مسئلہ فلسطین کا دائمی حل امن عالم کے لیے بے حد اہم

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ سینئر صحافی ارمیلیش سنگھ کی خاص بات

اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی پر فضائی بمباری اور حماس کی جانب سے اسرائیل میں راکٹ داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حملوں میں اب تک دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں سے قریب ساٹھ بچے ہیں۔ تیرہ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ پر ہفت روزہ دعوت کے صحافی افروز عالم ساحل نے ملک کے مشہور اور سینئر صحافی ارمیلیش سے خاص بات چیت کی۔ پیش ہے اس اہم گفتگو کے کچھ خاص اقتباسات۔

موجودہ حالات میں فلسطین اسرائیل تنازعہ کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

اس وقت جو حالات بنے ہیں وہ بہت افسوسناک ہیں اور یہ حالات ایسے وقت پیدا ہوئے ہیں جب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو پر وہاں کی سیاست میں بہت دباؤ ہے اور بہت سے سارے چیلنجز بہت تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ یروشلم کے مشرقی علاقہ میں جہاں اس طرح کے بہت سارے واقعات اس سے قبل بھی پیش آچکے ہیں اسرائیلی انتظامیہ نے وہاں رہنے والے فلسطینیوں کو جنہیں پہلے ہی دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے، ہر حال میں بھگا کر اسرائیل پورے علاقے کو اپنے قبضے میں کرلینا چاہتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کے علاقے میں جو اشتعال انگیزی ہوئی یا یوں کہا جائے کہ جو یکطرفہ واردات ہوئی، مجھے لگتا ہے کہ اس کے پیچھے اسرائیل انتظامیہ کا ضرور کوئی نہ کوئی منصوبہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ منصوبہ اعلیٰ سطح پر بنایا گیا ہو۔

انٹرنیشل کمیونٹی کے رول پر کیا کہیں گے؟

انٹرنیشل کمیونٹی خاص کر امریکہ (کیونکہ مانا جاتا ہے کہ اسرائیل جو بھی کرتا ہے وہ امریکہ کی سرپرستی میں کرتا ہے) نے اگر صحیح ڈھنگ سے مداخلت کی ہوتی تو آج ایسے حالات نہیں بنتے۔ پروشلم کے مشرقی علاقے کے معاملے پر ۱۹۶۷ کے دور سے ہی ایک انڈر اسٹینڈنگ تھی کہ اسرائیل اس پر کچھ نہیں کرے گا، اس کے باوجود اسرائیل کی نظر اس پر ہمیشہ سے رہی۔ یہی نہیں، اس نے فلسطین کے کئی علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے جو کہ ایک ناجائز قبضہ ہے۔ اگر یونائیٹیڈ اسٹیٹ کی شرکت یہاں امن بحالی میں ہوتی تو مجھے لگتا ہے کہ یہ نوبت پیدا نہیں ہوئی ہوتی۔ اب اس میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ حالات جو پیدا ہوئے ہیں پوری دنیا کے لیے بیحد ہی افسوسناک ہیں۔ میڈیا میں آئی رپورٹوں کے مطابق غزہ میں ابھی تک ۲۰۰ سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں خود اسرائیلی وزیر خارجہ نے یہ تسلیم کیا کہ جو فلسطینی مارے گئے ہیں، ان میں عام شہری، بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جس کا انہیں دکھ ہے۔ یعنی اسرائیلی حکومت مانتی ہے کہ اس کے حملے میں عام شہری اور بے گناہ معصوم مارے گئے ہیں۔ اگر عام شہری مارے گئے ہیں اور یہ علانیہ جنگ نہیں تھی تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ صرف ہیومن رائٹس کی پامالی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی پامالی ہے۔

تو کیا انٹرنیشنل کمیونٹی کو کچھ نہیں کرنا چاہیے؟

اس بار جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے وہ صاف ہے۔ ایسے میں انٹرنیشنل کمیونٹی کی کوشش ہر حالت میں فلسطین-اسرائیل کے درمیان مستقل طور پر امن کی بحالی کے لیے ہونی چاہیے۔ اس کے بہت سارے فارمولے ہیں۔ جو فارمولہ اقوام متحدہ میں کئی بار پیش کیا جا چکا ہے، جس پر زیادہ تر ممالک کی اتفاق رائے رہی ہے اس فارمولے کو آگے بڑھایا جانا چاہیے اور اسرائیل نے جو بھی ناجائز قبضے کیے ہیں اس کو ہر حال میں ہٹایا جانا چاہیے۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ امریکہ میں جو، جو بائیڈن حکومت آئی ہے وہ خود کو ٹرمپ حکومت سے زیادہ بہتر مانتی ہے۔ پارٹی بھی دونوں کی الگ الگ ہے۔ اس کے لیے ایک موقع بھی ہے اور جمہوریت کا تقاضہ بھی ہے فلسطینی قوم جسے بہت ستایا جا رہا ہے اس کا ساتھ دیں۔ میں فلسطینیوں کو مذہب، ذات یا برادری کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ ایک قوم کے طور پر دیکھتا ہوں۔

ہندوستان میں ایک خاص نظریے کے لوگ خود کو اسرائیل کے ساتھ کھڑا کر کے دیکھ رہے ہیں، حالانکہ اس میں حزب مخالف پارٹیوں کے کارکن بھی شامل ہیں، اس پر آپ کیا کہیں گے؟ کیونکہ ہندوستان شروع سے فلسطین کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔

ہندوستان کی جو پوزیشن اقوام متحدہ میں ہے، میرے لیے وہ اہم ہے۔ ہندوستان کی مرکزی حکومت کا رول بھلے ہی بہت فعال نہ ہو لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسی حکومت نے امن بحالی کی بات کی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کے ساتھ خود کو کھڑا کر کے دیکھنے والے ایسے عناصر کو اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان کی روایتی طور پر جو پوزیشن ہے اسے یہاں کی مرکزی حکومت یا یہاں کی حکمران جماعت یا کسی بھی سیاسی پارٹی کو خارجی معاملوں پر برقرار رکھنا چاہیے۔

مگر موجودہ حکومت کے اس دور میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان کے اسرائیل سے رشتے بہتر ہوئے ہیں۔

اگر اسرائیل کے ساتھ رشتوں کی بات ہے تو یہ ۱۹۹۲ء میں پی وی نرسہما راؤ کے وقت ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ یہ ایک لمبا سلسلہ ہے، جہاں تک اس کے جائز و ناجائز کا سوال ہے تو وہ ایک بالکل الگ موضوع ہے، اور آج کا فلسطین اسرائیل تنازعہ ہے اس سے اس کا اتنا رشتہ نہیں ہے۔

لیکن موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کئی بار اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر آئے، چاہے وہ نیتن یاہو سے ملاقات ہو یا پھر ۲۰۱۷ء میں اسرائیل جانے کی بات ہو۔

فلسطین اسرائیل کا جو موجودہ تنازعہ ہے اس سے یہ بالکل الگ ایشو ہے۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کی جو پوزیشن ہے اس کو ایک آفیشیل اسٹینڈ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ فلسطین میں امن بحالی اور تشدد ختم کرنے کی بات پر ہندوستان کا موقف واضح رہا ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ اسٹینڈ ہمیشہ برقرار ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو۔

ایک طرف ہماری حکومت فلسطین کی حمایت میں کھڑی نظر آرہی ہے، وہیں دوسری جانب کشمیر میں فلسطین کے حق میں گرافٹی بنانے، تقریر کرنے یا اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں اس پر آپ کیا کہیں گے؟

ملک کے ہر شہری کو اپنے خیالات کے اظہار کا پورا حق ہے۔ اگر پر امن طریقے سے کوئی اپنی بات کرنا چاہتا ہے تو اسے ضرور کہنا چاہیے۔ میں یہ نہیں جانتا کہ ان کو کس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، لیکن وبا کے نام پر بہت ساری جگہوں پر وبائی امراض ایکٹ ۱۸۹۷ کے تحت گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ لوگوں کو پر امن طریقے سے اپنی بات کہنے کا حق ہے، بشرطیکہ کسی قانون کی پامالی نہ ہو، کیونکہ قانون کی پامالی کرنے پر جو ایڈمنسٹریٹو ایجنسی ہے، ان کو ایک موقع مل جاتا ہے۔

تو پھر ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟

میں بالکل بھی نہیں مانتا کہ فلسطین-اسرائیل کا سوال مسلمانوں کا سوال ہے۔ یہ اسلام کا سوال بھی نہیں ہے۔ اسلامی ممالک بھلے ہی اس میں پیش پیش رہتے ہیں، لیکن بطور صحافی میرا ماننا ہے کہ یہ کسی مذہب کا سوال نہیں ہے یہ یہودیوں کا سوال بھی نہیں ہے بلکہ یہ ایک انٹرنیشنل سوال ہے انسانیت کا سوال ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے میں اس سوال کو ہی مناسب نہیں سمجھتا بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہندوستانی عوام اور یہاں کے نظام کو کیا کرنا چاہیے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت کا تقاضا ہے کہ فلسطین کی عوام اس معاملے میں جائز ہیں۔ اس کے باوجود میں حماس کی سیاست اور ان کے طور طریقوں سے اتفاق نہیں رکھتا، لیکن میرا ماننا ہے کہ اس معاملے میں اسرائیل بڑا گنہ گار ہے۔

اس مسئلے کا حل آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

میں کوئی ایکسپرٹ نہیں ہوں کہ کوئی نیا فارمولہ دوں اور فارمولوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ انہی میں سے بہتر فارمولے کی روشنی میں کام ہونا چاہیے کیونکہ اس کا مکمل حل عالمی امن کے لیے بیحد ضروری ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ میں تین ملک تیونس، ناروے اور چین نے ایک زبردست پہل کی ہے۔ یہ تینوں ملک الگ الگ ڈھنگ کے ہیں، لیکن انہوں نے جو پہل کی ہے وہ بہت اہم ہے۔ ان کے لیڈروں نے باقاعدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد پوری دنیا کے سامنے ایک پریس کانفرنس کی۔ یہ الگ بات ہے کہ انڈین میڈیا نے اسے ٹھیک سے‌نہیں دکھایا۔ میرا ماننا ہے کہ اس طرح کی پہل کا استقبال ہونا چاہیے اور امریکہ پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنے ویٹو کا بیجا استعمال نہ کرے جیسا کہ وہ ماضی میں کر چکا ہے۔ اس بار اگر امریکہ غلطی نہیں کرتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہو گی کہ فلسطین-اسرائیل کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا اور یہ پوری دنیا کے لیے ایک آئیڈیل ہو گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021