محب اللہ قاسمی
اگر ایک مسلمان اپنے اوپر اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو ترجیح دے گا یا کم ازکم اپنی ہی طرح اس کی بھلائی بھی چاہے گا تو اس کے نتیجے میں اس کے اندر کی بہت سی خرابیاں خود بہ خود ختم ہوجائیں گی
ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے اخوت پر مبنی ہوتا ہے اگرچہ یہ رشتہ نسبی نہیں ہوتا اور میراث وغیرہ کی تقسیم کا حکم اس پر نافذ نہیں ہوتا، اس کے باجود ایک مومن کا دوسرے مومن سے رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرے، اس کی جان مال عزت و آبرو کی حفاظت کرے، اس پر ظلم کو اپنے اوپر ظلم تصور کرے۔ یہی ایمان کی کیفیت اور اس کا تقاضا ہے۔
اسلام نے امت مسلمہ کو جسد واحد قرار دیا اور بتایا کہ ایک جسم کے مختلف اعضا کا جس طرح باہمی ربط وتعلق ہوتا ہے کہ اس کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم کراہنے لگتا ہے، ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان خواہ وہ کسی بھی ملک کا ہو اسے ظلم وجبر کا نشانہ بنایا جائے، وہ مظلومیت اور اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو اس کے اس درد کو محسوس کیا جائے اور اس پر ظلم کے خاتمہ کے لیے حتی الامکان کوشش کی جائے۔ مومن کے اس رشتہ کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے: اہل ایمان کی مثال باہمی شفقت و محبت اور الفت وعنایت میں ایک جسم کی مانند ہے کہ جب اس کے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ نے اس حدیث کی اس طرح وضاحت کی ہے :
’’یہی وجہ ہے کہ مومن کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی تکلیف سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ جس کے اندر یہ کیفیت نہ ہو تو وہ مؤمن نہیں ہے۔ ان کا اتحاد اللہ اور رسول پر ایمان اور محبت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔
یہ رشتہ کے کمال ایمان کے لیے ضروری ہے اور اس تعلق میں کوتاہی گویا ایمان میں نقص کی علامت ہے۔ اس کی پاسداری کے لیے ضروری ہے کہ ایک مومن اپنے لیے جس چیز کو پسند کرتاہے وہی وہ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث میں ایک معاشرہ کی صلاح وفلاح کے لیے ایک جامع اصول بتایا گیا ہے وہ یہ کہ ہر شخص کے اندر اپنی بہتری اور بھلائی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی بھلائی اور خیرخواہی کا جذبہ ہونا چاہیے۔ آج مسلمان بھی غیر قوموں کی طرح مفاد پرست اور خود غرض ہوگئے ہیں۔ انہیں دوسروں کا کوئی خیال نہیں رہتا حتی کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے حقوق سے بھی نا آشنا ہوکر بے حسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ اسلام اس حرکت کو برا ہی تصور نہیں کرتا بلکہ اسے ایمان میں نقص کی علامت بتاتا اور کمال ایمان کے منافی قرار دیتا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان ہے: ’’وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا جو آسودہ ہوکر سو رہے یہ جانتے ہوئے کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے‘‘
رسول اللہ (ﷺ) نے ایسے کاموں کی تلقین فرمائی ہے جن سے باہم محبت پیدا ہو۔ حضرت عبداللہ بن سلامؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبیؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیگر لوگوں کے ساتھ میں بھی آپؐ کو دیکھنے کے لیے گیا۔ سب سے پہلی بات جو میں نے آپ کی زبان مبارک سے سنی وہ یہ تھی: ’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، جب لوگ سو رہے ہوں تب نماز (تہجد) پڑھو۔ اگر تم ایسا کروگے تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوگے‘‘
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امت کے افراد آپس میں گھل مل کر رہیں اور ان کا اتحاد بنیان مرصوص کی طرح مضبوط ومستحکم ہو۔ اس کے لیے وہ اللہ تعالی سے رات کے آخری حصے میں نماز کے بعد دعا بھی کریں تاکہ ان کے عمل کو اللہ کی تائید حاصل رہے اور اللہ سے قربت اور لگاؤ میں اضافہ ہو، خلوص وللّٰہیت اور توکل علی اللہ کی کیفیت پیدا ہو۔پھربیہ سب اعمال ان کے سلامتی کے ساتھ جنت میں داخلہ کا سبب بنیں گے۔
اگر ہم اپنا ایک اصول بنائیں کہ ہمیں اسلامی اخوت کو برقرار رکھنا ہے، کسی صورت میں اسے دیمک نہ لگے جو ہمارے تعلقات کو کھوکھلا کردے تو اس کے لیے چند باتوں کا اہتمام ضروری ہے۔ مثلاً اگر کسی بات میں کوئی نااتفاقی ہوجائے اور ناگوار حالات پیش آجائیں تو تین دن سے زیادہ کسی سے لاتعلقی اختیار نہ کریں۔ غیبت، جھوٹ، خیانت، دھوکہ دہی اور حسد جیسی رزیل حرکتوں سے گریز کریں۔ کسی کو اپنے سے کم ترنہ سمجھیں، کسی مذاق نہ اڑائیں، کسی کا راز فاش نہ کریں، کسی کو برے نام یا القاب سے نہ پکاریں، ایک دوسرے سے محبت کریں اور معاف کرنے کی عادت ڈالیں۔
اسلامی اخوت کے تعلق سے نبی کریم (ﷺ) کا واضح ارشادہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں لگا رہے گا اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی ایک پریشانی کو دور کرے گا اللہ تعالی قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور کردے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالی قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کو اپنی ہی طرح دوسرے مسلمان کی حفاظت کرنی چاہیے اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔اس طرز عمل سے خود اسی کا فائدہ ہے۔ کیوں کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالی اس کا خیال رکھے گا اگر وہ دوسروں کا خیال رکھے گا۔ ار وہ اس کی عیب جوئی کے بجائے پردہ پوشی کرے گا تو خدا بھی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اگر ایک مسلمان اپنے اوپر اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو ترجیح دے گا یا کم از کم اپنی ہی طرح اس کی بھلائی بھی چاہے گا تو اس کے نتیجے میں اس کے اندر کی بہت سی خرابیاں خود بہ خود ختم ہوجائیں گی۔
عالمی سطح پر مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ایمانی اخوت کی بنیاد پر جس قدر بے چینی محسوس کی جارہی ہے یہ یقینی طور پر ایمانی حلاوت کی دلیل ہے ۔چنانچہ عالمی سطح پر مظاہرے اور عدل قائم کرنے کے مطالبے کیے جارہے ہیں۔ یہ امر خوش آئند ہے مگر مطلوبہ کیفیت پھر بھی کم ہے۔ آج مسلمانوں میں دوسروں کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھ کر حل کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا جذبہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ آج قومی اور عالمی سطح پر مسلمان ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ہیں۔ ان کا باہمی رشتہ کمزور ہوگیا ہے۔ حکومتی سطح پر تو یہ اخوت اور بھی کمزور ہے گویا اسے دیمک چاٹ گئی ہو ورنہ تاریخ کو سامنے رکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ چند مظلوم بے بس عرب مسلم خواتین پر راجہ داہر کے لوگوں نے ظلم کیا، جس کی گونج اور ان کا درد سمندر کے اس پار حجاج بن یوسف تک پہنچی اور اس نے اس کو دہلا کر رکھ دیا جس کے نتیجہ میں اس نے محمد بن قاسم کی رہنمائی میں ایک فوج بھیجی جس نے نہ صرف ان خواتین کو ان ظالموں کے چنگل سے آزاد کیا بلکہ سرہند کو فتح بھی کیا۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں رسول اللہ (ﷺ) اور صحابہ کرام کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ (الفتح:29)
محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔
اس کی تفسیر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرامؓ کے کفار پر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں۔ وہ نرم چارہ نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں۔ انہیں کسی خوف سے دبایا نہیں جاسکتا۔ انہیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جاسکتا۔کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انہیں اس مقصدِ عظیم سے ہٹا دیں جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر محمد (ﷺ) کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں۔ اور آپس میں رحیم ہیں۔ یعنی ان کی سختی جو کچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں۔ اہل ایمان کے لیے وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدردو غمگسار ہیں۔ اصول اورچ قصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی وساز گاری پیدا کردی ہے‘‘ (تفہیم القرآن)
اگر مسلمانوں کے اندر ایمانی حمیت اور اسلامی اخوت بیدار ہوگی تو وہ دنیا والوں کی نگاہ میں بہ حیثیت مسلمان بہت ہی مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔ وہ ایک جسم کے مانند تصور کیے جائیں گے خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہوں۔ پھر دشمن انھیں سوئی بھی چبھونے سے قبل سو بار سوچے گا۔ وہ نہ صرف اپنے اوپر ظلم کے خلاف برسر پیکار رہیں گے بلکہ وہ عام انسانوں پر بھی ظلم کو برداشت نہیں کریں گے اور ہر ممکن عدل قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اگر خود ان کا باہمی تعلق مضبوط نہ ہوگا اور ان کی مشکلات سے چشم پوشی کرتے ہوئے انہیں مظلوم و بے بس چھوڑ دیا جائے گا تاکہ دشمن انہیں چیونٹیوں کی طرح روندے اور گاجر مولی کی طرح کاٹے اور دوسرے تمام مسلمان خاموش تماشائی بنے رہیں۔ یہ سب باتیں انتہائی شرم ناک ہیں جو مسلم معاشرے کی تباہی وبربادی کی دلیل ہے۔
***
***
اگر مسلمانوں کے اندر ایمانی حمیت اور اسلامی اخوت بیدار ہوگی تو وہ دنیا والوں کی نگاہ میں بہ حیثیت مسلمان بہت ہی مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔ وہ ایک جسم کے مانند تصور کیے جائیں گے خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہوں۔ پھر دشمن انھیں سوئی بھی چبھونے سے قبل سو بار سوچے گا۔ وہ نہ صرف اپنے اوپر ظلم کے خلاف برسر پیکار رہیں گے بلکہ وہ عام انسانوں پر بھی ظلم کو برداشت نہیں کریں گے اور ہر ممکن عدل قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اگر خود ان کا باہمی تعلق مضبوط نہ ہوگا اور ان کی مشکلات سے چشم پوشی کرتے ہوئے انہیں مظلوم و بے بس چھوڑ دیا جائے گا تاکہ دشمن انہیں چیونٹیوں کی طرح روندے اور گاجر مولی کی طرح کاٹے اور دوسرے تمام مسلمان خاموش تماشائی بنے رہیں۔ یہ سب باتیں انتہائی شرم ناک ہیں جو مسلم معاشرے کی تباہی وبربادی کی دلیل ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023