اسلامی تحریک کا فکری سفرنامہ

اسلامی تحریکات اور اکیسویں صدی کے چیلنج کو سمجھنے میں معاون کتاب

نام کتاب :اسلامی تحریک کا فکری سفرنامہ
مصنف :پروفیسر خورشید احمد
مرتب :ابوالاعلٰی سید سبحانی
صفحات 384:
قیمت 400 : روپے
ناشر :ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس نئی دہلی
مبصر: سہیل بشیر کار، بارہمولہ

زیر تبصرہ کتاب تحریک اسلامی کے فکری رہنما پروفیسر خورشید احمد کے مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے؛ جسے ابوالاعلٰی سید سبحانی نے ترتیب دیا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے اسلام ، تعلیم، عالمی اقتصادیات اور اجتماعی اسلامی معاشرے کے حوالے سے بہت سارا کام کیا ہے اور اسی وجہ سے انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔پروفیسر صاحب متعدد نظریاتی موضوعات پر مبنی رسائل وجرائد کی ادارت کرچکے ہیں۔ انہوں نے اردو اور انگریزی میں ستر کتابیں تصنیف کی ہیں۔ کئی رسائل میں اپنی نگارشات شائع کراچکے ہیں اور سو سے زائد بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں ذاتی حیثیت میں یا نمائندہ کی حیثیت سے شریک ہو چکے ہیں۔ پہلی مرتبہ اسلامی معاشیات کو بطور علمی شعبہ کے ترقی دی۔ اس کارنامے کے پیش نظر انہیں 1988ء میں پہلا اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ عطا کیا گیا۔ ان کے کارناموں کے اعتراف میں 1990ء میں انہیں کو ’شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ‘ سے بھی نوازا گیا۔ اسلامی اقتصادیات ومالیات کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں انہیں جولائی 1998ء میں پانچواں سالانہ’ امریکن فینانس ہاؤس لاربا پرائز ‘دیا گیا۔ پروفیسر صاحب اپنی دوسری بہت سی مصروفیات کے علاوہ جماعت اسلامی پاکستان کے ترجمان ’ماہنامہ ترجمان القرآن‘ کے مدیر بھی ہیں۔
مذکورہ کتاب کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں فکر اور تحریک اور ان کے متعلق موضوعات ہیں جبکہ دوسرے حصے میں چند اہم فکری اور تحریکی شخصیات اور ان کے افکار کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔حصہ اول کے پہلے باب ’’تحریک اسلامی کیا ہے؟‘‘ میں مصنف نے سب سے پہلے تحریکی اسلامی کی اہمیت بیان کی ہے اس کے بعد تحریک اسلامی کے ان پانچ پہلوؤں کو بیان کیا ہے جو تحریک اسلامی اسلام کے ویژن کے بارے میں رکھتی ہے۔ ہر پہلو کی نشان دہی وہ قرآن و سنت سے کرتے ہیں۔ مضمون کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں ’’کئی صدیوں کے سامراجی دور، مغربی تہذیب کے غلبے اور خود مسلمانوں کے ذہنی جمود کے نتیجے میں دین کے قرآنی تصور اور منہج نبوی پر جو پردے پڑگئے تھے یا تجدد، اصلاح اور جدیدیت (modernity) کے نام پر جس قطع و برید کا ان کو نشانہ بنایا گیا تھا، الحمدللہ تحریک اسلامی نے اس فکری انتشار اور خلفشار کا بھر پور مقابلہ کیا اور اسلام کی روشن شاہراہ کو ہر گردو غبار سے پاک کر کے اس کی اصل شکل میں قرآن وسنت کے محکم دلائل کے ساتھ پیش کیا اور پھر اس فکر کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی تبدیلی کی جدو جہد کو عملی طور پر برپا کیا جو آج پوری دنیا میں حق و باطل کی کش مکش کی بنیاد ہے۔‘‘(صفحہ 34) اس سے مختصر اور جامع تبصرہ تحریک اسلامی کا دینا مشکل ہے۔دوسرے باب ’’برصغیر پاک و ہند میں تحریک اسلامی کا ارتقاء‘‘ میں پہلے مصنف نے برصغیر میں اسلام کی ابتداء پر مختصر روشنی ڈالی ہے اس کے بعد صوفیاء کرام کی خدمات کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے اور اس کے بعد مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے تجدیدی کارنامہ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس باب میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تجدیدی کارنامے بھی بیان کیے گئے ہیں۔ برصغیر کی اہم تحریک جو کہ سید احمد شہید نے برپا کی تھی، اس کا بھی بہت ہی خوبصورتی سے جائزہ لیا ہے۔ اس باب میں سرسید احمد خان پر معتدل بحث بھی کی گئی ہے، ساتھ ہی علماء کرام کے کارناموں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ چونکہ پروفیسر خورشید احمد صاحب اقبالیات کے ماہر ہیں لہذا علامہ اقبال کے کارناموں کا بہترین تجزیہ کیا ہے۔ اس باب کے آخر میں انہوں نے مولانا سید ابوالاعلٰی مودودیؒ اور ان کے تجدیدی کام کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے ان کے تجدیدی کارناموں کو اجاگر کیا ہے۔پہلے حصہ کے دوسرے باب ’’دعوت، تربیت اور اقامت دین‘‘ میں مصنف نے سورہ الرعد کی آیت نمبر 11 (اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت نہ بدلے) کی روشنی میں اصلاح نفس اور تربیت کی اہمیت بیان کی ہے۔اپنے اس مضمون میں وہ قاری کو بتاتے ہیں کہ کسی بھی دعوت کے لیے مضبوط کردار کی کس قدر اہمیت ہے۔
ایک جگہ لکھتے ہیں :’’اجتماعی بگاڑ کی اصلاح کا راستہ بھی نفس کی اصلاح ہی کی وادی سے گزرتا ہے۔‘‘ (صفحہ 119) پر مزید لکھتے ہیں:’’اجتماعی زندگی کی اصلاح اور اسلامی حکومت کے قیام پر زور دینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو سو سالہ اسلامی تاریخ کا وہ منفرد دور ہے جب اسلام اور ملت اسلامیہ قوت و اقتدار سے محروم ہوگئی اور اس کی گرفت رفتار زمانہ پر ڈھیلی پڑ گئی۔ جو امت گیارہ بارہ سو سال تک ایک عالمی طاقت رہی وہ عملاً مغلوب اور محکوم ہوگئی ۔ بالآخر 1924ء میں خلافت
عثمانیہ کی تحلیل سے وہ عالمی سیاسی افق پر سے معدوم کر دی گئی۔ فطری طور پر جو چیز چھین لی گئی ہو اس کو بازیافت کی جدوجہد میں ایک مرکزی اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی اور ملی زندگی میں جہاں خلا واقع ہو گیا تھا اسے بھرنے کی ضرورت کو نمایاں کرنا اور ابھارنا وقت کی ضرورت تھی۔ ‘‘(صفحہ 121) اس وضاحت کے بعد وہ جماعت اسلامی کی دعوت کا بہترین تعارف کراتے ہیں اور قاری کے ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ اس دعوت کا ہدف اگرچہ فرد ہے لیکن اس کا نتیجہ معاشرہ کی تشکیل ہے۔
اس باب کے تیسرے مضمون ’’تحریک اسلامی :ترجیحات اور تقاضے‘‘ میں مصنف پہلے تحریک اسلامی کی امتیازی خصوصیات بتلاتے ہیں۔اس کے بعد تحریک اسلامی کے تین دائروں کی وضاحت کرتے ہیں اور آخر میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ منصوبہ بندی پر زور دیتے ہیں۔ مصنف قاری کو سمجھاتے ہیں کہ یہ منصوبہ بندی انبیاء کا طریقہ ہے اور ہمیں اس معاملے میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ چوتھے باب میں مصنف نے فکر مودودی کی روشنی میں ’’اسلامی تحریکات اور اکیسویں صدی کے چیلنج‘‘ پر روشنی ڈالی ہے، لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی نے جو خدمت بیسویں صدی میں انجام دی اس کی عظمت اپنی جگہ ہے لیکن ان کے فکر اور تجربے سے بھرپور رہنمائی لیتے ہوئے ہمیں اکیسویں صدی میں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؛ یہاں مصنف مولانا مودودی کے علمی اور فکری خدمات کے چار پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں: ’’پہلا دین کا وہ تصور جسے انہوں نے اجاگر کیا۔ دوسرا وه طرز فکر جس کے ذریعے اس کام کو انجام دیا گیا۔ تیسرا تبدیلی احوال اور احیائے دین کے لیے وہ حکمت عملی جو اپنے زمانے کے حالات کی روشنی میں انہوں نے مرتب کی۔ چوتھی وہ عملی جدوجہد، اس کے اصول وضوابط اور تنظیمی ڈھانچے اور راستے جن پر عملاً انہوں نے اپنی جدو جہد کو مرکوز کیا۔‘‘ (صفحہ 153) پروفیسر صاحب کا ماننا ہے کہ مولانا مودودی کا اکیسویں صدی کے لیے پیغام یہ ہے کہ وژن؛ مقصد اور اصول پر یکسوئی کے ساتھ قائم رہا جائے۔ اپنے پیش رووں کی فکر اور خدمات سے احترام اور وفاداری کے ساتھ استفادہ کرتے ہوئے جدید نئے مسائل اور معاملات سے صرفِ نظر نہ کیا جائے بلکہ پوری قوت سے ان سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی جائے، اسلام کو زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر دین کی کتربیونت کی جاتی ہے۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں تجدد کے بجائے تجدید کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، دین اسلام میں بنیادوں میں کبھی تبدیلی نہیں ہوگی البتہ جزئیات میں اجتہاد کے ذریعہ تبدیلی ہوتی رہے گی۔ اس سلسلے میں اعتدال کی روش کیا ہے پر پروفیسر صاحب نے کتاب کے پہلے حصے کے پانچویں باب میں روشنی ڈالی ہے؛ لکھتے ہیں: "یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کا دین ثابت و محکم ہے اور محض زمانے کے انداز دیکھ کر اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی لیکن یہ خیال کرنا بھی غلط ہوگا کہ زمانے کے تغیرات کو دین اسلام کلی طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ اسلام کا طریق کار یہ ہے کہ وہ ہدایت و ضلالت کے بنیادی اصول بتا دیتا ہے۔ انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے وہ حدود واضح کر دیتا ہے جو انسان کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ رہے جزوی اور وقتی امور، تو ان کو شریعت کے دیے ہوئے بنیادی اصولوں کی روشنی میں اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر ہر وقت اور ہر زمانے میں طے کرنے کی اجازت ہے۔ یہ کام اجتہاد کے ذریعے انجام پاتا ہے اور اس کے ذریعے نظام دین میں حرکت وارتقاء کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔‘‘ (صفحہ 192) چھٹے باب میں مصنف نے بظاہر چکا چوند نظر آنے والی تہذیب پر تنقید کی ہے اور دکھایا ہے کہ صرف اسلام ہی ہے جو بنی آدم کے مسائل کا حل ہے، انہوں نے بتایا ہے کہ مغربی تہذیب جو کہ مادیت پر قائم ہے کے برعکس اسلامی تہذیب جو کہ اقدار پر قائم ہے کس طرح دنیا انسانیت کو بہترین زندگی فراہم کر سکتی ہے۔ساتویں باب میں "عرب دنیا میں اسلامی تحریکات؛ آزمائش کا نیا دور” پر گفتگو کی ہے۔ 2014ء میں جب عرب حکم رانوں نے اسلامی تحریکات پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا؛ اس کے مضمرات پر پروفیسر صاحب نے روشنی ڈالی ہے۔ پہلے باب کے آخری مضمون ’’ہم اپنا جائزہ لیں‘‘ میں مصنف نے خود احتسابی پر زور دیا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں چند اہم فکری اور تحریکی شخصیات اور ان کے افکار کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس حصہ میں پروفیسر خورشید احمد کے علامہ اقبال، حسن البنا، مولانا مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، اسماعیل راجی الفاروقی اور پروفیسر نجم الدین اربکان پر مضامین شامل ہیں۔ پروفیسر صاحب تحریک اسلامی کے مزاج شناس ہیں لہذا ان مضامین کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ دوسرے حصہ کے پہلے باب میں پروفیسر صاحب نے علامہ اقبال کے مشہور نظموں اور نثر کا مختصر مگر جامع تعارف کروایا ہے۔اس کے بعد ان کے اہم کارنامے سے قارئین کو آگاہ کیا ہے مثلاً علامہ اقبال تقلیدی نہیں تخلیقی اجتہاد چاہتے تھے۔اسی طرح وہ تصوف کے برعکس حرکت و عمل چاہتے تھے۔ یہاں عنوان درج کیے جاتے ہیں جن پر مصنف نے روشنی ڈالی ہے۔ان عنوانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ کی فکر کس قدر پختہ تھی ’’مرد مومن کے لیے لائحہ عمل‘‘، عقل اور وجدان کا تعلق، ’حرکی تصور میں خودی کا مقام، اسلامی ریاست، بنیادی تقاضا، تہذیبی غلامی؛ ایک زہر قاتل۔
کتاب کے دوسرے باب ’’حسن البنا اور احیاء اسلام ‘‘سے قاری کو اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر صاحب کو شہید حسن البنا سے کس طرح کی دلی عقیدت ہے۔ اگرچہ مضمون میں مصنف نے حسن البنا شہید کی دعوت کا تعارف کرایا ہے لیکن بنیادی طور پر یہ تحریر شہید کے تئیں خراج عقیدت ہے۔مولانا مودودیؒ کی برپا کی ہوئی تحریک اور حسن البنا شہید کی برپا کی گئی تحریک میں کیا کیا فرق اور مماثلتیں ہیں، اس کو واضح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ دونوں رہنما کسی بھی خفیہ تحریک کی مخالفت کرتے ہیں، دونوں نے اپنے پیروکاروں کو پرامن جدوجہد کی تلقین کی ہے۔
دوسرا مضمون مفکر اسلام مولانا مودودیؒ اور ان کے کارناموں پر ہے جنہوں نے امت مسلمہ کو سربلندی کا راستہ دکھایا۔ پروفیسر صاحب مولانا مودودی کے ساتھ رہے تھے اور اسی لیے انہیں سیدی کی فکر سے جانا جاتا ہے، لہذا اس باب کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔اس باب میں مصنف نے مولانا مودودی کی زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔پروفیسر صاحب کا ماننا ہے کہ مولانا مودودی کے طرز نگارش کا اگر کسی دوسرے صاحب اسلوب فرد کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے تو وہ برٹرینڈ رسل ہے۔اس کے ہاں بھی الٰہیاتی، سائنسی اور تہذیبی موضوعات پر بحث ملتی ہے جس کو وہ بڑی خوب صورت انگریزی میں پیش کرتا ہے اور صحتِ بیان اور سہل اسلوب کے ساتھ اظہار خیال کرتا ہے۔
فکرِ مودودیؒ کے مختلف گوشوں پر بھی باریک نظر ڈالی گئی ہے۔مصنف نے وہ وجوہات بیان کی ہیں جس کی وجہ سے مولانا مودودی بیسویں صدی کے مفکر، مصلح اور مدبر ہیں۔ پروفیسر صاحب نے مولانا کو نہ صرف پڑھا بلکہ ساتھ مشائیت بھی رہی لہذا اس مضمون میں انہوں نے بہت ہی اہم نکات بیان کیے ہیں۔انہوں نے مولانا کے کاموں کو مختلف ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔راقم کا ماننا ہے کہ مختصر صفحات میں ایسا تعارف پروفیسر صاحب کا ہی خاصہ ہے۔یہاں صرف ایک اقتباس پیش خدمت ہے: "مولانا مودودی اپنے فکری ارتقاء میں دور صحافت سے دور تصنیف کی طرف اور پھر دور اصلاح و جدوجہد کی طرف بڑھے۔ ان میں سے ہر دور کے مسائل اور حالات الگ الگ تھے جن کی مناسبت سے انہوں نے غور و فکر جاری رکھا اور اصل سے رشتے کو مضبوط رکھتے ہوئے قرآن وسنت کے نصوص پر سمجھوتا یا انحراف کیے بغیر مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ ان کی اجتہادی بصیرت، علمی دیانت اور مسائل و معاملات کے صحیح شعور و ادراک کا ثبوت ہے۔ مولانا کے افکار و خدمات اپنی انفرادیت، وسعت اور گہرائی کی بنا پر برسوں نہیں صدیوں تحقیق کے محتاج ہیں اور آنے والی نسلیں اس سے روشنی حاصل کریں گی ۔۔۔!‘‘ (صفحہ 323)
دوسرے حصے کا تیسرا مضمون ترجمان القرآن مولانا امین احسن اصلاحی پر ہے۔پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ تحریک اسلامی میں مولانا مودودیؒ کے بعد جس ہستی نے ان کی فکر و نظر اور سیرت و کردار کی تعمیر میں سب سے موثر رول ادا کیا ہے وہ مولانا امین احسن اصلاحی کی ذات گرامی ہے۔پروفیسر صاحب نے پہلے ان کے حالات زندگی پیش کیے اور دکھایا ہے کہ مولانا کس طرح قرآن کریم میں تدبر و تفکر کرتے تھے۔ساتھ ہی انہوں نے تدبر قرآن کی بنیادی خصوصیات بھی قارئین کو بتلائی ہیں۔پروفیسر خورشید احمد صاحب چونکہ مولانا اصلاحی کے کافی نزدیک رہے ہیں لہذا ان کی زندگی کے بہترین گوشوں کو انہوں نے خوبصورتی سے سمیٹا ہے، یہ مضمون پڑھ کر قاری مولانا اصلاحی کی عظمت کا قائل ہوجاتا ہے۔اسلامی احیا کا معمار اسماعیل راجی الفاروقی پر پروفیسر صاحب نے مختصر مگر جامع مضمون لکھا ہے ۔اس مضمون میں انہوں نے اسماعیل راجی صاحب کے فکری ارتقاء پر گفتگو کی ہے۔ آخری مضمون ترکی کے فکری رہنما اور قائد پروفیسر نجم الدین اربکان پر ہے۔اس مضمون میں مصنف نے پروفیسر نجم الدین اربکان کی ذاتی زندگی کے علاوہ ان کی سیاسی جدوجہد پر روشنی ڈالی ہے۔
ابوالاعلٰی سید سبحانی نے کتاب کی بہترین ایڈیٹنگ کی ہے۔اگرچہ مضامین مختلف اوقات میں لکھے گئے ہیں لیکن کہیں بھی تکرار نہیں ہے۔کتاب ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس نئی دہلی نے عمدہ طباعت سے شائع کیا ہے۔
کتاب حاصل کرنے کے لیے فون نمبر 09891051676 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

 

***

 کتاب کے دوسرے حصے میں چند اہم فکری اور تحریکی شخصیات اور ان کے افکار کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس حصہ میں پروفیسر خورشید احمد کے علامہ اقبال، حسن البنا، مولانا مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، اسماعیل راجی الفاروقی اور پروفیسر نجم الدین اربکان پر مضامین شامل ہیں۔ پروفیسر صاحب تحریک اسلامی کے مزاج شناس ہیں لہذا ان مضامین کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اگست تا 03 ستمبر 2023