لڑکیاں بن رہی ہیں ’سائبر جنسی تشدد‘ کی شکار، پولیس ایکشن لینے میں ناکام!
International Day for the Elimination of Violence against Women کے موقع سے ہفت روزہ دعوت کی ایک خصوصی رپورٹ۔۔۔
افروز عالم ساحل
ایک خاص نظریے و ذہنیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ذریعہ سوشل میڈیا پر مسلم لڑکیوں کو نشانہ بنانے کی کئی کہانی سامنے آچکی ہے۔ ان کے نشانے پر پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی مسلم لڑکیاں بھی ہیں۔ انہی لڑکیوں میں سے ایک جرنلسٹ ثانیہ احمد بھی ہیں، جنہیں ان کے ’سائبر جنسی تشدد‘ کا شکار ہونا پڑا ہے۔
ہفت روزہ دعوت کے نمائندہ افروز عالم ساحل سے خاص بات چیت میں دہلی کے انڈیا ٹوڈے گروپ میں کام کرنے والی ثانیہ احمد بتاتی ہیں، ’اگست مہینے میں ٹویٹر پر میں نے اچانک دیکھا کہ ایک اکاؤنٹ پاکستانی لڑکیوں کی بولی لگا رہا ہے اور مسلم لڑکیوں کے بارے میں کافی گندی باتیں لکھی جا رہی ہیں۔ میں نے اس اکاؤنٹ کو رپورٹ کرتے ہوئے اس بارے میں ٹویٹر پر لکھا تاکہ لوگ اس اکاؤنٹ کو رپورٹ کر سکیں۔ لیکن اس اکاؤنٹ کا تو کچھ ہوا نہیں، بلکہ الٹا وہ میرے پیچھے پڑ گئے۔ ان کا ایک پورا نیٹ ورک ہے اور ان کا کام سوشل میڈیا پر مسلم لڑکیوں کو ٹارگیٹ کرنا ہے۔ یہ ان کی بولی لگاتے ہیں۔ اس نیٹ ورک نے میرے خلاف بھی وہی سب کچھ کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مجھے اور میری دوست ثانیہ سید کو لے کر ایک پول چلایا۔ ہمارے بار بار رپورٹ کرنے کے بعد بھی ٹویٹر پر یہ پول پورے 24 گھنٹے چلا۔ اس پول میں ان کا سوال تھا کہ ان میں کس کو حرم میں رکھنا چاہو گے؟ اس کے نیچے بہت ہی زیادہ بیہودہ کمنٹ تھے۔ عصمت دری سے لے کر سر کاٹنے تک کی بات کی گئی تھی۔۔۔‘
اس کے بعد آپ نے کیا کیا اور کیا ہوا؟ اس سوال پر ثانیہ بتاتی ہیں کہ آن لائن سائبر سیل پر میں نے اس کی شکایت درج کرائی۔ پھر سائبر سیل کے نمبر پر کال کر کے اس کی شکایت کی۔ میں نے دیکھا کہ اس طرح کے معاملوں میں سائبر سیل کے لوگ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔ الٹا انہوں نے مجھ سے ہی سوال کرنا شروع کر دیا کہ آپ نے سوشل میڈیا پر تصویر کیوں ڈالی؟ پبلک میں تو کوئی بھی آپ کی تصویر اٹھا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اس کے بعد انہوں نے کچھ نہیں کیا؟ جی نہیں! اس کے بعد انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ آج تک انہوں نے کوئی انکوائری نہیں کی۔ آج تک مجھ سے بھی کچھ نہیں پوچھا گیا ہے۔
ثانیہ کہتی ہیں کہ اب میں ٹویٹر کو نوٹس بھیجوں گی، کیونکہ یہ سب کچھ ٹویٹر پر چل رہا ہے۔ یہ ٹویٹر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے اکاؤنٹس پر لگام لگائے۔ ان کے خلاف ایکشن لے اور قانون کارروائی کرے۔
سواتی کھنہ بھی بن چکی ہیں شکار
سوشل میڈیا پر صرف مسلم لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ حق کا ساتھ دینے والی وہ انصاف پسند لڑکیاں بھی ’سائبر جنسی ہراسانی‘ کا شکار ہو رہی ہیں جو سوشل میڈیا پر پورے حق کے ساتھ اپنی بات رکھ رہی ہیں۔ انہی میں ایک سواتی کھنہ بھی ہیں جو شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہروں کا ایک نمایاں نام رہا ہے ۔ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں دہلی یونیورسٹی کی طالبا سواتی کھنہ بتاتی ہیں کہ میرے خلاف بھی جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے دو معاملوں میں پولیس نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پولیس اس طرح کے معاملے کو سنجیدگی سے لیتی ہی نہیں ہے۔
آپ کو بتا دیں کہ سواتی کھنہ کے ساتھ پہلا معاملہ دسمبر 2019 میں پیش آیا تھا جب وہ جھارکھنڈ کے تبریز انصاری کی لنچنگ کو لے کر دہلی کے جنتر منتر پر منعقد مظاہرے میں شامل ہوئی تھیں۔ راقم الحروف نے ان کی تصویر اور ویڈیو بنائی تھی جو سوشل میڈیا پر پورے ملک میں وائرل ہوئی تھی۔ جس کے بعد ایک خاص ذہنیت کے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف طرح طرح کی باتیں لکھیں۔ انہیں سواتی نہیں، بلکہ صبیحہ خان جیسے نام سے پکارا گیا۔ تب سواتی کھنہ نے ان کے خلاف شکایت درج کرائی تھی۔
سواتی کھنہ بتاتی ہیں کہ اس وقت یہ مہم بی جے پی آئی ٹی سیل نے چلائی تھی۔ انہوں نے اس معاملے میں پولیس کو تین سو سے زائد اسکرین شاٹ دیے تھے، جن میں ان کے خلاف طرح طرح کی باتیں تھیں۔ سواتی کھنہ کہتی ہیں کہ دلی پولیس نے میری شکایت کو اپنی جانچ میں صحیح پایا اور اسے فیس بک انڈیا کو بھیجا، لیکن فیس بک نے آج تک کچھ نہیں کیا۔ آج بھی وہ سارے پوسٹ فیس بک پر موجود ہیں۔ اور میں نے اب تک یہی محسوس کیا ہے کہ پالیٹیکل معاملوں میں فیس بک مسلسل اپنی من مانی کر رہا ہے۔
وہ آگے بتاتی ہیں کہ میرے دوسرے معاملے میں تو پولیس نے اپنی سطح پر ہی کچھ نہیں کیا، اب میں اس کی شکایت دہلی ویمن کمیشن سے کروں گی۔ آپ کو بتا دیں کہ مارچ 2020 میں دبئی میں موجود ایک ہندوستانی شیف ترلوک سنگھ نے سواتی کھنہ کو جسم فروش بتاتے ہوئے دلی آ کر ’عصمت دری کرنے اور تیزاب سے حملہ‘ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ کیونکہ سواتی کھنہ ان دنوں سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر نہ صرف شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کر رہی تھیں، بلکہ مودی حکومت کو تقسیم کرنے والی پالیسیوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں۔ تب سواتی کھنہ دلی یونیورسٹی کے لا فیکلٹی کی طالبہ تھیں۔
سواتی کھنہ نے ترلوک سنگھ کی اس دھمکی کے بعد اس معاملے پر ٹویٹر کو لکھا، وہیں ایک ٹویٹ کر کے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں موجود ہندوستانیوں سے اپیل کی کہ اگر وہ انتہا پسند نہیں ہیں تو وہ مذکورہ شخص کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے سمیت دبئی حکام سے شکایت کریں۔ اس ٹویٹ کے بعد گلف نیوز نے اس پورے معاملے کو اٹھایا جس کے بعد ترلوک سنگھ کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد سواتی نے دلی میں بھی اپنی شکایت درج کرائی تاکہ ترلوک سنگھ دلی آکر اسے تنگ نہ کر سکے۔
ایک طویل گفتگو میں سواتی کھنہ کہتی ہیں کہ ذرا ان کا سوچیے، جو عام لڑکیاں ہیں، ان کیا ہو گا۔ سوچیے کہ جن لڑکیوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال کر بولیاں لگائی گئیں یا ان کے بارے میں فحش باتیں کی گئیں ان کے گھروں میں کیا ہوا ہو گا، کم از کم ان کے ماں باپ نے انہی کو ڈانٹا ہو گا۔ یہ ان لڑکیوں کے ساتھ ایک الگ طرح کی ہراسانی ہے۔ لڑکیاں جو سماج کی بندشوں میں قید تھیں، کچھ ہمت کر کے آگے آئی تھیں لیکن سماج کے اوباش طبقے کی ان حرکتوں کی وجہ سے وہ ڈر کر پھر واپس اسی جگہ پہنچ رہی ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ہندوستان میں جو لوگ بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، بی جے پی آئی ٹی سیل کے لوگ ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ دراصل ان کی سوچ ہی یہی ہے کہ لڑکیاں خاموش رہ کر صرف گھروں میں قید رہیں، زیادہ پڑھ لکھ کر آگے آنے کی کوشش نہ کریں۔ کسی مرد یا حکومت کے خلاف نہ بولیں۔
سواتی کھنہ کہتی ہیں کہ ’جب پہلی بار میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوا تو میں بھی چپ ہو گئی تھی مگر پھر میں نے سوچا کہ اگر میں ابھی چپ ہو گئی تو مستقبل میں کوئی بھی لڑکی نکل کر سامنے نہیں آئے گی، اور ہراساں کرنے والے بھی یہی چاہتے ہیں، پھر تو وہ دھیرے دھیرے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے‘۔
خواتین پولیس بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں قانون و کریمنولوجی کی ماہرہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سروجنی نائیڈو سنٹر فار وومن اسٹڈیز سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ترنم صدیقی کہتی ہیں، جب کشمیر میں دفعہ 370 ہٹا، تب بھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ سوشل میڈیا پر وہاں کی لڑکیوں کے بارے میں کیا کیا لکھا گیا۔ حتیٰ کہ عورتوں نے عورتوں کو نشانہ بنایا، گانے بنائے، ’میرا بھیا، وہاں سے شادی کرکے لڑکی لائے گا۔۔۔‘ اور نہ جانے کیسی کیسی نازیبا باتیں کہی گئیں۔ اس وقت بھی وہاں کی لڑکیوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر خوب شیئر ہوئیں، کھلے عام گندے الفاظ کا استعمال کیا گیا اور ان کی بولیاں تک لگائی گئیں۔ تب بھی اس ملک کے قانون کے رکھوالوں کے ساتھ ملک کا انصاف پسند طبقہ بھی خاموش ہی رہا۔ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اب یہی لوگ ملک کی دیگر ریاستوں کی اقلیتی لڑکیوں کو بھی نشانہ بنار رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ نفرت کے اس ماحول میں اگر کوئی غیر مسلم لڑکی بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ بھی سوشل میڈیا پر الٹی سیدھی باتیں کہی جاتی ہیں۔ سچ کہیں تو پورے ملک میں یہ ایک طرح کا مائنڈسیٹ بن چکا ہے۔ کوئی بھی لڑکی حکومت پر کسی بھی طرح کی تنقید کر رہی ہے تو ایک مخصوص گروپ اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس طرح کے زیادہ تر معاملات میں پولیس کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی تو انہوں نے کہ ہماری ملک کی پولیس تو عصمت دری تک کے معاملات میں بھی سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ اور اس طرح کے معاملوں کو تو وہ کرائم ہی نہیں سمجھتی۔ دراصل ان کے پورے کیریئر میں ان کی ایسی کوئی ٹریننگ ہی نہیں ہوئی کہ وہ خواتین کے معاملوں میں حساس ہوں، اور وہ سمجھ سکیں کہ یہ کتنا بڑا اور خطرناک جرم ہے جو خواتین کی پوری زندگی کو خراب کر سکتا ہے۔ وہیں پولیس کے محکمہ میں خواتین کی تعداد بھی کافی کم ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ پولیس کا حال یہ ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والی خواتین پولیس بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ آئے دن ہم لیڈی پولیس کے ساتھ جنسی زیادتی، چھیڑ چھاڑ یا زنا کے معاملے سنتے رہتے ہیں، جبکہ زیادہ تر معاملے دبا دیے جاتے ہیں یا وہ خاتون پولیس اہلکار خود بھی سماج اور گھر کی مجبوریوں کے آگے بے بس ہو جاتی ہے۔ دراصل ہمارے سماج میں مردوں کی ٹریننگ ہی ایسی ہوئی ہے کہ ان کو ہر جگہ مردانگی دکھانی ہے۔
تو پھر کرنا کیا چاہیے؟ اس پر ترنم صدیقی کہتی ہیں کہ ہمیں اپنا مائنڈسیٹ تبدیل کرنا ہو گا۔ مردوں سے زیادہ عورتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے گھر پر مردوں کو حساس بنائیں تاکہ وہ گھر کے باہر بھی عورتوں کی عزت کرنا سیکھیں۔ اگر آج ہم نے اپنے گھر کے مردوں کو حساس نہیں بنایا تو خطرہ ہے کہ کل ہمارے گھر بھی زد میں آئیں گے پھر کسی گھر میں کوئی خاتون شاید ہی محفوظ رہ پائے۔
بتادیں کہ سال 2019 میں پورے ملک میں خواتین کے خلاف سائبر کرائم کے کل 8379 معاملے درج ہوئے ہیں۔ جس میں صرف 2551 معاملوں میں چارج شیٹ داخل کی گئی اور محض 51 معاملوں کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ ان 51 معاملوں میں 3694 فرد کی گرفتاری ہوئی اور ان میں 3195 فرد کے خلاف چارج شیٹ داخل کیا گیا۔ اور ان میں صرف 70 فرد مجرم قرار دیئے گئے۔
آن لائن کلاس کے بعد معصوم لڑکیوں کو کیا جارہا ہے ہراساں
کورونا وائرس کے سبب ہوئے لاک ڈاؤن کے بعد ابھی بھی آن لائن ذرائع سے تدریسی عمل جاری ہے۔ لیکن آپکو جان کر حیرانی ہوگی کہ ہمارے ملک میں یہ آن لائن کلاسیز بھی بچیوں کے لئے محفوظ جگہ نہیں ہے۔
ہفت روزہ دعوت کے اس نمائندے کو بہار کے مختلف شہروں سے ایسی شکایت موصول ہوئیں، جس میں آن لائن کلاسیز کے بعد کم عمر کی معصوم بچیوں کو ہراساں کیا جارہا تھا۔ ٹارگیٹ پر دسویں و گیارہویں کلاس کی طالبہ زیادہ ہیں۔
دسویں جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک لڑکی بتاتی ہے کہ آن لائن کلاس کے خاتمے کے بعد اس کے پاس طرح طرح کی فون کال اور میسیز آنے لگتے ہیں۔ گھر میں صرف میری والدہ ہیں، جو پڑھی لکھی نہیں ہیں، اس لئے میں ان کو یہ بتانا مناسب بھی نہیں سمجھتی، کیونکہ اس کی وجہ سے وہ مزید پریشان ہوجائنگی اور پڑھائی چھوڑ دینے کا دباؤ ڈالیں گی۔ سچ کہوں تو میں اب ان میسیجیز اور کالز سے ذہنی طور پر پریشان ہوں۔ اب تو کلاس کے لئے بھی فون ہاتھ میں لینے سے ڈر لگتا ہے۔
یہ صرف اسی لڑکی کے ساتھ نہیں ہورہا ہے۔ بلکہ اس کی خاص سہیلی بھی اس کا شکار ہے۔ وہ بھی بتاتی ہے کہ اب میرے والدین بھی ان غنڈے لڑکوں کے میسیجیج اور فون کالوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔
ہفت روزہ دعوت کے اس نمائندے نے جاننے کی کوشش کی کہ لاتعداد لڑکیوں کے ساتھ اچانک ایسے واقعات کیوں پیش آ رہے ہیں۔ بہت سی لڑکیوں سے بات کرنے کے بعد یہ سمجھ میں آیا کہ آن لائن کلاسیز کی وجہ سے ان بچیوں کا نمبر کلاس میں شامل دوسرے لڑکوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ وہ لڑکے بھی کلاس میں شامل ہوتے ہیں، جو اس کلاس یا اس اسکول کے طالب علم نہیں ہوتے۔ لڑکے وہاں سے نمبر لیتے ہیں اور ان بچیوں کو ہراساں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بہار کے ضلع مغربی چمپارن اور مظفرپور میں بچیاں اس کی شکایت اسکول میں کرچکی ہیں، لیکن اس پر ابھی تک کچھ خاص کم نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہاں کے اخباروں میں یہ کہانی بھی آچکی ہے کہ صرف یہ معصوم بچیاں ہی نہیں، بلکہ انہیں پڑھانے والی نوجوان ٹیچرز بھی اس طرح کے پریشانیوں سے دوچار ہیں۔
دنیا کی 58 فیصد سے زیادہ خواتین آن لائن ہراساں کی شکار
دنیا بھر میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والی 58 فیصد سے زیادہ لڑکیاں سائبر حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔ یعنی ان کو سوشل میڈیا پر کسی نہ کسی طرح کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ انکشاف گزشتہ اکتوبر مہینے میں دنیا کے متعدد ملکوں میں بڑے پیمانے پر کیے جانے والے ایک سروے میں ہوا ہے۔
یہ سروے بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم ‘پلین انٹرنیشنل’ نے کرایا تھا، جس کے دفاتر دنیا کے 71 ممالک میں قائم ہیں۔ اس سروے میں 22 ملکوں کی 15 سے 25 سال کی عمر کی 14 ہزار لڑکیوں کو شامل کیا گیا تھا۔
اس سروے سے یہ بھی پتا چلا کہ لڑکیوں و نوجوان خواتین کو صرف جنس کے ناطے ہی نہیں بلکہ ان کی نسل اور شناخت کی بنیاد پر بھی ہدف بنایا گیا۔ اس سروے میں ایک تہائی کا تعلق نسلی اقلیت سے تھا۔
بتا دیں کہ سال 2018 میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ خواتین کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون بنائیں تاکہ وہ آزادی اظہار کا اپنا حق استعمال کر سکیں۔ دنیا کے کئی ممالک نے آن لائن ہراساں کرنے کو سائبرکرائم کا درجہ دیتے ہوئے اس کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔
اگر کوئی سوشل میڈیا پر ہراساں کرے تو انہیں کیا کرنا چاہیے؟
اس سوال پر سواتی کھنہ کہتی ہیں کہ ہر ضلع میں پولیس کا ایک آن لائن ای پورٹل ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اپنی پوری شکایت لکھ کر ثبوت یعنی اسکرین شاٹ کے ساتھ وہاں ڈالیں۔ اس کے بعد خود پولیس اسٹیشن جا کر اس پورے معاملے کی شکایت کی کاپی پولیس کو دیں، جس سے کہ آپ کی شکایت پولیس ڈائری میں آجائے، تاکہ کل کو کچھ بھی غلط ہو، تب آپ بتا سکیں کہ آپ نے پولیس سے شکایت کی تھی، لیکن پولیس نے کچھ نہیں کیا۔ یعنی آپ پولیس پر liabalities ڈال سکتے ہیں۔ اگر آگے چل کر وہ لڑکا کچھ کر دیتا ہے تو پوری ذمہ داری پولیس پر آئے گی۔ پھر پولیس بھی حرکت میں رہنے لگے گی۔
اگر سوشل میڈیا پر کسی لڑکی کی تصویر شیئر کر کے کوئی نازیبا الفاظ کا استعمال کرتا ہے تو اس کے متعلق کیا قانون ہے؟ اس سوال پر ڈاکٹر ترنم صدیقی کہتی ہیں کہ یہ ایک سائبر کرائم ہے اور ملک میں اس وقت اس میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ کہنے کو ملک کے کئی بڑے شہروں میں سائبر تھانے کھولے گئے ہیں، اضلاع میں سائبر سیل قائم کیا گیا ہے جہاں ان معاملوں کی سنوائی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ملک کی پولیس کا جو حال ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ حالانکہ پولیس آئی ٹی ایکٹ کے ساتھ ساتھ انڈین پینل کوڈ یعنی آئی پی سی کی دفعات کے تحت بھی معاملہ درج کر سکتی ہے۔ان کے مطابق آئی ایکٹ 2000 میں نقالی کے ذریعہ دھوکہ دہی (سیکشن 66 ڈی) رازداری کی خلاف ورزی (دفعہ 66 ای) الیکٹرانک شکل میں فحش مواد کی اشاعت یا ترسیل (دفعہ 67) الیکٹرانک شکل میں جنسی حرکتوں پر مشتمل مواد کی اشاعت یا ترسیل وغیرہ (دفعہ 67 اے) الیکٹرانک فارم جنسی حرکتوں وغیرہ میں بچوں کی عکاسی کرنے والے مواد کی اشاعت یا ترسیل (دفعہ 67 بی) میں سزا مقرر ہے۔ آئی ٹی ایکٹ کے تحت کسی لڑکی کی تصویر بغیر اس کی اجازت کے شیئر یا پوسٹ کرنے، فحش تصویر اپلوڈ کرنے اور قابل اعتراض یا جارحانہ کمنٹ کرنے پر تین سال سے سات سال تک کی سزا ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن میں نے پایا کہ اس طرح کے کرائم رجسٹر نہیں ہوتے۔
ان دفعات کے تحت درج کرا سکتے ہیں اپنی شکایت
اس طرح کے معاملوں میں آئی ایکٹ کے ساتھ ساتھ آپ انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دفعہ 354، 354C، 354 D، 503، 507 اور 509 کے تحت اپنی شکایت درج کرا سکتے ہیں۔
یہ آپشن بھی ہے موجود
اس طرح کے معاملوں سے نمٹنے کے لئے وزارت برائے خواتین و اطفال کی ترقی نے ایک ای میل آئی ڈی رکھا ہوا ہے، جس پر اس طرح معاملوں کی شکایت بھیج سکتے ہیں۔ یہ ای میل آئی ڈی [email protected] ہے۔ وہیں وزارت داخلہ امور، نربھیہ فنڈ کے تحت "Cyber Crime Prevention against Women and Children” (سی سی پی ڈبلیو سی) نام سے ایک اسکیم چلاتی ہے، جس کے تحت عصمت دری کی تصاویر یا جنسی طور پر واضح مواد، چائلڈ پورنوگرافی یا بچوں سے جنسی استحصال کرنے والے مواد سے متعلق شکایتوں کی اطلاع دینے میں عام عوام کو اس قابل بنانے کے لئے ایک آن لائن سائبر کرائم رپورٹنگ پورٹل (www.cybercrime.gov.in) کی شروعات کی گئی ہے۔ اس پورٹل میں عوام کو ہر طرح کے سائبر جرائم درج کرانے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ، شہریوں کے لئے اپنی زبان میں آن لائن شکایات درج کروانے میں ان کی مدد کے لئے ٹول فری نمبر 155260 بھی موجود ہے۔ وہیں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کو فحش، عصمت دری وغیرہ کی بات کرنے والی پوسٹ کو ہٹانے کے لئے آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 79 (3) (بی) کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو نوٹس جاری کرنے کے لئے حکومت ہند کی ایک ایجنسی کے طور پر نوٹیفائڈ کیا گیا ہے۔
آج جب ہم خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منارہے ہیں تو آیئے! عہد کریں کہ آگے سے کسی بھی لڑکی کے ساتھ جنسی تشدد ہوتا دیکھ خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ اس کی شکایت ضرور درج کرائیں گے اور ایسے جرائم کے خاتمے کی ہر ممکن کوشش ضرور کریں گے۔ بتادیں کہ ہر سال 25 نومبر کا دن پوری دنیا میں International Day for the Elimination of Violence against Women کے طور پر منایا جاتا ہے۔