اس كى سزا آج بھگت بھى رہى ہے۔
8۔ اسراء ومعراج كے واقعے ميں ہمارے لیے پيغام ہے، ہم اپنے سماج اور سوسائٹى ميں رہتے ہيں وہاں بہت سے لوگ كمزور ہيں، ان كے حقوق كى ادائیگى كريں، انہيں ميں سے ايک يتيم بھى ہے جو شفقت پدرى سے محروم ہوگيا اور معاشرے ميں ہر كوئى اسے لوٹ كھانے پر آماده ہوتا ہے، وہاں نبى ﷺ كو كچھ ايسى سزاؤوں كا مشاہده كرايا گيا جو يتیموں كا مال ظلم وزيادتى اور زبردستى سے كھا جاتے ہيں، ان كے ہونٹ اونٹوں كى طرح تھے اور وه آگ كے انگارے کھارہے تھے۔ ہم اپنے معاشرے كا جائزه ليں اور ايسے لوگوں كو ان كے سخت ترين انجام سے آگاه كريں۔
9۔ سود ايک معاشرتى برائى ہے جس سے سماج ميں اقتصادى اونچ نيچ اور تفريق قائم ہوتى ہے۔ اسلام نے اسے گناه كبيره قرار ديا ہے اور اس كے ارتكاب كرنے والوں كو اللہ اور اس كے رسول سے جنگ كرنے كے مترادف قرار ديا ہے۔ آج ہم اپنا جائزه ليں، اپنى تجارت كا جائزه ليں اور طے كريں كہ ہمارى تجارت، ہمارا مال سود كى حرمت سے پاک ہے كہ نہيں۔ رسول ﷺ كو وہاں مشاہده كرايا گيا كہ كچھ لوگوں كے پيٹ اتنے بڑے تهے كہ ادهر ادهر نہ ہوسكتے تھے، استفسار پر جبريل امين نے فرمايا يہ سود خور ہيں۔ اسراء ومعراج كا واقعہ پيغام ديتا ہے كہ ہم اپنے معاشرے سے سود كى لعنت كو دور كريں اور معاشرے كو پاک روزى كے كمانے پر ابھاريں۔
10۔ آج ہم معاشرے ميں ايک سنگين جرم زنا كارى كا مشاہده كررہے ہيں، جس كا بازار ہر طرف گرم ہے۔ رسول اللہ ﷺ كو اس جرم كى سنگينی كا عینی مشاہده اس سفر میں کرایا گيا كہ كچھ لوگ ہيں جن كے سامنے تازہ گوشت ہے ليكن وه اسے چهوڑ كر سڑا گلا گوشت کھارہے تھے۔ استفسار پر فرمايا گيا کہ یہ زناكار لوگ ہيں۔ اسرا ومعراج كا پيغام ہے كہ ہم معاشرے كو اس جرم كى سنگينى سے آگاه كريں۔ انہيں بتلائيں كہ كس طرح اسلام عفت وپاكدامنى كو يقينى بناتا ہے۔ كس طرح اسلام حفظ نسب كى ضمانت ديتا ہے، كس طرح اسلام ايسے شر پسندوں كے خلاف سخت قدم اٹھانے كى ترغيب ديتا ہے جو معاشرے ميں شہوت پرستى كا ماحول پيدا کرنا چاہتے ہيں۔
الله رب العزت سے دعا ہے كہ ہميں اسراء ومعراج كے پيغام كو سيكھنے اور اسے عام كرنے كى توفيق عطا فرمائے۔ آمين رب العالمين۔
***
***
اسراء و معراج نبی ﷺ كے عظيم معجزات ميں سے ہے، الله رب العزت نے نبى ﷺ كو وه عزت ومنزلت بخشى جو اس سے قبل كسى بھى انسان كو نصيب نہيں ہوئی۔ آپ نے الله رب العزت كى آيات كا مشاہده كيا جس كا ادراک كسى بشر كو ہوہى نہيں سکتا الا يہ كہ تائيد الہى ہو۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023