انتخابی موسم آتے ہی سیاسی ماحول پراگندہ کرنے کی کوششیں تیز

دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری نے مرکزی انتخابات کا رنگ ظاہر کیا

عرفان الٰہی ندوی

بدایوں کی مجرمانہ واردات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش۔ جبکہ انتظامیہ کے تحت مجسٹریٹ جانچ جاری
شمالی ہند میں انتخابی موسم آتے ہی سیاسی خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو ای ڈی نے گرفتار کرنے کے بعد چھ دن کی ریمانڈ پر لے لیا ہے۔ اس دوران ان سے شراب گھپلے کے بارے میں پوچھ تاچھ کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق کیجریوال پر شراب گھپلے میں تقریباً 100 کروڑ روپے کی رشوت لینے کا الزام ہے۔ اس پیسے کا استعمال گوا میں الیکشن کے دوران ہوا ہے۔ جان کاروں کے مطابق اگر یہ الزام ثابت ہو گیا تو عام آدمی پارٹی کے بینک کھاتے سیز ہو سکتے ہیں اور پارٹی کی منظوری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے تاہم اروند کیجریوال ابھی بھی اپنے موقف پر قائم ہیں کہ انہوں نے کوئی گھپلا نہیں کیا ہے اس لیے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن وہ جیل سے سرکار کیسے چلائیں گے؟ یہ سوال ایک پہیلی بنا ہوا ہے!
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق عآپ کو کیجریوال کی گرفتاری کا سیاسی فائدہ بھی مل سکتا ہے۔ دہلی کے علاوہ پنجاب میں بھی ان کے امیدوار پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اروند کیجریوال کی اہلیہ سنیتا کیجریوال نے اپنے شوہر کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایکس پر لکھا ’مودی جی کے اہنکار یعنی تکبر نے انہیں گرفتار کروایا ہے۔ وہ سب کو کچلنے پر آمادہ ہیں لیکن کیجریوال کی زندگی عوام کے لیے وقف ہے‘۔ کجریوال کی حمایت میں دہلی سمیت ملک کے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہو رہے ہیں جن سے ان کی سیاسی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔
کانگریس کی اعلیٰ قیادت بھی کیجریوال کی اخلاقی حمایت کر رہی ہے۔ کانگریس لیڈروں کے مطابق کیجریوال کو انڈیا گٹھ بندھن میں شامل ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کانگریس کی ٹاپ لیڈرشپ پارٹی صدر ملکارجن کھرگے،سونیا گاندھی اور راہل گاندھی مشترکہ پریس کانفرنس میں حکومت پر اپوزیشن کو الیکشن میں مساوی مواقع نہ دینے کا الزام لگا چکے ہیں۔سونیا گاندھی نے حکومت پر کانگریس پارٹی کے بینک کھاتے منجمد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ جس مسئلے کو اٹھا رہے ہیں وہ بہت سنگین ہے، یہ مسئلہ صرف کانگریس کو نہیں بلکہ جمہوریت کو متاثر کر سکتا ہے۔ کانگریس پارٹی کے صدر ملکارجن کھرگے نے اسے خطرناک کھیل قرار دیتے ہوئے لیول پلیینگ فیلڈ کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا ہندوستان کا آئیڈیا جھوٹ ہے‘
اسی درمیان ایس بی آئی نے سپریم کورٹ کی برہمی کے بعد انتخابی بانڈز سے متعلق تمام تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کر دی ہیں۔ ان تفصیلات میں بانڈز کے منفرد نمبر بھی شامل ہیں جن سے یہ پتہ چل سکے گا کہ عطیہ دینے والوں نے کس سیاسی پارٹی کو کتنا چندہ دیا ہے۔ کانگریس نے بی جے پی پر 56 فیصد چندہ وصول کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ان میں گھٹیا دوائیں بنانے والی کمپنیوں کے علاوہ ایسی فرمیں بھی شامل ہیں جن کے خلاف مختلف معاملوں میں جانچ چل رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں الیکٹورل بانڈز کو اب تک کا سب سے بڑا گھپلا بتا رہی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق تمام تفصیلات کا تجزیہ کرنے سے بڑے بڑے انکشافات ہونے کی امید ہے جو پارلیمانی انتخابات میں اہم موضوع بن سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ایک اور جھٹکا دیتے ہوئے فیکٹ چیکنگ یونٹ پر روک لگا دی ہے۔ سرکار نے فرضی خبروں کو روکنے کے نام پر آئی ٹی ایکٹ میں ترمیم کر کے سوشل میڈیا کی خبروں پر قدغن لگانے کا منصوبہ بنایا تھا تاہم، سپریم کورٹ نے اظہار رائے کی آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر روک لگا دی ہے۔ بامبے ہائی کورٹ میں یہ معاملہ پہلے سے زیر التوا ہے۔ ہائی کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے تک یہ روک برقرار رہے گی۔ شمالی ہند کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں الیکشن کی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے۔ ایسے میں ضلع بدایوں کی ایک مجرمانہ واردات نے فرقہ وارانہ ماحول کو مزید گرم کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ساجد نام کے ایک سر پھرے نوجوان نے دو معصوم بچوں کا ان کے ہہ گھر میں قتل کر دیا ہے۔ ان کا تعلق دوسرے فرقے سے ہے۔ اس واردات کے کچھ گھنٹوں بعد ہی ساجد کو پولیس نے انکاؤنٹر میں مار گرایا۔ جبکہ اس کے چھوٹے بھائی جاوید نے بریلی میں خود کو پولیس کے سپرد کر دیا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق ساجد نے اس واردات کو اکیلے ہی انجام دیا تھا لیکن مقتول بچوں کی ماں دونوں بھائیوں کے ملوث ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ واردات کے فوراً بعد اس کی تفصیلات سوشل میڈیا میں وائرل ہونے لگیں۔ بعض لوگوں نے اس واردات کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلایا جن میں اسلام اور مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جانے لگا۔
تجربہ کار صحافی اور یوٹیوبر اجیت انجم نے ایکس پر لکھا ’چینلوں اور بی جی پی حامی نفرتی بریگیڈ کو بدایوں بربریت میں مسلم اینگل مل گیا ہے‘ سماج وادی پارٹی میڈیا سیل کے ایکس ہینڈل پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ’بی جے پی دنگا فساد اور فرقہ وارانہ تناؤ پیدا کر کے انتخابات جیتنا چاہتی ہے اور اسی وجہ سے ایسی واردات انجام کروا رہی ہے۔ بی جے پی عوام کے اصل مسائل سے ہار چکی ہے صرف مذہبی لڑائی ہی بھاجپا کا آخری ہتھیار ہے۔‘‘ ساجد کے گھر والوں کے ساتھ مقامی لوگوں نے معصوم بچوں کے قتل کی ایک آواز میں مذمت کی اور گہرے افسوس کا اظہار کیا۔ ساجد کے والد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں اپنے بیٹے کے انکاؤنٹر سے زیادہ بچوں کے بہیمانہ قتل کا افسوس ہے۔ اس کے باوجود کچھ نفرتی عناصر اس واردات کے لیے پوری قوم کو ذمہ دار ٹھیرانے کی کوشش میں لگے رہے۔ البتہ ساجد کی دادی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ساجد دماغ کا گرم تھا اور اس کا دماغی توازن بھی ٹھیک نہیں تھا اس لیے ہو سکتا ہے دماغی خلل جسے وہ ہوا کا چکر بتا رہی ہیں واردات کی اصل وجہ ہو۔ تاہم، ساجد کے انکاؤنٹر کے بعد اب ان سوالوں کا جواب ملنا مشکل ہے۔ فی الحال اس معاملے کے دوسرے ملزم جاوید کو جیل بھیج دیا گیا ہے اور اس معاملے کی مجسٹریٹ جانچ کا حکم دے دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے دانش ور طبقہ میں یہ بات چل رہی ہے کہ اس طرح کی وارداتوں کا دوسری مثالیں دے کر دفاع کرنا غلط ہے خاص طور پر مسلم نوجوانوں کو سوشل میڈیا میں رد عمل سے گریز کرنا چاہیے۔ میڈیا کے کچھ حلقوں نے انکاؤنٹر پر سوال اٹھاتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر کے کورٹ میں پیش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ پوری سچائی سامنے آ سکے۔ انکاؤنٹر کرنے والے سپاہی کا دوسرے ہی دن ڈیوٹی پر واپس آجانے سے پولیس کی کہانی میں جھول معلوم ہوتا ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ نئے اور دل چسپ حال احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر صلا ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024