اسلام کا سیاسی نظام

اسلام مکمل نظامِ حیات ہے، کامل اطاعت ہی عزت و نجات کی ضامن ہے

0

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

اسلام ایک نرا مذہب نہیں ہے بلکہ ایک دین ہے جو ایک خاص نظامِ حیات رکھتا ہے جو اللہ کی طرف سے انسانوں کے لیے اس کے رسولوں کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔ اسلام سیاسی زندگی میں بھی مکمل ہدایت دیتا ہے ۔اسلام جو سیاسی نظام انسانوں کودیتا ہے اس کی اصل بنیاد یہ ہے کہ اس کائنات کے خالق ہی کےدیے ہوئے قوانین انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رائج ہوں ۔جس طرح اس کائنات کے اندرخالقِ کائنات کا تکوینی نظام رائج ہے اسی طرح انسانوں کی اجتماعی زندگی میں اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ تشریعی نظام نافذ ہو۔ تکوینی نظام سے مراد وہ نظام ہےجس میں طبعی قوانین کارفرما ہوتے ہیں جیسےقانونِ ثقل ہے جس کے تحت ہر چیز زمین کی طرف گرتی ہےیا قانونِ حرکیات جن کے تحت چیزیں حالتِ حرکت یا حالتِ سکون میں ہوتی ہیں ۔تکوینی قوانین بے لاگ ہوتے ہیں جو ہرجگہ اور ہرایک کے لیے یکساں طورپر کارفرماہوتےہیں۔تشریعی قوانین سے مراد وہ قوانین ہیں جو انسانی ز ندگی کے لیے اللہ کی طرف سے انسانی معاشرہ کی بھلائی اور اخروی کامیابی کےلیے دیے گئے ہیں ۔ان قوانین کی خلاف ورزی کے نتائج فوری طورپر ظاہر نہیں ہوتے جس طرح تکوینی قوانین کے نتائج فوری طورپر رونما ہوتے ہیں ۔اگر ایک آدمی کسی بلندی سے چھلانگ لگادے تو اس کا نتیجہ فوری طور پر ظاہر ہوگا لیکن اگر کوئی جھوٹ بول کر ناجائز فائدہ حاصل کرے تو اس کا نتیجہ فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتا۔اخلاقی دنیا کے نتائج کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک اور جہاں بنایا ہے جس کو آخرت کہتے ہیں ۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان کےلیے بنایا ہے اس لیے انسان کو تشریعی قوانین کی پابندی کی آزادی دی گئی ہے کہ چاہے تو وہ اللہ کی اطاعت کرے یا طاغوت کی اطاعت کرے۔ اسی طرح انسانی اجتماعی زندگی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ آزادی دی ہے کہ کسی ملک کی اجتماعیت چاہے تو اس بات کا فیصلہ کرے کہ اللہ کے قانون کے مطابق ملکی سیاست کا نظام چلایا جائے یا جمہور کی مرضی کے مطابق زندگی کا نظام چلایا جائےیا ایک ڈکٹیٹر کی مرضی پر ایک ملک کا نظم چلے ۔اسلامی سیاست کے بنیادی اصول یہ ہیں :
۱۔اسلامی سیاسی نظام کامآخذ قرآن ، سنتِ نبوی اور خلفائے راشدین کا طریقِ حکومت ہے ۔ اسلامی سیاست کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جس میں عدل وقسط ، مساوات اور شفافیت ہو ۔ایسے معاشرے میں افراد کے لیے خدا کی خوشنودی کا حصول آسان بنا دیا جاتا ہے ۔ ذیل میں اسلامی سیاست کے چند اہم بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں:
۱۔اسلامی حکومت بطورِ امانت : اسلامی سیاست میں حکم رانی کو امانت اور ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ خلیفہ یا حاکم کو عوام کی فلاح و بہبود، عدل و انصاف اور دین کی حفاظت کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔رعایا حاکم کی رعیت ہے جس کے بارے میں وہ عنداللہ مسئول ہوگا۔ یہ اعزاز سے زیادہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔
۲۔ شورائیت:اسلامی طرزِ حکومت شورائیت پر مبنی ہوگا: وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ(سورۃ الشوریٰ: ۳۸) "اور ان کے کام باہمی مشورے سے ہوتے ہیں” اسلامی سیاست میں فیصلے مشورے سےکیے جاتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسی پارلیمنٹ ہو جس کے ممبر عوام کے منتخب کردہ ہوں اور وہ اپنی صوابدیدسے شورائیت کے ذریعے فیصلے کریں ۔کسی بھی امر میں مجلسِ شوریٰ کی اکثریت کی رائے سے قانون سازی کی جائے۔مجلسِ شوریٰ کا تصور۱۴۵۰سال قبل پیش کیا گیا جب دنیا میں شورائی نظامِ سیاست کا نام و نشان نہیں تھا۔ہر طرف ظالمانہ بادشاہت تھی کہ کوئی بادشاہ کے دین سے ہٹ کر کسی اوردین کو اختیارکرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
۳۔ قانون کی اساس قرآن و سنت ہو: شورائیت سے فیصلے کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجلسِ شوریٰ کی اکثریت بالکل آزاد ہوگی کہ جو چاہے اکثریت سے قانون سازی کرے۔اس کو حاکمیتِ جمہور کہا جاتا ہے جو اکثر ممالک میں رائج ہے۔اسلامی جمہوریت کا وصف یہ ہےکہ اللہ کی معصیت میں کسی معاملہ میں قانون سازی کی گنجائش نہ ہو ۔قانون سازی قرآن وسنت کے دائرہ میں ہوگی یعنی قانون اللہ کا ہوگا اور قانون چلانے والے جمہوری طریقے سے منتخب ہوں گے ۔وہ امورجو اجتہادی نوعیت کے ہوں ان میں قرآن وسنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے ان کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
۴۔عدل و انصاف:عدل وقسط کا قیام اسلامی حکومت کا بنیاد ی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ (سورۃ النحل:۹۰) ’’بے شک اللہ عدل اوراحسان کا حکم دیتا ہے۔‘‘حکومت کا فرض ہے کہ وہ تمام شہریوں کے ساتھ بلا کسی امتیاز کے عدل و انصاف کرےاور عدل سے بڑھ کر وہ رعایا کی خیرخواہ بن کر ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔ وقت کا خلیفہ عدلیہ کے سامنے اسی طرح حاضر ہوتاتھا جس طرح عام فرد حاضر ہوتا تھا ۔ایک حاکمِ وقت عدلیہ کی نظر میں کوئی امتیازی برتاؤ کا مستحق نہیں ہوتا۔لیکن جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی تو خلیفہ ڈکٹیٹر بن گئے اور وہ قانون سے بالاتر بن گئے ۔عدلیہ ان کے گھر کی لونڈی بن گئی تھی ۔وہ جس کو چاہتے قتل کردیتے تھے ۔کوئی خلیفہ پر تنقید کرنے کا اختیارنہیں رکھتا تھا ۔تنقید کرنے والا فردمملکت کا غدار تصورکیا جاتا تھا۔ایک اورتبدیلی یہ واقع ہوئی کہ بیت المال کی شفافیت ختم ہوگئی تھی ۔سارابیت المال بادشاہ کی ملکیت قرارپایا اور کسی کو حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ بیت المال میں جمع ہونے والے مال کا حساب پوچھے۔ خلافت جب ملوکیت میں تبدیل ہوئی تو اسلامی طرزِ حکومت یکسر بدل گئی۔اس وقت سے لے کر آج تک دنیا اسلامی سیاست کے ثمرات اوراس کے فیوض وبرکات کو دیکھ ہی نہ سکی ۔اسلام خواہ مخواہ بدنام ہوا۔اگر اسلامی سیاست کا روشن اور درخشاں منظر لوگ دیکھ لیتے تو لوگ اسلام میں تیزی سے داخل ہوتے ۔
۵۔ امانت و دیانت کی بنیاد پر اہلِ مسند کا انتخاب : قرآن میں یہ اصول دیا گیا کہ حکومت کے مناصب بالخصوص سیاسی مناصب ان کے سپرد کیے جائیں جو امین ہوں اور اس پوزیشن کو نبھانے کے اہل بھی ہوں: إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ (سورۃ النساء:۵۸)’’مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو،اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے۔‘‘ اس آیت میں دواصول دیے گئے ہیں : ایک اصول یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں حاکم کو اور حکومتی اہلکاروں کو منتخب کرنا عوام کا حق ہے اور دوسرا اصول یہ ہے کہ ان لوگوں کو منتخب کیا جائے جو ایماندار اور قابل ہوں ۔اگر کوئی زبردستی ملک کا حاکم بن جائے تو یہ حکومت ناجائز حکومت ہوگی ۔نہ صرف حاکم اور دوسرے سیاسی نمائندے انتخابی عمل کے ذریعے اپنے مناصب حاصل کریں بلکہ اسلامی ریاست کا مکمل نظام اس اصول کا پابند ہوکہ جو بھی کسی پوزیشن یا ملازمت کا خواہاں ہوگا ایمانداری اور قابلیت کی بنیاد پر اس کو وہ عہدہ دیا جائے ۔ عہدوں کی تفویض اور تقررمیں کسی قسم کی جانبداری، ناانصافی، بدعہدی ظلم کو جنم دے گی ۔رنگ ،نسل ،زبان اور امتیازات اداروں کےاندر فساد پیداکرتے ہیں جس طرح ایک صحتمند جسم کے اندر کسی مرض کے پیداہونے سے ساراجسم اس کے برے اثرات سے متاثر ہوتا ہے۔اسلام کا اصول یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک قدردانی تقویٰ کے لحاظ سے ہے (سورۃ الحجرات :۱۳)۔یعنی جو شخص اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہوگا وہ کبھی اپنے اختیارات کا بے جا استعمال نہیں کرے گا۔اہلِ امانت کی دو صفات کو قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی پیش کیا گیا ہے۔سورۃ القصص آیت ۲۶ میں فرمایاگیا: قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ ’’ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا”ابّا جان، اس شخص کو نوکر رکھ لیجیے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔‘‘اس آیت میں لڑکی نے اپنے والد سے جن دواوصاف کی بناپر موسیٰ علیہ السلام کو ملازم رکھ لینے کی سفارش کی وہ یہی دو اوصاف ہیں کہ ایک ہے قوی ہونا اور دوسرا امین ہونا ۔قوی ہونے سے مراد ہے اپنے کام میں ماہر ہونا تاکہ فنی اعتبارسے کام میں کوئی نقص نہ ہو۔اور دوسرا وصف یہ ہوکہ وہ امانت دارہو۔ان دونوں اوصاف کا ایک شخصیت میں جمع ہونا اس شخص کو معاشرہ کے لیے بہت مفید اور بابرکت بنا دیتا ہے ۔ایک سیاست داں اپنی ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھانے والا بھی ہواور امانت داربھی ہوتو ایسی سیاست ملک کے لیے نافع ہوگی ۔اگر وہ قابل توہولیکن امانت دارنہ ہوتو وہ اپنی قابلیت کو ذاتی فائدوں کے حصول کے لیے استعمال کرے گا۔ اگر وہ امانت داراور صادق تو ہو لیکن قابل نہ ہوتو ایسی ایمانداری کا فائدہ نہیں ہوگا۔اگر ایک ڈاکٹر اپنے میدان کا ماہر تو ہو لیکن امانت دارنہ ہوتو وہ مریض کا استحصال کرے گا۔اگر وہ امانت دار تو ہولیکن قابل نہ ہوتو وہ مریض کا صحیح علاج نہیں کرپائے گا۔حضرت یوسف علیہ السلام نے جب بادشاہ کے سامنے اپنی خدمات کو پیش کرنا چاہا تو انہوں نے دو صفات کا ذکر فرمایا : قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَآئِنِ الأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ (سورۃ یوسف :۵۵)’’انہوں نے کہا”ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔“ایک صفت ہے ’حفیظ‘ یعنی میں امانت داری سے ملک کی معیشت کی حفاظت کروں گا۔دوسری صفت ہے’ علیم‘ ہونا یعنی میں ملک کی معیشت کی بہترین منصوبہ بندی کرنے کا علم اور اس کی مہارت رکھتا ہوں ۔ قرآن اللہ کا کلام ہے ۔وہ جو اصول پیش کرتا ہے وہ مختلف واقعات اورمختلف مواقع پر پیش کیے جانے کے باوجود یکساں ہوتے ہیں ۔قرآن اندرونی اور بیرونی تضاد سے خالی ہے۔یہی قرآن کے الٰہی کلام ہونے کا ثبوت ہے(سورۃ النساء۸۲)۔
۶۔حقوق العباد کی حفاظت: اسلامی حکومت ، رعایا میں سے چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم وہ سب کی جان، مال، عزت اور مذہبی آزادی کی ضامن ہوتی ہے۔کسی غیر مسلم کوحکومت کے زورسے جبر واکراہ کے ذریعے دینِ اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا ۔سب کی جان محترم ہے۔ذاتی عنادکی بنیاد پر یا کسی تنقید کی بنیاد پر کسی فرد سے انتقام نہیں لیا جاسکتا ۔ حاکمِ وقت رعایا کا خیرخواہ ہوتاہے۔ خلفائے راشدین اپنی رعایا کے بارے میں بہت فکرمند ہوتے تھے کہ کہیں کوئی مجبور آدمی حکومت کی کوتاہی سے بھوکا نہ سوجائے ۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ امن وامان قائم کرے۔اسی امن و امان کی خاطر اسلام میں مجرموں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔اسلامی حکومت نہیں چاہتی کہ چند مٹھی بھر مجرموں پر رحم کرکے سارے معاشرہ کے امن کو خطرہ میں ڈالا جائے۔چند مجرموں کو سزا دینا ایسا ہے جیسے کینسر کے مریض کے جسم سے متاثر شدہ حصہ کاٹ کر نکال دینا تاکہ وہ جسم کے دوسرے اچھے حصوں میں نہ پھیل جائے ۔اگر ایک قاتل کو سزائے موت کے بجائے قید کی سزا دی جائے تو قیدسے آزادہونےپر وہ دوبارہ قتل کرنے پر آمادہ ہوسکتا ہے۔ اس سے دوسرے انسانوں کے اندر بھی قتل کرنے کی جرأت پیداہوگی ۔کچھ لوگ چوری کرنے کے عادی ہوتے ہیں چاہے ان کو چوری کرنے کی مجبوری لاحق نہ ہو ۔جب تک ان کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں وہ باز نہیں آتے ۔اسی طرح جو لوگ گداگری کے عادی ہوتے ہیں ان کو چاہےکتنی ہی مالی مدددی جائے وہ گداگری کونہیں چھوڑتے جب تک کہ حکومت ان کو گداگری چھوڑنے پر مجبورنہ کرے۔ مغربی ممالک میں چند مجرموں پر رحم کھا کر ان کو ہلکی سزائیں دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں پورے ملک کے عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔اسی طرح اسلامی مملکت میں خواتین کو نیم برہنہ لباس پہن کر گھومنے کی اجازت نہیں ہوتی تاکہ شرپسند عناصر کے ہاتھوں خواتین کی عزتیں پامال نہ ہوں ۔مزید یہ کہ خواتین کے نازیبالباس سے شریف مردوں کے خیالات بھی پراگندہ نہ ہوں ۔بے پردگی سے بہت معصومانہ اندازمیں ناجائز تعلقات استوارہوتے ہیں لیکن انجام کے اعتبارسے یہ تعلقات بڑے بھیانک ثابت ہوتےہیں۔جرائم کی دنیا میں آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں بیویاں شوہروں کو اور شوہر بیویوں کا قتل کررہےہیں ۔حکومت رشوت خوری اور ناجائز مال کمانے کے ذرائع پر بزورِ قوت کنٹرول کرے گی تاکہ عوام کا استحصال نہ ہو ۔
۷۔اسلامی شریعت کی بالادستی:اسلامی سیاست کا مقصد شریعت کا نفاذ اوراجتماعی معاملات میں اللہ کے احکام کی پابندی ہےجو مسلم حکم راں کا اولین فریضہ ہونا چاہیے ۔عوام کی ایسی تربیت کی جائےکہ وہ اسلامی شریعت کو دل وجان سے پسند کرے ۔اسلامی مملکت میں ایسی پارٹی کے لیے جگہ نہ ہو جو غیر اسلامی ایجنڈے پر کام کرے یا جس کا مقصد الحاد اور فحاشی ہو۔اسلامی سیاست میں ملٹی پارٹی سسٹم کی گنجائش ہوگی مگر ایسی سیاسی پارٹیوں کی گنجائش نہیں ہوگی جو اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلاکرنے والی ہوں ۔مثلاً جب اگر کوئی تعمیراتی پروجیکٹ کے لیے ٹنڈرکے ذریعے مختلف تعمیراتی کمپنیوں کو دعوت دی جائےتو اس صورت میں ایسی کمپنی کو دعوت نہیں دی جائے گی جس کے پاس تعمیر کا کوئی تجربہ نہ ہو یا جو پروجیکٹ کو ناکام بنانے والی ہو۔اسی طرح اسلامی مملکت میں ان پارٹیوں کو ہی سیاسی انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا جو اسلامی شریعت کی حامی ہوں اور جو ایک دوسرے سے شریعت کے نفاذمیں تعاون کرنے والی ہوں ۔ملٹی پارٹی سسٹم کی خوبی یہ ہے کہ حکم راں پارٹی کا احتساب کرنے والی کئی پارٹیاں ہوں گی جس سے حکومت کو عدل پر قائم رکھنے میں مدد ملے گی ۔ورنہ سنگل پارٹی سسٹم مطلق العنان بن کر عوام کے حق میں ظالم بن سکتی ہے۔بعض لوگ انتخابی سسٹم کے بجائے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت لینے کی حمایت کرتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جس خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہواس کی نامزدگی کا فیصلہ کون کرےگا؟کیا آج کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کا بیعت کرنا ممکن ہے؟حکم راں کو پتہ چل جائے گا کہ کس نے بیعت کی اور کس نے بیعت نہیں کی ۔اس بات کا امکان ہے کہ وہ بیعت نہ کرنے والوں سے انتقام لے۔اس لیے خفیہ بیلٹ ووٹنگ سے یہ قباحت دور ہوگی۔ یہ وہ امورہیں جو زمانے کی ترقی کے ساتھ وجود میں آئے ہیں ۔سیاسی انتخابات میں ووٹنگ بھی انسانی ترقی کے ساتھ وجود میں آئی ہےجس طرح گھوڑوں پر سفر کے بجائے ہوائی جہازپر سفر ترقی کی ایک صورت ہے۔فی زمانہ انسانی ترقی سے جتنی سہولتیں دستیاب ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اسلامی اصولوں کو عملی شکل دینا ہوگا۔یہ اجتہاد کا میدان ہے۔جو لوگ بیک وقت دینی اور دنیاوی امورمیں گہرا علم رکھتے ہیں وہ اجتہاد کے ذریعے سیاسی ،معاشی اور سماجی امورمیں اسلامی اصولوں کی روشنی میں جدید نظریات کی اصلاح کرسکتے ہیں ۔جن علماءنے قرآن کا ترجمہ ،پرنٹنگ پریس، لاؤڈاسپیکر اور ویڈیوگرافی کو ناجائز قراردیا تھا آج ان کے شاگرد ہی سب سے زیادہ ان چیزوں کا استعمال کررہے ہیں ۔اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔اجتہاد چارائمہ پر ختم نہیں ہوا بلکہ اس کو تاقیامت جاری وساری رہنا چاہیے۔
۸۔دعوت و اصلاح : مسلم حکم رانوں کے اندردعوتی شعورہو کہ وہ اسلام کے پیغام کو رعایا میں سے غیر مسلموں تک پہنچانے کا انتظام کریں ۔وہیں مسلمانوں کے اندر اصلاح کا کام جاری رہے۔اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے خطبوں کو اصلاح بین المسلمین کا بہت ہی موثر ذریعہ بنایا ہے ۔دورِ رسالت میں رسول اللہ ﷺ جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے۔دورِ خلافت میں خلیفہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ جمعہ کےخطبہ کے ذریعے منبرسے عوام کو مخاطب کرے ۔ قرآن میں امتِ مسلمہ کا مقصدِ وجود ہی یہ بتایا گیا کہ وہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔اسلامی مملکت میں ایک محکمہ ہو جو دعوت و اصلاح کا فریضہ حکومت کی نگرانی میں انجام دےتاکہ رعایا میں سے غیرمسلم اسلامی اقدارسے واقف ہوں اور مسلمان ان اقدارسے دلی وابستگی رکھیں ۔
۹۔تعلیمی نظام : مسلم حکم راں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایساتعلیمی نظام وضع کرے جس میں دینی و دنیاوی علم کا امتزاج ہو۔ایک طالب علم اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی واقف ہواوروہ اپنے میدان کا ماہر بھی ہو۔چاہے وہ علم ِ طب ہویا انجینئرنگ ہو،قانون کا علم ہویا معاشیات کا ان کو اس طرح پڑھایا جائے کہ تمام علوم میں اسلامی اقدار کے انطباق کو ملحوظ رکھا جائے۔قانون میں اسلامی قانون بھی ساتھ پڑھایا جائے۔جدید معاشیات کے ساتھ اسلامی معاشیات کو بھی پڑھایا جائے اور ان کاتقابل پیش کیا جائے۔ ایسا تعلیمی نظام بنایا جائے جہاں جدید علوم میں تحقیق بھی ہو اور ساتھ میں عصرِ حاضر کے مسائل کو اسلام کی روشنی میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔اسلامی بینکنگ کی عملی مثال کو دنیا کے سامنےپیش کرکے ثابت کردیا جائے کہ سودی بینکنک کامتبادل مضاربہ ،مشارکہ اورمرابحہ کے اصولوں پر ایک فلاحی ریاست کو جنم دے سکتاہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے ۵۷ممالک ہیں لیکن ان میں ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جو اسلامی معاشیات کے اصولوں پر ایک فلاحی ریاست کی درخشان مثال پیش کر سکے ۔
۱۰۔ جہاد فی سبیل اللہ (ظلم کے خلاف اورعدل وقسط کے قیام کے لیے ):ساری دنیا میں حق وباطل کی کشمکش میں اسلامی ریاست کا وجود اسی وقت باقی رہ سکتا ہے جب ایک اسلامی حکومت نظریاتی اور عسکری لحاظ سے طاقتور ہو جائے۔اسلام، نظریہ کے اعتبارسے کبھی مغلوب نہیں ہوا اور ہمیشہ فاتح رہا ۔رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں ۲۳سالہ عرصہ میں دین کی تکمیل ہوئی اور دنیا کے سامنے ایسانظام پیش کیا گیا جو ہر زمانے میں لوگوں کے دلوں کو فتح کرتا رہا ہے۔مسلم ممالک بدترین مغلوبیت کا شکارہوئے لیکن اسلام کی ہمیشہ جیت ہوتی رہی ۔کوئی باطل نظریہ اسلام کے سامنے نظریاتی میدان میں ٹک نہ سکا ۔اگر غیر اسلامی نظریات غالب رہے تو وہ ظلم ،جبر، مکروفریب اور شہوات و شبہات کے بل پر طاغوتی نظام کے تحت غالب رہے۔ جب تاتاریوں نے عباسی خلافت کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا تو اس وقت بھی اسلام نے تاتاری وحشیوں کے دلوں کو فتح کرکے انہیں اسلام کا پاسباں بنادیا ۔ اسلام کی نظریاتی بالادستی کی اہم وجہ یہ رہی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو کلامِ محفوظ بنایا ہےاور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لے لی ہے۔ چنانچہ آج بھی قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی کثیر تعداد میں لوگ اسلام کو قبول کر رہے ہیں۔جہاں تک اسلامی حکومتوں کی بقا کامسئلہ ہےاس کے لیے اسلامی اقدارسے وابستگی کے ساتھ عسکری لحاظ سےباطل طاقتوں پر برتری بھی لازم ہے۔اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے اس کو صدیوں پہلے مسلم حکم رانوں نے فراموش کردیا تھا۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ (سورۃ الانفال :۶۰)’’اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے تیار رکھوتاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔‘‘
یہ انتہائی اہم آیت ہے جس پر عمل نہ کرنے سے مسلم حکومتیں کفارکے ہاتھوں صدیوں سے مسلسل شکست پر شکست کھاتی چلی جارہی ہیں ۔دشمن کی عسکری طاقتوں پر مسلم حکومت کی عسکری طاقت کے غلبہ کا براہِ راست تعلق سائنس و ٹیکنالوجی میں برتری سے ہے۔جب سے مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اہلِ مغرب سے پیچھے ہوگئے اس تاریخ سے لے کر آج تک مسلمان جنگوں میں بھاری جانی و مالی نقصان کو بھگتتے رہےہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ بعض موقعوں پر مسلمانوں کے ناقابلِ تصورصبرو استقامت نے دشمن کو عاجز کردیا لیکن مسلمانوں کے ملک کے ملک دشمن کی بمباری سے تباہی کا شکارہوئے۔دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزرفتار ترقی اس وقت ہوئی جب امریکہ اور سوویت یونین دونوں میں سرد جنگ کا آغاز ہوااور دونوں ایک دوسرے سےخطرناک جنگی ہتھیار بنانے کی سبقت میں جنگی ٹیکنالوجی کے حصول میں جنون کی حد تک آگے بڑھ چکے تھے ۔جس چیزکا قرآن نے ۱۴۵۰سال قبل حکم دیا تھا اس پر مسلمانوں نے نہیں بلکہ اس پر ان دوسوپر پاورملکوں نے خوب عمل کیا اور وہ دنیا پر چھائے رہے۔اور آج امریکہ واحد سوپر پاوربن کر دنیا کے اکثر ممالک کوغلام بنایا ہوا ہے۔اس ایک آیت پر عمل نہ کرنے سے مسلم ملک غلام بنتے چلے گئے۔ حالانکہ یہی مسلمان تھے جنہوں نے سائنس کی ابتداء کی تھی لیکن بعد کے مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئے۔اسلام سے قبل سائنس کاوجودنہیں تھا ۔جو کچھ تھا وہ قیاس ووہم تھا ۔اسلام نے دنیا کو تحقیق کا راستہ دکھایا اس لیے کہ قرآن غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔مسلم حکم رانوں نے خارجی محاذ پر لڑنے کے بجائے اپنے ہی عوام کو دشمن سمجھ کر اندرونِ ملک جبر وتشدد کا راستہ اختیارکیا اور عوام پر روح فرسامظالم ڈھائے ۔آج بھی اگر مسلم حکم راں صہیونی طاقت کے مقابلے میں متحد ہوجائیں تو اسرائیل کا وجود ہی خطرہ میں پڑجائے گا لیکن انہوں نے اپنے ہی عوام کے خلاف نہایت سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے اور اسرائیل و امریکہ کے مقابلے میں سرنگوں ہیں ۔مسلم حکم رانوں کے لیے قتال کرنا تین صورتوں میں فرض ہوجاتا ہے۔پہلی صورت یہ ہے کہ جب اسلامی مملکت پر خارج سے حملہ ہواہو(سورۃ الحج :۳۹)۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جب کسی ہمسایہ ملک میں وہاں کی عوام پر ظلم ہورہا ہو(سورۃ النسا: ۷۵)۔تیسری صورت میں ایسے ملک پر حملہ کرکے وہاں کے عوام کو مذہبی آزادی دلائی جائے (سورۃ الانفال :۳۹)۔جب کسی ملک میں مذہبی آزادی اس طرح سلب کرلی گئی ہو کہ کوئی نہ اسلام پر عمل کرسکتا ہو نہ اسلام کی اشاعت کرسکتا ہو اور نہ اسلام کو قبول کیا جاسکتا ہو، اس کیفیت کو فتنہ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ایسی صورت میں ایک اسلامی حکومت پر فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کی کیفیت کو دورکرنے کے لیے دوسرے ملک پر چڑھائی کرے۔ دفاعی قتال تو ہر صورت میں کیا جاتا ہے چاہے تیاری ہو یا نہ ہو لیکن اقدامی قتال اس صورت میں کیا جاتا ہے جب عسکری لحاظ سے مسلم مملکت مضبوط اورطاقتور ہو۔یہ ہیں ایک مسلم مملکت کی جنگی ذمہ داریاں ۔
سوال یہ ہے کہ بے انتہا اسباب و وسائل رکھنے کے باوجود مسلم ملکوں کی سیاسی و عسکری غلامی کا دور کیسے ختم ہو۔اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کرکے ہمارے سامنے ہر طرح کے مسائل و مصائب کا حل پیش کردیا ہے۔اس حل کے واضح نقوشِ راہ ہمیں رسول اللہ ﷺکی سیرتِ مبارکہ میں ملتے ہیں جہاں ایک فرد واحد سے تحریکِ اسلامی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور ۲۳سال کےاندر ایک عظیم الشان اخلاقی،معاشرتی ،معاشی ،سیاسی و فوجی انقلاب رونما ہوتا ہے۔اگر ہم خود ساختہ طریقوں کو چھوڑ کر ان نقوشِ راہ کو من و عن اختیارکریں تو آج بھی امید ہے کہ غلامی کی تاریک رات کا اختتام ہو ۔نبی کریم ﷺکی زندگی میں اللہ تعالٰی نے اتنا تنوع رکھا ہے کہ قیامت تک آنے والے ہر طرح کے حالات میں اس میں ہمارے لیے رہنمائی ہے، چاہے مسلمان اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں ۔جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہ غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیں اور مسلمانوں میں اصلاح کا کام کریں تاکہ اسلام کی پاکیزہ تصویر دکھائی جاسکے ۔جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں وہاں مسلمانوں کے اندر اصلاح کرتے ہوئے حکم رانوں کےسیاسی حریف بننے کے بجائے ان کو مقاصدِ شریعت کی طرف متوجہ کریں ۔یہ یقین رکھیں کہ انتقالِ اقتدارکے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں(سورۃ آل عمران :۲۶)۔اللہ تعالیٰ کبھی برے حکم رانوں کو اچھوں سے بدل دیتا ہےتو کبھی اچھے حکم رانوں کو بروں سےبدلتا ہے ۔ وہ اگر ظالموں کو برسرِ اقتدار رکھتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت کارفرماہوتی ہے۔اگر دنیا میں ہمیشہ اچھے حکم راں ہوں تو معرکۂ حق وباطل سردپڑجاتا اور امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا جس کے لیے انسانوں کو پیداکیا گیا ہے۔اگر دنیا میں فتح ہمیشہ اہلِ حق کی ہوتی تو سارے لوگ حق کو قبول کرلیتے۔ایسی صورت میں بھی امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا۔ مسلم عوام کی بداعمالیوں کی بدولت بطورِ سزاظالم حکم رانوں کو ان کے اوپر مسلط کردیا جاتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں ظالم حکم رانوں کا تسلط اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے صہیونیوں کی مدد کرکے ان کو ایک وقتِ خاص تک ڈھیل دینا چاہتا ہےجس کو قرآن میں حبل من اللہ و حبل من الناس سے تعبیر کیا گیا ہے(سورۃ آل عمران:۱۱۲)۔ اسلامی تحریک کے افرادکا کام یہ ہوکہ وہ رسول اللہ ﷺکی مکی و مدنی دونوں ادوارپر نظررکھیں اور ان ادوارسے اپنے حالات کا موازنہ کرکے جہدِ مسلسل میں ہمہ تن کوشاں رہیں : ’’بہارہوکہ خزاں لاالہ الااللہ‘‘
اسلام کو ہم جس رخ سے بھی دیکھیں جو مقصد سامنے دکھائی دیتا ہےوہ یہ ہے کہ حق وباطل کی کشمکش کے درمیان وہ انسانوں کو امتحان سے گزارکر ان کو آخرت کی کامیابی کے لیے تیارکرتا ہے۔چاہے وہ حکم راں ہویا عام فرد ہر ایک کا امتحان مقصود ہے۔ دعوت و اصلاح اور جہاد کا کام اس دنیا میں حق کو غالب رکھنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے۔جہاں دعوت و اصلاح و جہاد میں کمی واقع ہوئی وہاں باطل کو حق پر غالب ہونے کا موقع ملا۔باطل ،کفارومشرکین کے علاوہ منافقین کی بھی خدمات حاصل کرتا ہے ۔ دعوت واصلاح سے منافقین کا زورٹوٹتا ہے اور جہاد سے کفارومشرکین کا ۔قرآن پر جزوی نہیں بلکہ کلی عمل مطلوب ہے ۔قرآن پر جزوی عمل دنیا میں ذلت اور آخرت کے عذاب سے ہم کنارکرنے والا ہے(سورۃ البقرۃ :۸۵)۔ہم اسلام کی سیاسی تعلیمات کو فراموش کرکے صرف عبادات کے ذریعے دنیا میں رسوائی سے نہیں بچ سکتے ۔اسلام ایک نظامِ حیات ہے اور اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونے سے ہی دنیامیں عزت اور آخرت میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

 

***

 اگر دنیا میں ہمیشہ اچھے حکم راں ہوں تو معرکۂ حق وباطل سردپڑجاتا اور امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا جس کے لیے انسانوں کو پیداکیا گیا ہے۔اگر دنیا میں فتح ہمیشہ اہلِ حق کی ہوتی تو سارے لوگ حق کو قبول کرلیتے۔ایسی صورت میں بھی امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا۔ مسلم عوام کی بداعمالیوں کی بدولت بطورِ سزاظالم حکم رانوں کو ان کے اوپر مسلط کردیا جاتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں ظالم حکم رانوں کا تسلط اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے صہیونیوں کی مددکرکے ان کو ایک وقتِ خاص تک ڈھیل دینا چاہتا ہےجس کو قرآن میں حبل من اللہ و حبل من الناس سے تعبیر کیا گیا ہے(سورۃ آل عمران:۱۱۲)۔ اسلامی تحریک کے افرادکا کام یہ ہوکہ وہ رسول اللہ ﷺکی مکی و مدنی دونوں ادوارپر نظررکھیں اور ان ادوارسے اپنے حالات کا موازنہ کرکے جہدِ مسلسل میں ہمہ تن کوشاں رہیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 مئی تا 10 مئی 2025