اسلامی تہذیب و ثقافت کی تشکیل میں مساجد اور مدارس کا کردار

معاشرے میں مساجد کی حیثیت دھڑکتے دل کی ہونی چاہیے۔مسجد کو علم و ہمہ جہتی تعمیری سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی ضرورت

ڈاکٹر افتخار عالم
(مرکزی تعلیمی بورڈ گجرات)

اسلامی تاریخ میں مساجد صرف ادائیگی نماز کے لیے استعمال نہیں کی گئیں بلکہ اللہ کی عبادت کی ایک دوسری شکل یعنی انسانوں کی خدمت اور ان کے حقوق کی حفاظت کا بھی مرکز رہی ہیں۔ مساجد ہمیشہ وعظ و نصیحت کے ذریعہ عام لوگوں کوعلم و عرفان کا درس دیتی رہی ہیں جن کی بدولت عوام کے ذہن ایک ایسے مخصوص مزاج اور سانچے میں ڈھل گئے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کی شکل میں اسلام کا بہترین نمونہ ظاہر ہوا۔
معاشرے میں بسنے والوں افراد کے درمیان معاملات میں انسانیت، انصاف، محبت، تعاون و اشتراک کے جذبے کے ساتھ بقائے باہمی کا وہ عملی ڈھانچہ جسے ہم زندہ اور چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں اسے تہذیب و تمدن سے تعبیر کرتے ہیں۔ نیکی اور بھلائی کی مندرجہ بالا اقدار کی بنیاد اگر مسلّم ہوں تو ان اقدار پر مبنی تہذیب و تمدن ہمہ گیر، آفاقی اور دائمی بن جاتی ہے۔ اگر اس میں حسن کا عرق شامل کر دیا جائے تو یہ اس قدر دلچسپ، دلکش اور پرکشش بن جاتی ہے کہ اس کی جانب ہر انسان دوڑنے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے۔ اسلام نے توحید کی بنیاد پر ان تمام اقدار کا ایک نمونہ اور مثالی ڈھانچہ نبی (ﷺ) رحمت کی شاندار قیادت میں قائم کیا اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے اسلامی تہذیب و تمدن کا تھرما میٹر بھی عطا فرمایا۔ اللہ کے رسول نے اللہ کی ذات کو مرکز میں رکھ کر قرآن میں دیے گئے اصولوں کی بنیاد پر بنجر صحرا میں جس تہذیب و تمدن کی تعمیر کی وہ اس قدر خوبصورت، شاندار، دلفریب اور حسین تھی کہ روم، ایران، ہندوستان اور چین جیسے نام نہاد عظیم متمدن معاشرے کے افراد اپنا سب کچھ بالائے طاق رکھ کر اس کے جانب سرپٹ دوڑنے لگے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پھر یہی تہذیب و تمدن ہر جانب اسلام کے عالمی سفر کا ذریعہ بنی اور دیکھتے ہی دیکھتے دو تہائی دنیا اسلام کی آغوش میں پناہ پاکر امن و خوشحالی کے ثمرات سے لطف اندوز ہونے لگی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جن باتوں پر زور دے کر متمدن معاشرے کی تعمیر کا جو نقشہ پیش کیا ہے اگر ان پر تھوڑا سا گہرا مطالعہ کریں تو جو چیزیں سمجھ میں آتی ہیں ان میں دو باتیں اہم ہیں۔ پہلی انسان کی عزت۔ انسان خواہ وہ ماں، باپ، بیوی، بچہ، اہل خاندان کی شکل میں ہو یا پڑوسی، یتیم، غریب، بیوہ، مسکین، مسافر، متعارف یا غیر متعارف کسی بھی شکل میں اس کی عزت و آبرو اور وقارپر آنچ آئے یہ اللہ کو بالکل گوارا نہیں۔ دوسری چیز جو بالکل ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ علم و معرفت کے حصول کی تاکید اور احکام اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ سینکڑوں زندگیاں بھی نچھاور کی جائیں تب بھی حصول علم سے متعلق اللہ کے ان احکامات پر پورا عمل ہوگا کہ نہیں یہ ایک معمہ بن کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ آگے چل کر جو اسلامی تہذیب و تمدن قائم ہوا اس میں شہر و دیہات، محلے و محلات، مکانات و مساجد، بازار و اجتماعات، مسافری کے لیے سڑکیں وغیرہ جو بھی نئی تعمیرات و اختراعی تحقیقات وجود میں آئیں ان میں ہر صورت تکریم انسانیت اور علم و عرفان کے ہر شعبے میں موثر نظام اور اصول مقرر کیے گئے۔ اگر تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو آپ کو اسلامی تہذیب و تمدن کے ہر مرکز میں دو اہم چیزیں نظر آئیں گی جو انسان اور علم کی خدمت کا محور رہی ہیں۔ ان میں پہلی مساجد اور دوسری علم کے مختلف مراکز اور ان کے کارکن علمائے کرام اور طلبہ۔
اسلامی تاریخ میں مساجد صرف ادائیگی نماز کے لیے استعمال نہیں کی گئیں بلکہ اللہ کی عبادت کی ایک دوسری شکل یعنی انسانوں کی خدمت اور ان کے حقوق کی حفاظت کا بھی مرکز رہی ہیں۔ مساجد ہمیشہ وعظ و نصیحت کے ذریعہ عام لوگوں کو علم و عرفان کا درس دیتی رہی ہیں جن کی بدولت عوام کے ذہن ایک ایسے مخصوص مزاج اور سانچے میں ڈھل گئے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کی شکل میں اسلام کا بہترین نمونہ ظاہر ہوا۔
مساجد کے ساتھ مسافر خانے ہمیشہ منسلک رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح قرآن مجید میں یتیموں، مسکینوں اور بے سہارا لوگوں کے حق سے متعلق احکامات دیے ہیں اسی طرح مسافروں سے متعلق بھی ہدایت دی ہیں یہاں تک کہ انہیں زکوٰۃ کا مستحق بھی قرار دیا ہے۔ تاریخی طور پر اسلامی تمدن کے ان مراکز میں مسافروں کو ہر قسم کی سہولتیں اتنی خوبصورتی کے ساتھ دستیاب ہوتی کہ بلا لحاظ مذہب و ملت تمام افراد ان سے فائدہ اٹھاتے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے لازوال نقوش ساتھ لے کر جاتے تھے۔
مساجد یتیموں اور غریبوں کی پناہ گاہیں تھیں جہاں ان کا اللہ کے خاص بندوں کی طرح خیال رکھا جاتا تھا۔ بھوکوں کو کھانا کھلانے کے لیے لنگر بھی مساجد سے وابستہ تھے جن میں بلا تفریق لوگوں کو کھانا کھلانے کا انتظام کیا جاتا تھا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دوسرے معاشرے کے لوگ اسلامی تہذیب کی ان اقدار پر اپنے طریقےسے عمل پیرا ہیں اور بڑے بڑے مسافر خانے، یتیم خانے اور لنگر وغیرہ اس طرح چلا رہے ہیں کہ وہی ان کی پہچان بن گئی ہے۔
مسلمانوں کے ذہنوں سے یہ باتیں محو ہو جانے کی وجہ سے مساجد صرف پانچ دس منٹ کے لیے عبادت کرنے کا مقام بن کر رہ گئیں، اب تو المیہ یہ ہے کوئی دوسری افادہ عام کی بات کرنے تک کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ مساجد کبھی بھی لوگوں کی صرف روحانی ضروریات پورا کرنے کی جگہ نہیں رہی بلکہ ہمیشہ لوگوں کی مادی، معاشی، سماجی، نفسیاتی، تعلیمی، سیاسی وغیرہ ہر قسم کی ضروریات کی تکمیل کا مقام رہی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جو لوگ صرف روحانی ترقی پر مرکوز رہنا چاہتے تھے ان کے لیے الگ سے خانقاہیں تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ یہ حقیقت بھی بالکل عیاں ہے کہ مساجد صرف مردوں کے لیے مختص نہیں رہیں بلکہ اسلامی تمدن میں ہمیشہ اس کا اہتمام کیا گیا کہ خواتین کو بھی مساجد سے مردوں کے مساوی استفادہ کرنے کا موقع ملتا رہے۔ کیونکہ کسی بھی تہذیب و تمدن کا گہوارہ عورت ہی ہوتی ہے، اس کے بغیر تہذیب و تمدن کا کوئی مرکز باقی نہیں رہ سکتا۔ آج آپ خواتین کو مسجد میں داخل ہونے اور انہیں شرعی دائرے میں کام کرنے کا مواقع فراہم کیجیے آپ خود دیکھیں گے کہ وہ اللہ کے اس گھر کو انسانیت کے لیے راحت و سکون کا مرکز بنانے میں مردوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ کوشش کریں گی۔ جو عورت اپنی حق تلفی کے باوجود تاحیات اپنے مرد کے گھر کی حفاظت کرتی ہو اگر اسے اللہ کے گھر کو سنبھالنے اور استعمال کرنے کا موقع دیا جائے تو کیا وہ نہیں کرسکتی!!!
اسلامی تہذیب میں مساجد ہمیشہ معاشرے کا ایسا دھڑکتا ہوا دل رہی ہیں جہاں معمولی سے معمولی انسان کا درد بھی پکار اٹھتا ہے۔ آج ہم نے ہزاروں کی تعداد میں حاضری دے کر بھی اسے ویران اور بے جان بنا رکھا ہے۔ پورا معاشرہ اپنے ہی کرتوتوں کے وبال کی آگ میں جھلس رہا ہے لیکن دل سے ایک آہ بھی نہیں نکلتی۔ ہمیں اسلامی تہذیب کے احیاء کی خاطر اپنے اس دل کو حیات بخشنے کے لیے جلد ہی کمربستہ ہونا پڑے گا۔ فی الحال ہم سب مل کر اس کے لیے سی پی آر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اسے واقعی زندہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسے اس کی اصلی شکل میں واپس لانا ہو گا۔ وہ نماز گاہ بھی ہو اور معاشرے کا مرکز بھی، ان میں یتیموں کا انتظام ہو، مساکین کے لیے رحمت و شفقت کا سامان بھی ہو، مسافر خانے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کا نظم بھی ہو، خواتین کے لیے معاشرے کی ترقی کے پیش نظر کام کرنے کا مناسب نظم اور بچوں کو ان کے مزاج کے مطابق اسلامی تہذیب وتمدن سکھانے کی منصوبہ بندی ہو۔ اس میں معاشرے کے لوگوں کے لیے جدید زمانے کی ضرورت کے مطابق رجسٹریشن آفس بھی ہونا چاہیے جس میں ہر فرد کی مکمل تفصیلات اتنی باریکی کے ساتھ درج کی گئی ہوں کہ کسی کو بھی اس کی ضرورت کے مطابق رہنمائی اور مدد فراہم کرنا آسان ہو جائے۔ 
مساجد ایک دس منٹ کے لیے نکاح پڑھانے کا مقام بن کر نہ رہ جائیں جہاں صرف نکاح نامہ محفوظ رکھنے کے لیے تجوری اور دس افراد کی ٹیم کام میں لگی رہے بلکہ ان کی حیثیت اسلامی تہذیب کے عائلی اور معاشرتی طور طریقوں کو شرعی حدود میں محصور رکھنے کے لیے ایک مضبوط و مربوط نظام چلانے والے مراکز کی ہونی چاہیے۔ ان میں تنازعات کے حل کا سنٹر ہونا چاہیے جہاں معاشرے کے سب سے زیادہ نیک، متقی اور با اعتماد لوگ روزانہ ملیں جو نہایت باریکی اور نزاکت سے عدل و انصاف کے نفاذ کے لیے کام کریں۔
  پھر معاشرے کا یہ مرکز بہت خوبصورت، عظیم الشان، جدید سہولیات سے لیس، حسین اور پرکشش تعمیرات کا نمونہ بھی ہونا چاہیے جس کے ماحول میں ایسا سرور ہو کہ آدمی خواہ کیسی بھی تکلیف و پریشانی لے کر آئے اس میں داخل ہوتے ہی اللہ کے رحم و کرم کی ٹھنڈک اس کے ایک ایک رویں میں شامل ہو جائے۔ دوسری جو چیز اسلامی تہذیب و تمدن میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی وہ علم و معرفت کے ادارے تھے۔ اسلامی تمدن کے علمی مراکز پوری دنیا کی مختلف زبانوں اور فلسفوں کا سنگم تھے جہاں لوگوں کو مختلف علوم سیکھنے اور سکھانے کا انتظام تھا۔ اسلامی تہذیب و تمدن اپنے اصولوں پر اس قدر مضبوطی سے قائم تھا کہ کسی دوسری تہذیب و تمدن کی کمزور اقدار اس میں کوئی سیندھ لگا سکیں گی یہ تصور بھی محال تھا۔ ان مراکز کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ ان میں خدمات انجام دینے والے علماء اور طلبہ کریئر بنانے یا تنخواہ حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ اہل دنیا کے معلم اور مربی بننے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر چکے تھے۔ علم کے یہ مراکز مختلف زبانوں کا جنکشن تھے۔ فن و ادب سے مالامال دنیا کے بہترین فنکاروں اور ادیبوں کے لیے عمدہ کہانیاں، خوبصورت نظمیں، اختراعی نظریات اور فنون پیش کرنے کا ایک خوبصورت پلیٹ فارم تھے۔
علم کے ان مراکز کی شروعات کرنے والے صرف عربی زبان کے ماہر تھے لیکن انہوں نے  ان مراکز کے ذریعہ دنیا کی بہت سی زبانوں، لباس، خوراک، مزاج، فن و ادب کو اپنی تہذیب و تمدن میں اس طرح شامل کر لیا کہ شرک کا نام و نشان مٹ گیا اور توحید کا جوہر ان میں اس طرح پیوست ہو گیا کہ وہ سب اسلامی ہو گئے۔
اسلامی تہذیب و ثقافت کے یہ مراکز صرف روایتی پڑھنے پڑھانے کے مقام کے بجائے سیکھنے سکھانے کے سنٹرس بھی تھے۔ اس لیے ان میں لائبریری کو ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی جو دنیا بھر کے لوگوں کے کارناموں اور تحریروں کا خزانہ ہوتی تھیں جن سے استفادہ کرنے کے لیے دور دراز سے مختلف اقسام و مقام کے لوگ آتے تھے۔ اسلامی تہذیب کو ابھی بمشکل ڈیڑھ سو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ "بیت الحکمہ” کے نام سے بغداد میں علم کا ایسا شاندار مرکز قائم ہوا جس میں مسلم علماء کی تحقیقات کا تو شمار کرنا ہی مشکل ہے۔ اس کا اندازہ صرف اس بات سے کر لیجیے کہ دوسرے لوگوں کے کاموں اور تحقیقات کا دیگر زبانوں سے عربی زبان میں ترجمہ کرنے کا کام ہی دو سو سال تک جاری رہا۔ اور پھر اس کی بنیاد پر علم کی جو روشنی پوری دنیا میں پھیلی ہے تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ اس طرح کے کئی مراکز بعد کے ادوار میں عالم اسلام کے مختلف شہروں میں قائم کیے گئے جن میں سے متعدد آج بھی اسی شان و شوکت کے ساتھ موجود ہیں۔
لیکن آج ہم نے اپنے ان تعلیمی مراکز کو محدود، تنگ اور پانچ سو سال پرانی روایات کو محفوظ رکھنے کی پناہ گاہ بنا رکھا ہے۔  یورپ کی 300 سالہ غلامی کا خوف ہمارے دلوں پر اس قدر چھا گیا ہے کہ ہم اپنے سروں کو روایتوں کی چادر سے ڈھانکے ہوئے بیرونی دنیا سے لا تعلق ہوکر گویا محفوظ ہوجانے کے گمان میں طویل عرصے سے جی رہے ہیں۔ اسلام کے احیاء کے لیے ہمیں علم کے ان مراکز کی از سر نو اسی طرح تعمیر کرنا ہوگا جیسا کہ وہ ہمارے سنہری دور میں تھے یعنی پوری دنیا کے علم کو اسلام کے رنگ میں رنگ کر پوری انسانیت کے لیے مفید بنانے کے مراکز بنانا ہو گا۔ صرف عمارتوں کے ظاہری رنگ و روغن، شکل و نقاشی کی نقل سنہری دور جیسی کرنے سے وقت اور حالات نہیں بدلیں گے لیکن اس وقت کے مراکز کی طرح آج کے مدارس اور اسکولوں کو ایک دھڑکتا ہوا دل بنانا ہوگا جن کا کام علم کو معاشرے کی رگوں میں اس طرح گردش دینا ہو کہ انسانیت سیراب ہو جائے۔ مختلف زبانوں، ٹیکنالوجیز، نظریات، فلسفوں اور سائنس کی شاخوں کا مطالعہ کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے اصولوں پر ایسا نظام مرتب ہو کہ جس سے جدید زمانے کی قیادت کرنے والی پوری فوج تیار ہو۔ ہمارے علم کے مراکز پولٹری فارموں کی طرح نہ ہوں بلکہ خوبصورت باغات کی مانند ہونے چاہئیں جن کے باغبان مختلف نوع کے خوبصورت درخت، نباتات اور پودوں اگا کر ایسے دل کش پھولوں اور لذیذ پھلوں کی فصل تیار کرتے رہیں جو پوری دنیا کو حسین اور خوشحال بنا دیں۔ اسلامی تہذیب و تمدن اپنے دھڑکتے ان دو اہم مراکز کی نسبت سے کبھی ایک زندہ حقیقت تھی لیکن آج سب کو ایک خیالی تصور جیسا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ پوری قوت کے ساتھ سخت جدوجہد کرنے والوں نے ہمیشہ خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کیا ہے۔ تبدیلی کا پہیہ مستقل گھومتا رہتا ہے اور ہر ایک کو موقع فراہم کرتا ہے۔ آج ہمیں یہ موقع حاصل ہے۔ اس وقت کو غنیمت جاننا چاہیے۔
***

 

***

 سلامی تمدن کے علمی مراکز پوری دنیا کی مختلف زبانوں اور فلسفوں کا سنگم تھے جہاں لوگوں کو مختلف علوم سیکھنے اور سکھانے کا انتظام تھا۔ اسلامی تہذیب و تمدن اپنے اصولوں پر اس قدر مضبوطی سے قائم تھا کہ کسی دوسری تہذیب و تمدن کی کمزور اقدار اس میں کوئی سیندھ لگا سکیں گی یہ تصور بھی محال تھا۔ ان مراکز کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ ان میں خدمات انجام دینے والے علماء اور طلبہ کریئر بنانے یا تنخواہ حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ اہل دنیا کے معلم اور مربی بننے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر چکے تھے۔ علم کے یہ مراکز مختلف زبانوں کا جنکشن تھے۔ فن و ادب سے مالامال دنیا کے بہترین فنکاروں اور ادیبوں کے لیے عمدہ کہانیاں، خوبصورت نظمیں، اختراعی نظریات اور فنون پیش کرنے کا ایک خوبصورت پلیٹ فارم تھے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023