اساتذہ کے لیے رہنمائی سیریز (قسط۔3)

کوویڈ سے متاثرہ اور کم زور طلبہ کے معیار کی بلندی کیسے؟

سید تنویر احمد
ڈائریکٹر ہولسٹیک ایجوکیشن بورڈ، دلی

بچوں کی تعلیمی عمر معلوم کرنے کے لیے ایک مفیدتکنک کا استعمال۔ ’اے آئی سی یو‘کے بہتر نتائج
’اے آئی سی یو‘کے اہتمام کے ذریعے مختلف تعلیمی ادارے بہترین نتائج حاصل کررہے ہیں۔’ڈراپ آؤٹ‘ طلبہ، وہ طلبہ جو مدارس سے فارغ التحصیل ہیں یا پھر وہ جنھوں نے کبھی اسکول کا رخ ہی نہیں کیا، ان تمام زمروں کے طلبہ کو جب اس سسٹم سے گزارا جاتا ہے تو وہ اپنی عمر کی مناسبت سے درجہ دہم یا دیگر درجات کے امتحانات بآسانی پاس کرلیتے ہیں۔
’اے آئی سی یو‘کے بہترین نتائج کی وجوہات درج ذیل ہیں
ابتدا میں طلبہ کی تعلیمی عمر (academic age) معلوم کی جاتی ہے اور اس بنا پر انھیں اس نصاب کو پڑھایا جاتا ہے جس کو پڑھنے کی وہ لیاقت یا سمجھ رکھتے ہیں۔ پھر انھیں بتدریج تعلیمی اعتبار سے اونچا اٹھایا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف اسکولوں میں صرف طلبہ کی حقیقی عمر (biological age) کی مناسبت سے انھیں تعلیم دینے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے طلبہ میں تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا اثر طلبہ کے سیکھنے کی صلاحیت پر پڑتا ہے اور پھر طلبہ سیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔
’اے آئی سی یو‘ میں طلبہ کی تعداد بھی 6 تا 10 ہوتی ہے۔ مختصر تعداد کی وجہ سے استاد کا ہر طالب علم پر توجہ مرکوز کرنا ممکن ہوتاہے۔ اس عمل کو’بچے پر مرکوز تعلیمی نظام‘(child centered education system)کہا جاتا ہے۔ ویسے تو اس نظام کی اہمیت کو بار بار واضح کیا جاتا ہے اور بعض اسکول اپنے اشتہارات میں اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر اسے عصری تعلیم کے اسکولوں میں بہت ہی کم اختیار کیا جاتا ہے۔ البتہ اس سسٹم کا مؤثر استعمال حفظ قرآن کی کلاسوں میں کیا جاتا ہے۔ حفظ قرآن کے مدارس میں یہ سسٹم برسوں سے جاری ہے۔ یہاں کی کلاس میں استاد ایک جگہ بیٹھتے ہیں اور ان کے سامنے طلبہ ہوتے ہیں۔ ہر طالب علم باری باری استاد کے قریب آتا ہے، اپنا سبق سناتا ہے اور نیا سبق لے کر اپنی جگہ واپس بیٹھ جاتا ہے۔ پھر عام طلبہ اپنے اپنے سبق کی مشق کرنے لگتے ہیں۔ یہ سسٹم’بچوں پر مرکوز تدریس‘(child centered teaching)کی ایک مثال ہے۔
’اے آئی سی یو‘کے علاوہ عام مروجہ طریقۂ تدریس میں اساتذہ عموماً بلیک بورڈ کی طرف دیکھتے ہوئے اسباق پڑھاتے ہیں۔ درمیان میں سوال پوچھتے بھی ہیں تو جواب چند ذہین طلبہ کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ اس پر استاد سمجھ لیتے ہیں کہ تمام طلبہ نے اس سبق کو سمجھ لیا ہے۔ اس طرز تدریس میں خاصے طلبہ تعلیمی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ’اے آئی سی یو‘ میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ استاد مجموعی کلاس کے بجائے ہر طالب علم کے سبق کو سمجھ لینے کے بعد ہی سبق آگے بڑھاتے ہیں۔
’اے آئی سی یو‘ میں چوں کہ وقت کم سے کم ڈیڑھ گھنٹے کا ہوتا ہے، اس لیے استاد پورے اطمینان کے ساتھ طلبہ کو سبق پڑھاتے ہیں۔ اس کے برخلاف عام مروجہ سسٹم میں ایک گھنٹی زیادہ سے زیادہ 45 منٹ کی ہوتی ہے۔ ان 45 منٹوں میں نصاب کے بڑے حصے کو پڑھانا ہوتا ہے، اس لیے چائلڈ سینٹرڈ ٹیچنگ چاہتے ہوئے بھی ممکن نہیں ہوتی۔
’اے آئی سی یو‘ میں ایک اور تعلیمی خصوصیت پر عمل کرنا ممکن ہے جسے’باہم تعاون سے سیکھنا‘ (collaborating learning)کہا جاتا ہے۔ اس سسٹم میں طلبہ سیکھنے کے عمل میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔ ’اے آئی سی یو‘کی کلاس میں چوں کہ طلبہ کی تعداد مختصر ہوتی ہے، اس لیے یہ عمل ممکن ہے۔ اس کے ذریعے سیکھنے کا عمل مؤثر ہوتا ہے۔ اس لیے کہ سبق کے بعض پہلوؤں کو استاد بچوں کو اتنا بہتر نہیں سمجھا سکتے جتنا کہ طلبہ اپنے ہم جماعت دوستوں کو سمجھا سکتے ہیں۔ اس عمل کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ سبق کے کسی ایک پہلو کو سمجھاتے وقت اگر استاد کا لب و لہجہ تلخ ہوجاتا ہے تو اس کا اثر طلبہ پر منفی پڑتا ہے۔ جب کہ اسی نکتے کو جب طالب علم کا کوئی ساتھی یا دوست سخت لہجے میں ہی سہی سمجھاتا ہے تو دوست پر اس کا منفی اثر نہیں پڑتا۔
’اے آئی سی یو‘کی انجام دہی میں درپیش مشکلات
جن اسکولوں میں’ اے آئی سی یو‘کو برتا جارہا ہے، ان اسکولوں کے اساتذہ ابتدا میں درج ذیل مشکلات کو پیش کرتے ہیں
کم زور طلبہ کو ان کی تعلیمی لیاقت (academic age)کی بنیاد پر انھیں ان کی کلاس سے نچلی کلاس کا نصاب پڑھایا جاتاہے تو اکثر والدین شکایت کرتے ہیں۔ اس مشکل کاحل بڑا آسان ہے۔ استاد کو چاہیے کہ وہ’اے آئی سی یو‘کے اہتمام سے پہلے تمام طلبہ کے سرپرستوں پر’اے آئی سی یو‘کے سسٹم کو واضح کریں اور انھیں یہ بھی بتادیں کہ طلبہ اگر کسی مضمون میں کم زور رہیں گے تو ان کی بہتری کے لیے پچھلے نصاب کو بھی پڑھایا جائے گا۔
’اے آئی سی یو‘کے دوران کبھی طلبہ کو نچلی کلاسوں میں نہ بٹھائیں بلکہ’اے آئی سی یو‘ کے لیے علاحدہ کلاس روم کا بندوبست کریں۔
بعض اساتذہ یہ سوال کرتے ہیں کہ’ اے آئی سی یو‘کے دوران بچے اپنے ریگولر نصاب سے محروم ہوجائیں گے۔ ہمارا ان سے یہ کہنا ہے کہ’ اے آئی سی یو‘کے طلبہ کی ٹریننگ اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ وہ طلبہ ریگولر کلاس کے نصاب تک پہنچ نہ جائیں۔ جب وہ اپنی کلاس کے نصاب تک پہنچ جائیں تو دوسرے دن سے انھیں ان کی کلاس میں بٹھایا جائے۔ اب وہ طالب علم اپنی جماعت کے نصاب کو پوری طرح سمجھنے کے قابل ہوگا لہٰذا کلاس میں اس کی کارکردگی بہتر ہوگی۔
بعض اساتذہ’ اے آئی سی یو‘کے اہتمام کے سلسلے میں معمولی معمولی سوالات یا مسائل پیش کرتے ہیں۔ مثلاً ’اے آئی سی یو‘کا انتظام کس کلاس میں کیا جائے؟ یا یہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے اسکول میں خالی کلاس موجود نہیں ہے۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کی تعلیمی بہبود کے لیے اگر اسکول مخلص ہے تو پھر وہ جگہ بنالے گا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایک کلاس روم میں کئی جماعتوں کی’اے آئی سی یو‘کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ خالی کلاس نہیں ہو، تو آفس، اسٹاف روم، لیب یا کسی خالی جگہ پر بھی اس کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
ایک اور مسئلہ یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ’’ہمارے پاس اسٹاف کی کمی ہے۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ’اے آئی سی یو‘کے لیے مزید اسٹاف کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ ایک کلاس میں چار سے پانچ گروپ تک بیٹھ سکتے ہیں۔اس صورت میں استاد پہلے گروپ میں چند منٹ بیٹھیں، سبق کو سمجھائیں، کچھ مشقی کام دیں اور پھر دوسرے گروپ میں چلے جائیں، وہاں اس گروپ کی مناسبت سے سبق پڑھائیں، مشقی کام دیں اور پھر تیسرے گروپ میں چلے جائیں۔ تمام گروپوں میں بیٹھنے کے بعد پھر پہلے گروپ میں آجائیں، یہاں مشقی کام کی جانچ کریں پھر نیا سبق پڑھائیں اور مشقی کام دیں۔ اس طرح ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں جتنا ممکن ہوسکے اتنے اسباق پڑھائے جاسکتے ہیں۔
دوسرا تجربہ۔ طلبہ کے گروپ
اکثر اسکولوں میں طلبہ کے ہاؤس (house)تشکیل دیے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ ہاؤس گیم اور اسپورٹ یا دیگر مقابلوں کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان ہاؤسوں کو تشکیل دینے کا طریقہ بھی ہر اسکول میں جدا ہے۔ یعنی اسکولوں میں یہ گروپ رول نمبر کے اعتبار سے بنائے جاتے ہیں تو بعض اسکولوں میں ہاؤسوں کی تشکیل ابتدائی حرف تہجی یا انگریزی کے الف با (alphabetical word)کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہم یہاں ہاؤسوں کا استعمال دو مقاصد کے حصول کے لیے کرنے کا منصوبہ پیش کررہے ہیں۔
اول، کم زور یا دیر سے سمجھنے والے (slow learner)طلبہ کی صلاحیتوں کو اونچا اٹھانے کے لیے دوم، کلاس میں تعلیمی اور سماجی اعتبار سے ناہم واری کو دور کرنے کے لیے۔ سوم، طلبہ کے درمیان مختلف مسابقے مثلاً اسپورٹس، کوئز اور دیگر مقابلوں کے لیے۔ ان مقاصد کا حصول مندرجہ ذیل تین اہم ذرائع سے کیا جائے گا
(۱) ہم عمر گروپ کی تعلیم
(peer group learning)
تعلیمی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طلبہ اپنے ہم عمر دوستوں سے بآسانی کئی باتیں اور اصول سیکھ سکتے ہیں۔ دونوں کے باہم ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل مؤثر ہوا کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بالخصوص زبان طلبہ اپنے دوستوں کے ذریعے سیکھتے ہیں۔ زبان کے علاوہ اخلاق و عادات، پسند و ناپسند، رد عمل، احساسات و جذبات کا اظہار، ان تمام کو اکثر دوستوں سے سیکھا جاتا ہے اور اسی عمل کو peer group learning کہا جاتاہے۔ ماہرین نفسیات کی یہ رائے ہے کہ اسکول کی تعلیم (نصابی تعلیم ) کے لیے استاد کو طلبہ کی اس خصوصیت کا استعمال کرنا چاہیے۔ اب تدریسی عمل میں انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ تدریسی عمل میں’چاک اینڈ ٹاک‘ کا زمانہ ختم ہوچکا ہے۔ یعنی استاد یہ سمجھا کرتے تھے کہ پڑھانے کا مطلب لیکچر دینا اور بلیک بورڈ پر محض سوالات و جوابات لکھ دینا کافی ہوتا ہے۔ لیکن اب تدریسی عمل میں peer group learning کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
(۲) peer group learning کی طرح ایک اور عمل ہے جسے collaborative learning (باہمی تعاون کے ذریعے تعلیم) کہا جاتا ہے۔ اس لرننگ میں طلبہ ایک دوسرے کے تعاون سے نئے علم کو سیکھتے یا نئی معلومات کو دریافت کرتے ہیں۔ peer group learning میں ذہین طالب علم کم زور طالب علم کو سکھاتا ہے، جب کہ collaborative learning میں کم و بیش برابر کی ذہانت رکھنے والے طلبہ ایک دوسرے کے تعاون سے علم کو باہم سیکھتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ طلبہ بعض نکات کو استاد سے بآسانی سیکھ نہیں پاتے ہیں۔ اس لیے کہ استاد کی ذہنی استعداد طلبہ سے اونچی ہوتی ہے۔ لیکن ایک ہم عمر دوست ذہنی صلاحیتوں میں بھی کم و بیش برابر ہوتا ہے اور وہ دوست کو سکھانے کے اسلوب سے واقف ہوتا ہے۔ اس کی یہ واقفیت کسی ٹریننگ کے نتیجے میں نہیں بلکہ فطری ہوتی ہے۔
سیکھنے کے عمل کے دوران اگر استاد طلبہ کو ڈانٹتے ہیں یا غلط الفاظ کا استعمال جانے یا انجانے میں کردیتے ہیں تو طلبہ میں ذہنی تناؤ پیدا ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ استاد کے بجائے اگر دوست کچھ سخت الفاظ بول دے تو طالب علم کی نفسیات پر اتنا گہرا اثر نہیں ہوتا جتنا کہ استاد کے کہنے پر ہوتا ہے۔ اس لیے collaborative learningاور peer group learningکو آج کل اساتذہ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم اس کا عملی طریقہ پیش کررہے ہیں
ہم جانتے ہیں کہ گروپوں کا استعمال کلاس روم مینجمنٹ کے لیے بھی کیا جاتا ہے، یعنی کلاس روم میں طلبہ کو بٹھانے کا نظم کیسے ہو؟ اس کے متعدد طریقے رائج ہیں۔ پہلا یہ کہ کلاس میں ذہین طلبہ آگے کی نشستوں پر بیٹھتے ہیں اور کم زور طلبہ پیچھے بیٹھا کرتے ہیں۔ جب کہ منطق یہ کہتی ہے کہ کم زور طلبہ کو آگے بٹھایا جائے اور ذہین طلبہ کو پیچھے۔ ویسے کئی اسکولوں میں اس طرح کا سسٹم بھی رائج ہے۔ اسے ہم دوسرا طریقہ کہہ سکتے ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ طلبہ کی صفوں کی ترتیب کو بدلا جائے۔ یعنی جو طلبہ آج پہلی صف میں بیٹھے ہیں، وہ کل دوسری صف میں اور پرسوں تیسری صف میں بیٹھیں۔ اس طرح یہ تین نظام قائم ہیں۔ ’گروپ سسٹم‘ ایک چوتھا نظام بھی پیش کرتا ہے جسے ہم آگے بیان کررہے ہیں۔
اس سے قبل ہم یہ بیان کردیں کہ گروپ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے مقابلہ جات اور مختلف مسابقات منعقد کیے جاتے ہیں۔اسکول یا کلاس روم کے مختلف انتظامی و انصرامی امور بھی ان گروپوں کو سونپے جاتے ہیں۔ اسکول میں منعقد ہونے والے مختلف پروگراموں کے انتظام میں بھی ان گروپوں کی مدد لی جاتی ہے۔ مختلف کاموں کو تفویض کرنے کے لیے یہ گروپ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔نیز مندرجہ بالا مقاصد کے علاوہ بھی ہاؤس گروپوں (houses groups) کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اب آئیے اس پہلو پر غور کریں کہ ہاؤس کس طرح بنائے جانے چاہییں؟ درج بالا مقاصد کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل طریقے کو اختیار کیا جاسکتا ہے
اس مرحلے کو واضح کرنے سے قبل ہم ایک مطالعہ (study) پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس مطالعے نے یہ واضح کیا ہے کہ ہر جماعت میں عموماً 10 تا 15 فی صد طلبہ ذہین ہوتے ہیں۔ 60 تا 70 فی صد طلبہ اوسط درجے کے اور 15 سے 20 فی صد کم زور ہوتے ہیں۔ گروپوں کو ترتیب دینے سے پہلے استاد اپنی کلاس کے طلبہ کو مندرجہ ذیل تین زمروں (categories) میں بانٹ دیں۔ (1) ہیگ (HAG) یعنی (high academic group) یا (high acceptance group) یعنی ایسے طلبہ جو تعلیمی اعتبار سے بہتر اور ذہین ہوتے ہیں۔(2) میگ (MAG) یعنی (medium academic group) یا (medium acceptence group)۔ اس گروپ میں اوسط درجے کے طلبہ ہوتے ہیں۔ (3) لیگ (LAG) یعنی (low academic group)۔ یعنی ایسے طلبہ جو تعلیم اور ذہانت کے اعتبار سے کم زور ہوتے ہیں۔اساتذہ مختلف انداز سے بچوں کی جانچ کرکے طلبہ کو ان تین حصوں میں تقسیم کریں۔ درجہ بندی کے لیے طلبہ کی کلاس میں کارکردگی، ان کے گذشتہ امتحانات کے ریکارڈ یا پھر طلبہ کی دل چسپیاں، وغیرہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے درجہ بندی کا عمل اختیار کیا جائے۔ اور ہاں، اس درجہ بندی کا علم صرف اساتذہ کے پاس ہو۔ کون سا طالب علم کس زمرے میں ہے؟ یہ بات طلبہ کو نہیں بتانی چاہیے۔اس سے ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس عمل کو کلاس ٹیچر خود انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ دو تین استاد باہمی مشاورت سے طلبہ کی درجہ بندی کریں۔ یاد رہے کہ اس درجہ بندی کا پورا ریکارڈ خفیہ ہو۔ درجہ بندی کے بعد اب آپ ہاؤس بنانے کا عمل شروع کریں۔ فرض کیجیے کہ آپ درجہ پنجم کے لیے ہاؤس کی تشکیل کررہے ہیں جس میں کل طلبہ کی تعداد 40 ہے۔ مناسب ہوگا کہ آپ پوری کلاس میں پانچ گروپ بنائیں، یعنی ہر گروپ میں 8 طلبہ ہوں گے۔ ان 8 طلبہ کا انتخاب اس طرح ہو کہ کم سے کم ایک ذہین طالب علم، ایک یا دو کم زور طلبہ اور پانچ اوسط درجے کے طلبہ ہوں تو اس طرح ہر گروپ میں با صلاحیت طلبہ موجود ہوں گے۔ ذہین طالب علم، اوسط طلبہ کی اور وہ کم زور طلبہ کی مدد کریں گے۔
کم زور طلبہ اوسط طلبہ سے سیکھیں گے اور اپنی صلاحیتیں بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ اسی طرح اگر ہر ہاؤس میں تینوں زمروں کے طلبہ ہوتے ہیں توپھر’peer group learning‘ اور’collaborative learning‘ کے ذریعے طلبہ کا معیار بلند ہوگا۔ اس طرح کی گروپ سازی کے بعد کلاس روم مینجمنٹ میں بھی مدد ملے گی۔ اب ہدایت یہ دی جائے کہ ہر گروپ ایک ہی صف میں یا ایک ہی ساتھ بیٹھے گا۔ ہاؤسوں کا تعین آپ کلاس روم کی تعداد اور ہر صف میں بٹھائے جانے والے طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے طے کرسکتے ہیں۔ بعض انٹرنیشنل اسکولوں میں ہر مضمون کے اعتبار سے طلبہ کے علاحدہ علاحدہ گروپ ہوتے ہیں، اس لیے کہ ایک طالب علم ریاضی میں کم زور طلبہ کے زمرے میں آسکتا ہے تو وہی طالب علمزبان کے مضمون میں ذہین طلبہ کے زمرے میں شامل ہوسکتا ہے۔ بہر حال کلاس ٹیچر اپنی سہولت اور صواب دید کے اعتبار سے ہاؤسوں کی تشکیل کرسکتے ہیں۔
’اے آئی سی یو‘ میں جب ہم گروپ بناتے ہیں تو اس وقت بھی اوپر بیان کیے گئے طریقۂ کار کو ملحوظ رکھا جائے تو’ اے آئی سی یو‘کی اثر پذیری زیادہ بہتر ہوگی۔ ہاؤسوں کے اس عمل کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے مصنف کے متعلقہ موضوع پر دیے گئے لیکچر کو اس یوٹیوب لنک پر دیکھا جاسکتا ہے

(نوٹ: یہ مضمون اور اس کی آنے والی قسطیں ایک کتابچہ کی شکل میں دستیاب ہیں جسے قارئین دعوت 9844158731پر اپنا پتہ واٹس ایپ کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔قارئین دعوت کے لیے کتاب کی قیمت میں خاص رعایت رکھی گئی ہے)
***

 

***

 ’اے آئی سی یو‘کے دوران کبھی طلبہ کو نچلی کلاسوں میں نہ بٹھائیں بلکہ’اے آئی سی یو‘ کے لیے علاحدہ کلاس روم کا بندوبست کریں۔بعض اساتذہ یہ سوال کرتے ہیں کہ’ اے آئی سی یو‘کے دوران بچے اپنے ریگولر نصاب سے محروم ہوجائیں گے۔ ہمارا ان سے یہ کہنا ہے کہ’ اے آئی سی یو‘کے طلبہ کی ٹریننگ اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ وہ طلبہ ریگولر کلاس کے نصاب تک پہنچ نہ جائیں۔ جب وہ اپنی کلاس کے نصاب تک پہنچ جائیں تو دوسرے دن سے انھیں ان کی کلاس میں بٹھایا جائے۔ اب وہ طالب علم اپنی جماعت کے نصاب کو پوری طرح سمجھنے کے قابل ہوگا لہٰذا کلاس میں اس کی کارکردگی بہتر ہوگی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 فروری تا 25 فروری 2023