اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے 32ویں فقہی سیمینار میں منظور شدہ تجاویز

حرام کمائی، غیروں سے مشابہت اور سرمایہ کاری سے متعلق بعض نئے طریقوں پر اہم اقدامات

کرور، چنئی (دعوت نیوز ڈیسک)

حالات حاضرہ کے پس منظر میں حرام کمائی سے متعلقہ مسائل، تشبہ کے مسائل  اور سرمایہ کاری سے متعلق بعض نئے طریقوں کے سلسلے میں کئی ساری تجاویز اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے 32ویں سمینار میں منظور کی گئیں جو  پچھلے دنوں تمل ناڈو کے جامعۃ الاسوۃ الحسنۃ، پلاپٹی میں منعقد ہوا تھا۔ ان تجاویز کا خلاصہ قارئین ہفت روزہ دعوت کے استفادے کے لیے پیش ہے:
حرام کمائی سے متعلق بعض مسائل
 اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے 32ویں فقہی سمینار میں ‘حرام کمائی سے متعلق بعض مسائل‘ پر غور وخوض اور بحث و مناقشہ کے بعد درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں :
1 ۔ (الف) حرام ( سود، غصب، رشوت، چوری، جوا، سٹہ اور عقدِ باطل) کے ذریعہ حاصل شدہ مال قطعی حرام ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اصل مالک کو لوٹا دیا جائے، اور اگر اصل مالک کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو دفعِ وبال کی نیت سے غرباء میں تقسیم کر دیا جائے۔
 (ب) اس طرح کا مال اگر وراثت میں حاصل ہوا ہو اور اس کا مالک معلوم ہو، نیز واپس کرنا ممکن ہو تو مالک تک اس کا پہنچانا ضروری ہے اور اگر مالک معلوم نہ ہو یا معلوم ہو لیکن اس تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو اس مال کو بھی فقراء میں تقسیم کر دیا جائے۔
 (ج) اگر وارث نے وراثت میں ملے ہوئے مالِ حرام سے کاروبار کیا تو اس کی آمدنی حلال ہوگی، البتہ حرام مال کے بقدر اس پر صدقہ کرنا واجب ہے۔
2 –  اگر شوہر یا بیٹے کی پوری یا اکثر آمدنی حرام ہو اور عورت کے پاس گزارے کی کوئی اور صورت نہ ہو تو اس کو مجبوری کی صورت میں شوہر یا بیٹے کے مال کو استعمال کرنے کی گنجائش ہے ۔
3 – جس شخص کی تعلیم مالِ حرام سے ہوئی ہو وہ تعلیم پانے کے بعد کوئی جائز ملازمت کرے تو اس کی آمدنی حلال ہے، البتہ بہتر ہے کہ کمائی کے بعد مالِ حرام کے بقدر حرام کی تلافی کی نیت سے صدقہ کر دے ۔
4 – اگر کسی کے پاس حلال و حرام دونوں مال ہوں اور دونوں الگ الگ ہو اور یہ معلوم ہو کہ وہ حلال مال سے ہی خرچ کر رہا ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا اور اس سے ہدیہ لینا جائز ہے۔ اگر متعین طور پر معلوم ہو کہ مالِ حرام سے دعوت کر رہا ہے تو اس کو قبول کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر حلال و حرام مخلوط ہوجائے تو جو وہ اپنے حلال حصے کے بقدر مال میں سے پیش کرے اس کو قبول کرنا درست ہے ، اور اگر اس کا علم نہ ہو، لیکن حرام مال غالب ہو تو اس کے یہاں دعوت قبول کرنا یا ہدیہ لینا جائز نہیں ہے ۔
5 – اگر کسی کو معلوم نہ ہو کہ دعوت کرنے والے کا مال حرام تھا، اس لیے اس نے دعوت کھالی اور بعد میں معلوم ہوا تو اب توبہ و استغفار کرے اور بہتر ہے کہ کھانے کے بقدر مال صدقہ کر دے ۔
6 – اگر کسی کے پاس حرام مال ہو اور اب وہ جائز کاروبار کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کو غیر سودی قرض نہیں مل رہا ہے اور تمام مال کو صدقہ کرنے میں شدید حرج ہے تو اس مال سے کاروبار کرنے کی گنجائش ہے اور بعد میں اس کو صدقہ کر دینا واجب ہے۔
7 – اگر کسی شخص کو دورانِ ملازمت جائز و ناجائز دونوں طرح کے کام کرنے پڑتے ہوں تو ایسی ملازمت ناجائز ہے ۔
8 – فروخت شدہ سامان کی قیمت، گاڑی یا مکان کا کرایہ اور کسی طرح کی فیس وغیرہ ایسے شخص سے وصول کرنا جائز ہے جس کا ذریعہ آمدنی بہ ظاہر حرام ہے ۔
9 – سودی رقم کو کسی طرح کے بھی ذاتی مفاد میں استعمال کرنا درست نہیں ہے ۔
تشبہ سے متعلق مسائل
  اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندر اپنا تشخص قائم کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کا جذبہ رکھا ہے۔ اسلام اس جذبہ کو اہمیت دیتا ہے، اس لیے اگر غیر مسلم بھائیوں کا کوئی گروہ اپنے لیے اپنی مذہبی یا تہذیبی شناخت کو قائم رکھنا چاہتا ہو اور اس سے دوسروں کو کوئی ضرر نہ ہو تو اسلام مسلمانوں کو اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ اس میں رکاوٹ بنیں یا خلل پیدا کریں۔ اسی طرح اسلام مسلمانوں سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی و تہذیبی شناخت کو قائم رکھیں اور دوسری قوموں کا ایسا اثر قبول نہ کریں کہ اس سے ان کی اپنی دینی و قومی شناخت متاثر ہوجائے – چنانچہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ جو کسی اور قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے : مَنْ تشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ – آپ کا یہ ارشاد معتبر طریقہ سے ثابت ہے اور اسی لیے فی الجملہ اس کے ضروری ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ لہٰذا اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے 32ویں فقہی سمینار میں ’تشبّہ سے متعلق مسائل‘ پر غور وخوض اور بحث و مناقشہ کے بعد درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں :
1 – کسی فرد یا جماعت کا کسی ایسی چیز کو جو کسی خاص قوم کی پہچان و امتیاز ہو، بالارادہ اختیار کرنا تشبّہ ہے۔
2 – جن امور کو عادتاً ایک مخصوص انداز میں کیا جاتا ہے اور اس سے اسلام میں منع بھی نہیں کیا گیا ہے تو ان امور کو اسی طریقہ پر کرنا تشبّہ نہیں ہے ۔
3 – نئی ایجادات اور عام ضروریاتِ زندگی سے متعلق امور میں تشبّہ مباح ہے ۔
4 – کسی بھی قوم یا مذہب کی وہ خاص علامت جس سے ان کی شناخت ہوتی ہو ، اس کو شعار کہتے ہیں اور کسی دوسری قوم کا شعار اختیار کرنا جائز نہیں ۔
5 – اگر کسی قوم کا کوئی مروّج عمل اتنا عام ہوجائے کہ اب اس کو اس قوم کی پہچان نہ قرار دیا جا رہا ہو تو اس میں تشبّہ کی جہت ختم ہو جائے گی ۔
6 – وہ امور جن کا تعلق عقیدہ و عبادات سے یا مذہبی عُرف و عادات سے ہے ان میں تشبّہ حرام ہے اور ان کی بعض صورتوں میں کفر کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔
7 – صلیب لٹکانا، زنّار پہننا، قشقہ لگانا، ہولی کھیلنا، دیوالی میں دیا جلانا، کرسمس میں شریک ہونا، یوگا کرنا یا اس طرح کے دوسرے مذہبی اعمال انجام دینا یہ سب مذہبی تشبّہ کے دائرہ میں آتے ہیں اور یہ سب ناجائز ہیں ۔
8 – سرسوتی وندنا، سوریہ نمسکار، وندے ماترم، بائبل یا گیتا سے مشرکانہ دعائیہ کلمات پڑھنا، دیوی دیوتاؤں کے سامنے ہاتھ جوڑنا یا ان کے نام کے نعرے لگانا، حضرت مسیح کے مجسّمہ و فوٹو کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہونا، یہ سب دیگر مذاہب کے مذہبی شعار ہیں۔ ان سے بچنا لازمی ہے اور ان کے ارتکاب کی وجہ سے دائرۂ ایمان سے نکل جانے کا اندیشہ  رہتا ہے۔
9 – لباس میں اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اس سے ستر پوشی کے تقاضے پورے ہور ہے ہوں، نیز دوسری قوموں کے مروّج لباس کی نقّالی بھی نہ ہو، لہٰذا ساڑی، دھوتی جن علاقوں میں غیر مسلموں کا لباس نہیں ہے اور وہ ساتر بھی ہوں اور ان کے پہننے سے شناخت مشتبہ نہ ہو تو ان کے استعمال کی گنجائش ہے۔ اسی طرح کوٹ پینٹ اور ٹائی جو اب کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں، ان کے استعمال کی بھی اجازت ہے۔
10 – ٹکلی اور سندور کا استعمال جن علاقوں میں غیر مسلموں کے ساتھ خاص ہے وہاں اس کا استعمال مسلم خواتین کے لیے جائز نہیں ۔
11 – دوسری اقوام کی نقل میں یا نفع و نقصان کے عقیدہ سے ہاتھوں وغیرہ میں دھاگا باندھنا ناجائز ہے اور مشرکانہ عمل ہے ۔
12 – مکانات کی تعمیر یا اس کی خریداری میں واستو کی رعایت کو ضروری تصور کرنا، نیز مکان کے دروازوں اور نئی خریدی گئی گاڑیوں پر لیموں اور مرچ جیسی چیزوں کا لٹکانا مشرکانہ عمل ہے ۔
13 – نیا سال منانا ایک غیر اسلامی عمل ہے۔ اسی طرح بچوں کے یومِ پیدائش اور شادی کی سال گرہ وغیرہ منانا بھی غیر اسلامی طریقہ ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
14 – اپریل فول منانا دھوکہ اور جھوٹ پر مبنی ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہے ۔
15 – مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے ان کے طریقہ پر چھوٹے بال رکھنا خواتین کے لیے درست نہیں ہے ۔
16 – مردوں کے لیے کان اور گلے میں زیور پہننا، ہاتھ میں سونا، چاندی یا لوہے کا کڑا پہننا ناجائز ہے۔
17 – عورتیں جس طرح کے شوخ رنگ اور چھینٹ کے رنگ کے کپڑے پہنتی ہیں مشابہت کی وجہ سے مردوں کو اس طرح کے کپڑے پہننا مناسب نہیں ہے ۔
18 – زیب و زینت میں مبالغہ مردوں کے لیے زیب نہیں ہے، اس لیے مروّجہ راجستھانی شیروانی اور ایسے کپڑے جن میں تزئین کاری میں مبالغہ اختیار کیا جائے، نامناسب ہے۔
19 – زیب و زینت کے لیے مردوں کو ہاتھ پاؤں میں مہندی وغیرہ لگانا جائز نہیں ۔
سرمایہ کاری سے متعلق بعض نئے طریقے
مال انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور بعض عبادتیں بھی اس سے متعلق ہیں، اس لیے کسبِ معاش اسلام کی نظر میں ایک بہتر امر اور بعض حالات میں ضروری ہے لیکن شریعت نے اس کے لیے حلال و حرام کی حدود مقرر کی ہیں، جن کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا کوئی عمل اس کے خالق کی رضا کے خلاف نہ ہو اور اس سے دوسرے انسانوں کو ضرر نہ پہنچے۔ مگر افسوس کہ اس وقت دنیا میں جو معاشی نظام قائم ہے اس میں ایسی ممنوع باتیں بھی شامل ہیں جن کو شریعت میں بہ تاکید منع کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس میں انسانی سماج کا نقصان اور استحصال بھی ہے۔ اس صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ دور کے فقہاء نے شریعت کے دائرہ میں سرمایہ کاری کی شکلیں پیش کی ہیں۔ اکیڈمی کے اس سمینار نے ان شکلوں پر غور کیا اور درج ذیل تجاویز منظور کیں :
1 – مضاربتِ استمراری یعنی عقدِ مضاربت میں سرمایہ کاری کی مدت کا متعین نہ ہونا اور درمیان سال میں نئے نئے اربابِ اموال کا داخل ہونا اور سرمایہ لگانے والوں کا حسبِ موقع اپنے سرمایہ اور اس کے نفع کو لے کر علیحدہ ہوجانا اصولِ شریعت کے مطابق ہے اور مضاربت کی معروف شکل کی طرح یہ بھی جائز ہے ۔
2 – کمپنی کے نقد اثاثے اور ٹھوس اثاثوں کی قیمت کا اندازہ لگاکر نفع و نقصان متعین کرنے کو ‘تنضیضِ تقدیری’ کہتے ہیں، جو آج کل غیر سودی مالیاتی اداروں میں مروّج ہے اور یہ جائز ہے ۔
3 – شخصِ قانونی کا تصور اصولِ شریعت کے خلاف نہیں، اس لیے کمپنی کو شخصِ قانونی کا درجہ دیا جانا درست ہے اور اس کا مُضارِب یا رَبُّ المال کی حیثیت سے معاملہ کرنا بھی درست ہے۔
4 – مالیاتی ادارہ یا فرد کے ساتھ مل کر کسی چیز کو خریدنے اور اس کے بعد شریک کے حصہ کو کرایہ پر لینے اور ساتھ میں مزید رقم ادا کر کے رفتہ رفتہ اس کے حصہ کا مالک بن جانے اور ملکیت کے تناسب سے کرایہ کے کم ہوتے رہنے کا معاہدہ کرکے اس کے مطابق معاملہ کرنا، جس کو موجودہ غیر سودی مالیاتی اداروں کی اصطلاح میں ‘شرکتِ متناقصہ’ کہتے ہیں، جائز ہے ۔
5 – غیر سودی مالیاتی اداروں میں مرابحہ کی رائج یہ شکل جس میں ادارہ مطلوبہ سامان کی خریداری کے خواہش مند کو ہی اپنی طرف سے کسی متعینہ جگہ سے خریدنے کا وکیل بنا دیتا ہے اور خواہش مند ادارہ کی رہ نمائی کے مطابق خرید کر رسید اپنے نام سے بنوالیتا ہے اور اس کے بعد ادارہ کو اطلاع دے کر اس سے اپنے لیے ادھار خریدنے کا معاملہ کر لیتا ہے تو یہ طریقہ اختیار کرنا جائز ہے ۔
6 – جن کمپنیوں کا اصل کاروبار حلال ہو لیکن کمپنی جزوی طور پر حرام کاروبار میں بھی ملوّث ہو اور حرام کاروبار میں لگنے والا سرمایہ کمپنی کے کل سرمایہ کے ایک تہائی سے کم ہو تو ایسی کمپنیوں کے شیئر خریدنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ کمپنی کی حرام سرمایہ کاری کے خلاف بقدر استطاعت اپنا اختلاف درج کرادے اور اس حرام سرمایہ کاری سے حاصل شدہ نفع کو صدقہ کر دے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023