انتخابی جمہوریت پر شکوک و شبہات کے گہرے بادل

مہاراشٹر میں عارضی اور حتمی ووٹ ٹرن آؤٹ کے حیران کن تضادات

نوراللہ جاوید

جھارکھنڈ میں محض ایک سے دو فیصد کا فرق اور انڈیا اتحاد کی جیت
کیا بی جے پی کی کامیابی کا راز حتمی ووٹ ٹرن آؤٹ میں غیر معمولی اضافے میں پوشیدہ ہے؟
’’ووٹ فار ڈیموکریسی‘‘کی رپورٹ: ہریانہ اور جموں و کشمیر میں انتخابی بے ضابطگیاں بے نقاب
اگرچہ سپریم کورٹ نے ای وی ایم کے مسئلے کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور اس پر اٹھنے والے سوالات کو بے بنیاد قرار دیا ہے، مگر یہ ایک دلچسپ تضاد ہے کہ جہاں ایک طرف سپریم کورٹ اس عرضی کو رد کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج نے انتخابی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ حالانکہ میڈیا کی طرف سے ای وی ایم مشین، انتخابی بے ضابطگیوں اور الیکشن کمیشن کی جانبداری کو مسترد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر اس کے باوجود سوشل میڈیا، متبادل ذرائع اور تحقیقاتی اداروں کے ذریعے اٹھنے والے سوالات عوام تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، اور انہیں طویل عرصے تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ای وی ایم کے حوالے سے کانگریس کا موقف اب تک غیر واضح رہا ہے۔ ماضی میں اس نے ای وی ایم کے ذریعے بدعنوانی کے امکان کو رد کیا تھا لیکن اب ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی کے متنازعہ نتائج نے کانگریس کو یہ حقیقت بتا دی ہے کہ جب تک انتخابی نظام میں اصلاحات نہیں کی جاتیں اور ای وی ایم مشین کے بجائے بیلٹ پیپر کا استعمال نہیں کیا جاتا، تب تک اقتدار میں واپسی ممکن نہیں۔ چناں چہ پہلے کانگریس صدر ملک ارجن کھرگے اور اب کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ای وی ایم مشین اور انتخابی نظام میں اصلاح سے متعلق تجاویز پاس کی ہیں اور بھارت جوڑو یاترا کے طرز پر ملک بھر میں تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔
کانگریس کے اس اعلان کو اگر ملک کے مقتدر ادارے، جیسے الیکشن کمیشن، صدر جمہوریہ اور سپریم کورٹ نظر انداز کرتے ہیں تو یہ تاریخ کا بدترین لمحہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب اداروں پر سوالات کھڑے ہوتے ہیں اور ادارے ان سوالات کا تسلی بخش جواب دینے کے بجائے عوامی بیانیہ کے سہارے قائم رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہی بیانیہ تبدیل ہوتا ہے اور اس وقت یہ ادارے تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ نازک اور بے دم ثابت ہوتے ہیں۔ جب عوام کو یقین ہو جائے کہ وہ بیلٹ کے ذریعے تبدیلی لانے سے قاصر ہیں اور ان کا مینڈیٹ چوری ہو رہا ہے تو پھر یہ عوام کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس وقت نہ جمہوریت بچتی ہے اور نہ جمہوری ادارے۔ عوامی غم و غصے کے اس پورے منظرنامے کو سمجھنے کے لیے سری لنکا اور بنگلہ دیش کی زوال پذیر جمہوریت کو دیکھا جا سکتا ہے۔
شیخ حسینہ واجد، جو باہری قوتوں کی مدد اور اداروں کے تعاون سے لگا تار انتخابات جیت رہی تھیں اور اپنی جیت کو عوامی مینڈیٹ کے طور پر پیش کر رہی تھیں، چوتھی مرتبہ نام نہاد مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں پہنچیں، جس میں اپوزیشن جماعتوں کو مکمل طور پر درکنار کر دیا گیا تھا۔ مگر چند مہینے بعد ہی عوام ان کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ انہیں وہ فوجی طاقت جس کی پشت پناہی حاصل تھی، چند منٹوں کی مہلت بھی فراہم نہ کر سکی کہ وہ اپنے ساز و سامان کی پیکنگ کر سکیں۔ ادارے منہ تکتے رہ گئے اور بنگلہ دیش کئی مہینے گزر جانے کے باوجود پٹری پر واپس نہیں آ سکا۔
جمہوریت میں اگر اپوزیشن کے احساسات و جذبات کو نظر انداز کیا جائے اور ان کے جائز سوالوں کو خارج کرنے کی روش عام ہو جائے تو اپوزیشن جماعتوں کے پاس بائیکاٹ جیسے اقدامات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ یہ ہماری خام خیالی ہے کہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے حالات بھارت سے الگ ہیں۔ ہمارا مقصد انتخابی نظام کو مشکوک بنانا یا عوام کے اعتماد کو متزلزل کرنا نہیں بلکہ جمہوریت کی حفاظت اور شفاف و غیر جانب دار جمہوری نظام کا قیام ہے۔ کیونکہ جب جمہوری نظام زوال پذیر ہوتا ہے تو اس کی قیمت سب سے زیادہ اقلیتوں اور کمزور طبقات کو چکانی پڑتی ہے۔
اسی لیے اس کی حفاظت اور عوام کو باشعور بنانے کی ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ مہاراشٹر، ہریانہ اور لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی سب سے زیادہ سوالیہ نشان اس بات پر لگا تھا کہ ووٹنگ ختم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے جاری کردہ عارضی ووٹ ٹرن آؤٹ کی شرح اور حتمی ووٹ ٹرن آؤٹ کی شرح میں غیر معمولی فرق کیوں تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سوال کا تسلی بخش جواب نہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اور نہ ہی ہریانہ و مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن نے دیا۔
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ گزشتہ پچھتر برسوں میں انتخابات کے دوران عارضی اور حتمی ٹرن آؤٹ کی شرح میں اتنا فرق کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر سب سے زیادہ گفتگو نہیں ہو رہی ہے۔ ممکن ہے یہ محض اتفاق ہو مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جن ریاستوں اور حلقوں میں حتمی اور عارضی ووٹ ٹرن آؤٹ میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے وہاں بی جے پی کی جیت ہوتی ہے۔
ملک کی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کے شوہر، ماہر اقتصادیات اور حالاتِ حاضرہ کے مبصر پرکالا پربھاکر نے مشہور صحافی کرن تھاپر کو دی وائر کو انٹرویو دیتے ہوئے مہاراشٹر میں عارضی اور حتمی ووٹ ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار میں ناقابلِ فہم اور پریشان کن تضادات کی نشان دہی کی، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ 20 نومبر کو شام پانچ بجے الیکشن کمیشن نے بیان جاری کیا کہ 58.22 فیصد ٹرن آؤٹ ہوا ہے، مگر رات 11:30 بجے کمیشن نے بتایا کہ 65.02 فیصد پولنگ ہوئی ہے۔ 23 نومبر کو ووٹوں کی گنتی سے عین قبل کمیشن نے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 66.05 فیصد پولنگ ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹرن آؤٹ میں 7.83 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حیران کن ہے۔ گنتی سے صرف چند گھنٹے پہلے کمیشن نے بتایا کہ 9,99,359 ووٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ سب کو ملا کر، 20 تاریخ کو شام پانچ بجے سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک اور گنتی سے کچھ بارہ گھنٹے پہلے تک کل اضافہ 75,97,067 ووٹ کا ہوا۔ یہ تقریباً 76 لاکھ ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہم نے ملک میں اس سے قبل بھی انتخابات دیکھے ہیں مگر اس قدر غیر معمولی اضافہ کبھی نہیں دیکھا۔
سپریم کورٹ نے ای وی ایم کی جگہ بیلٹ پیپر کے ذریعے انتخابات کرانے کے مطالبے کی عرضی کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اگر آپ جیت جاتے ہیں تو پھر ای وی ایم پر خاموش ہو جاتے ہیں، مگر جب شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو پھر ای وی ایم مشین کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دیتے ہیں۔ اگر جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں عارضی اور حتمی ووٹ ٹرن آؤٹ میں فرق کو ملحوظ رکھا جائے تو سپریم کورٹ کو جواب مل جائے گا۔ پرکالا پربھاکر بتاتے ہیں کہ جھارکھنڈ میں پہلے مرحلے کی پولنگ میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ کی شرح میں 1.79 فیصد کی تبدیلی کی گئی جس میں 43 میں سے سترہ سیٹوں پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی۔ دوسرے مرحلے میں ٹرن آؤٹ میں محض 0.86 فیصد کی تبدیلی آئی تو بی جے پی کو تیس سیٹوں میں سے سات سیٹوں پر ہی کامیابی ملی۔ دوسری طرف وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام طور پر ماضی میں شام پانچ بجے اور فائنل ٹرن آؤٹ کی شرح میں ایک سے دو فیصد کا فرق ہوتا تھا، مگر آٹھ سے دس فیصد کا فرق غیر معمولی ہے۔ وہ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ اتفاق ہے کہ جہاں جہاں کمیشن کے ذریعے ٹرن آؤٹ کی شرح میں غیر معمولی فرق دیکھنے میں آیا ہے وہاں بی جے پی ہی کیوں کامیاب ہوتی ہے؟
اگرچہ انٹرویو میں وہ اس بات کا بھی اعادہ کرتے ہیں کہ صرف اس بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کانگریس اتحاد کی شکست کی یہی بڑی وجہ ہے مگر کمیشن نے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر کیوں کی؟ اس کی وجہ سے انہیں لاڈلی بہن جیسی اسکیم کو اچھی طرح سے نافذ کرنے کا موقع مل گیا۔ اس انٹرویو میں ایک اور نکتہ سامنے آتا ہے کہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے نتائج بھی بہت کچھ کہتے ہیں۔
مہاراشٹر میں قائم ایک غیر سرکاری ادارہ ووٹ فار ڈیموکریسی (VFD) انتخابی نظام میں شفافیت اور اصلاحات کے لیے کام کرتی ہے۔ اس نے ہریانہ اور جموں و کشمیر کے 2024 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ تیار کی ہے جس کا عنوان Conduct of Haryana and Jammu and Kashmir Vidhan Sabha Election 2024 ہے۔ اس رپورٹ میں ممکنہ ہیرا پھیری، ووٹوں میں غیر واضح اضافہ، مشتبہ ٹرن آؤٹ ڈیٹا، شفافیت کی کمی اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کے انتخابات سے نمٹنے کے مشکوک طریقہ کار کی نشان دہی کی گئی ہے۔
پرکالا پربھاکر اور ووٹ فار ڈیموکریسی جیسے ادارے ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے طریقۂ کار پر سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی جیسی شخصیت بھی سوال اٹھا رہی ہے۔ قریشی، جو 2010 سے 2012 کے درمیان چیف الیکشن کمشنر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، انڈیا ٹوڈے کے سینئر ایڈیٹر راج دیپ سردیسائی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کے عارضی اعداد و شمار اور حتمی اعداد و شمار کے درمیان وسیع فرق قابلِ تشویش ہیں۔ 20 نومبر کو جس دن پولنگ ہوئی شام پانچ بجے ووٹنگ کے اعداد و شمار 55 فیصد تھے۔ اگلے دن جاری ہونے والے حتمی ووٹر ٹرن آؤٹ نے دیکھا کہ یہ 67 فیصد تک چلا گیا جو تقریباً تین دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ قریشی کہتے ہیں کہ اس کا جواب کمیشن کو دینا چاہیے۔ اس وقت جس طرح سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور یہ پورے ملک میں پھیل رہا ہے، اس سے تو پورے نظام سے بھروسہ اٹھ جائے گا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ عارضی ووٹنگ کی شرح اور حتمی ٹرن آؤٹ میں بڑا فرق لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی تھا جو پانچ سے چھ فیصد کا رہا تھا۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) نے ہر پولنگ مرحلے کے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر پولنگ اسٹیشن کے حساب سے ووٹر ٹرن آؤٹ ڈیٹا جاری کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی مگر سپریم کورٹ نے عملی چیلنجز کا حوالہ دیتے ہوئےدرخواست مسترد کر دی۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی دلیل دی تھی کہ اس طرح کے انکشافات سے لاجسٹک مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ رویہ حقائق سے آنکھیں موندنے کے مترادف ہے۔
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج پر اٹھنے والے چند اہم سوالات
2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے اٹھائیس سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے اور 14.9 ملین ووٹ حاصل کیے۔ چونکہ ہر پارلیمانی حلقے میں چھ اسمبلی حلقے ہوتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی کو فی اسمبلی حلقہ اوسطاً 88,713 ووٹ ملے۔ محض پانچ مہینوں بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 149 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے اور اس کے کل ووٹ کی تعداد بڑھ کر 17.29 ملین ووٹوں تک پہنچ گئی، جو تقریباً 2.38 ملین ووٹ کا اضافہ ہے۔ فی اسمبلی حلقہ ووٹ کی شرح 116,064 ہوگئی یعنی لوک سبھا انتخابات کے مقابلے میں فی حلقہ اٹھائیس ہزار ووٹوں کا اضافہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا غیر معمولی اضافہ ممکنہ ہیرا پھیری یا نتائج کو متاثر کرنے والے غیر واضح عوامل کے بارے میں خدشات کو جنم دیتا ہے۔
اسی طرح 95 حلقوں میں کل ووٹنگ اور گنتی کے دوران تضاد سامنے آئے ہیں۔ 19 حلقوں میں اصل میں ڈالے گئے ووٹوں سے زیادہ ووٹوں کی گنتی کی گئی، جس سے ای وی ایم میں اضافی ووٹ ڈالے جانے کا امکان ہے۔ 76 حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں سے کم ووٹوں کی گنتی ہوئی، جو ممکنہ چھیڑ چھاڑ یا تکنیکی خرابیوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ تقریباً ایک تہائی حلقوں میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو اس طرح نظر انداز تو نہیں کیا جا سکتا۔
تفصیلی بوتھ سطح کے معائنے (فارم 20 کے ذریعے) اس سے بھی زیادہ تضادات کو ظاہر کر سکتے ہیں، جس سے فوری اور مکمل تفتیش کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔ ناگپور سنٹرل، شیرپور، اورنگ آباد ویسٹ، اور بارامتی جیسے علاقوں میں پولنگ کے مقابلے میں گنتی ووٹوں میں نمایاں کمی ہے۔ یہ پیٹرن ای وی ایم کی خرابی، بد انتظامی یا ووٹوں کو جان بوجھ کر دبانے کے امکان کی نشان دہی کرتا ہے۔
اس کے برعکس اورنگ آباد ایسٹ، ویجاپور، مالیگاؤں سنٹرل اور بوئسر جیسے علاقوں میں پولنگ کے دوران ریکارڈ کیے گئے ووٹوں سے زیادہ ووٹوں کی گنتی رپورٹ ہوئی۔ یہ بے ضابطگیاں ووٹنگ مشینوں میں ممکنہ ہیرا پھیری یا ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران مداخلت کی نشان دہی کرتی ہیں۔
اوادھن گاؤں میں کانگریس کے امیدوار کنال بابا پاٹل کو مبینہ طور پر صفر ووٹ ملے مگر گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کانگریس کے امیدوار کے حق میں ہی ووٹنگ کی ہے۔ یہ صورتِ حال ای وی ایم مشین کے ووٹوں کے ریکارڈ کرنے کے طریقۂ کار پر سوال کھڑا کرتی ہے۔ مزید تحقیقات سے پولنگ کے دن (20 نومبر) اور گنتی کے دن (23 نومبر) کو ای وی ایم میں ذخیرہ شدہ ووٹوں کے ڈیٹا میں تبدیلی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
ناندیڑ لوک سبھا سیٹ کا ضمنی انتخاب جو مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہی ہوا، کانگریس نے پارلیمانی سیٹ پر کامیابی حاصل کی، لیکن اسی حلقے کی تمام چھ اسمبلی حلقوں سے ہار گئی۔ ایک ساتھ پولنگ کے باوجود کانگریس کو لوک سبھا سیٹ کے لیے 5.87 لاکھ ووٹ ملے، لیکن چھ اسمبلی حلقوں میں صرف 4.27 لاکھ ووٹ ملے، جو 1,59,323 ووٹوں کی کمی ظاہر کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ فی اسمبلی حلقہ 26,500 ووٹروں نے لوک سبھا حلقے کے لیے تو کانگریس کو ووٹ دیا لیکن اسمبلی کے لیے بی جے پی اتحاد کے حق میں ووٹنگ کی۔ رائے دہندگان کے اس متضاد رویے پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔
مغربی مہاراشٹر میں ستارا لوک سبھا حلقہ کے اندر کراڈ (جنوب) اسمبلی حلقہ ہے۔ لوک سبھا انتخابات 2024 میں چھ مہینے پہلے اس اسمبلی حلقے میں کل 1,98,633 ووٹ ڈالے گئے۔ ادیان راج بھوسلے کو 92,814 اور ششی کانت شندے کو 92,198 ووٹ ملے۔ چھ ماہ بعد اسمبلی انتخابات میں کراڈ جنوبی حلقے میں کل 2,40,743 ووٹ ڈالے گئے، یعنی تقریباً 14,000 اضافی ووٹنگ ہوئی۔ فاتح اتل بابا بھجوسالے کو 1,39,505 ووٹ ملے اور سابق وزیر اعلیٰ، سینئر کانگریسی لیڈر پرتھوی راج چوہان کو 1,00,150 ووٹ ملے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے مقابلے میں اسمبلی انتخابات میں جو 40,000 ووٹ بڑھے، وہ سب جیتنے والے امیدوار کو چلے گئے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ 2019 اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران ووٹوں میں کوئی فرق نہیں ہوا۔ مگر 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد محض چھ مہینے کے اندر 40,000 ووٹوں کا اضافہ ہوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ کس کس بوتھ پر ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ وہ چند اہم سوالات ہیں جو مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد سامنے آئے ہیں۔ انتخابی عمل میں بے ضابطگی اور کمیشن پر عدم اعتماد کا اس سے بڑھ کر مظہر اور کیا ہوسکتا ہے کہ مہاراشٹر کے مالسیرس کے مارکواڑی گاؤں کے ووٹروں نے الیکشن کمیشن میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے 2 دسمبر کو کاغذی بیلٹ کے ذریعے دوبارہ پولنگ کی اور اس کے بعد ووٹوں کی گنتی کی۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ بعد میں معلوم ہوگا مگر سوال یہ ہے کہ اگر ای وی ایم مشین کے نتیجے سے مختلف نتیجہ آیا تو پھر اس گاؤں والوں کے نزدیک کمیشن کا کیا اعتبار ہوگا؟ اگر اس عمل کو میڈیا اہمیت نہ دے تب بھی یہ ایک آغاز ہے۔ اگر خامیوں پر کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا اور پھر الیکشن کمیشن اپنا اعتبار و بھروسا مکمل طور پر کھو دے گا۔
ہریانہ اور جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات پر ’’وائس فار ڈیموکریسی‘‘ کی رپورٹ:
19 نومبر کو وی ایف ڈی نے 95 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں ہریانہ اور جموں و کشمیر کے حالیہ اختتام پذیر اسمبلی انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے ووٹر ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کی نشان دہی کی ہے۔ ہریانہ میں عارضی اور حتمی ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح میں 6.71 فیصد یعنی 1.3 لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ غیر معمولی بھی ہے اور غیر واضح بھی ہے۔ پنچکولہ اور چرخی دادری سمیت کئی اضلاع میں دس فیصد سے زیادہ کے غیر معمولی ٹرن آؤٹ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان سبھی اضلاع میں بی جے پی کو غیر معمولی جیت حاصل ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشویشناک بات یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو گنتی سے چند گھنٹے قبل ووٹر ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار پر آخری لمحات کی نظرثانی، تضادات کو چھپانے اور نتائج میں ہیرا پھیری کرنے کی کوشش کی تجویز کرتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات پورے عمل کی شفافیت اور قانونی حیثیت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دس ایسے اضلاع جہاں حتمی اور عارضی ٹرن آؤٹ کی شرح میں دس فیصد تک کا فرق تھا، وہاں بی جے پی نے چوالیس میں سے سینتیس سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ باقی بارہ اضلاع جہاں حتمی اور عارضی ٹرن آؤٹ کی شرح کم تھی، وہاں بی جے پی کی کارکردگی مایوس کن تھی چھیالیس میں سے صرف گیارہ سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ووٹروں کے ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار نے براہ راست نتائج کو متاثر کیا، خاص طور پر سترہ حلقوں میں جہاں جیت کا فرق پانچ ہزار سے کم تھا۔ ووٹوں کے بڑھے ہوئے ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار نے بی جے پی کی کامیابی میں مدد کی۔ جموں و کشمیر میں بھی اسی طرح کی نشان دہی کی گئی ہے جہاں جہاں ووٹ ٹرن آؤٹ کی شرح میں اضافہ کیا گیا وہاں بی جے پی کو جیت ملی۔
وائس فار ڈیموکریسی نے جولائی 2024 میں لوک سبھا انتخابات کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن کے ذریعہ حتمی ٹرن آؤٹ کی شرح کے اعلان میں غیر معمولی تاخیر اور بار بار تبدیلی نے پورے نظام کو مشکوک بنا دیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عارضی ٹرن آؤٹ کے بعد الیکشن کمیشن نے جو حتمی ووٹ ٹرن آؤٹ کی شرح شائع کی اس میں 4.65 لاکھ ووٹوں کا اضافہ کر دیا۔ اس رپورٹ میں اترپردیش میں لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ بی جے پی کو جن حلقوں میں جیت حاصل ہوئی ان میں حتمی اور عارضی ٹرن آؤٹ کی شرح میں سات فیصد تک کا فرق تھا۔
آخری بات
انتخابی بدنظمی، دھاندلی اور مینڈیٹ کی چوری صرف ای وی ایم کے ذریعے نہیں ہوتی بلکہ کئی اور طریقے بھی ہیں جن کے ذریعے رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میڈیا چینلوں کے ذریعے انتخابات سے کئی مہینے قبل موڈ آف نیشن کے نام پر جو رپورٹیں شائع کی جاتی ہیں وہ بھی دراصل عوامی رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کا ہی حصہ ہیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کے بے جان رویے اور سیاسی جماعتوں کو ملنے والے چندے میں غیر معمولی تفریق کی وجہ سے امیدواروں کو یکساں مواقع فراہم نہیں ہو پاتے کہ وہ ووٹروں تک پہنچ سکیں۔
اتر پردیش اور ملک کے دیگر علاقوں میں اقلیتوں اور سماج کے پسماندہ طبقات کو ووٹنگ سے روکنے کا نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ لوک سبھا اور اب اتر پردیش میں ضمنی انتخابات کے دوران ووٹروں کو روکنے کی کوشش کے معاملات سامنے آئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورت حال انتخابی نظام میں شفافیت اور غیر جانب داری لانے کے لیے تبدیلی کے ناگزیر ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت جو چیف الیکشن کمیشن کے انتخاب میں چیف جسٹس کی شمولیت کو روکنے کے لیے پارلیمنٹ سے بل منظور کرا چکی ہے، کیا اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس سمت میں پیش رفت کرے گی؟
اس پورے معاملے میں سب سے حیران کن رویہ سپریم کورٹ کا رہا ہے۔ اس نے انتخابی نظام میں شفافیت اور ای وی ایم مشین کی درست کارکردگی سے متعلق تمام درخواستوں کو حقارت انگیز طریقے سے مسترد کیا ہے۔ اس سال اپریل میں اے ڈی آر کی عرضی کو جس طرح سے نمٹایا گیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ جسٹس سنجیو کھنہ جو اس وقت چیف جسٹس ہیں، انہوں نے اور اور جسٹس دیبانکر دتہ نے اے ڈی آر کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کئی سوالات کھڑے کیے۔ تاہم، وہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے مطابق کاغذی بیلٹ پولنگ کا بنیادی طریقہ ہے (سیکشن 59) جبکہ ای وی ایم صرف ایک آپشن ہے (دفعہ 61A)۔
جسٹس دیبانکر دتہ نے ای وی ایم کی سالمیت پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والوں کے خلاف جو تبصرے کیے وہ عدالتی تاریخ کے بدترین لمحات میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا:
"یہ بات فوری طور پر قابل توجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ہر ممکن محاذ پر اس عظیم قوم کی ترقی کو بدنام کرنے یا کم کرنے اور اسے کمزور کرنے کی ٹھوس کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی کوئی بھی کوشش یا سازش کو شروع میں ہی روک دینا چاہیے۔ کوئی بھی آئینی عدالت یا پھر معمول کی عدالت ایسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی، جب تک کہ اس معاملے میں (عدالت) خود کوئی ضرورت محسوس نہ کرے۔ مجھے پٹیشن کرنے والی ایسوسی ایشن کی سچائی کے بارے میں شدید شک ہے، جب وہ پرانے حکم کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔”
ظاہر ہے کہ یہ تبصرہ اس وقت کیا گیا جب بی جے پی اور مرکزی حکومت کی کسی پالیسی پر تنقید کی جاتی ہے تو اسے ملک کی سالمیت سے جوڑ دیا جاتا ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے اس طرح کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔
جبکہ ای وی ایم کی سالمیت پر کئی ماہرین کے اعتراضات موجود ہیں۔ ہر ووٹر کا بنیادی حق ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ اس نے جو ووٹ دیا ہے، وہ محفوظ ہے یا نہیں۔ مگر افسوس کہ سپریم کورٹ جس کا بنیادی کام عوام کے حقوق کی حفاظت اور انصاف کی فراہمی ہے اس نے بھی آنکھیں بند کر لی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
اس کا جواب صاف اور سیدھا ہے: انتخابی بد عملی اور بد انتظامی کے خلاف تسلسل کے ساتھ آواز بلند کی جائے اور رائے عامہ ہموار کی جائے تاکہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ ملک کی جمہوریت محفوظ رہے۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 سپریم کورٹ نے ای وی ایم کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کو بے بنیاد قرار دیا ہے مگر مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج نے انتخابی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ کانگریس نے ای وی ایم پر اعتراضات کا اظہار کیا ہے اور انتخابی نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ انتخابی نتائج کے عارضی اور حتمی ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار میں غیر معمولی فرق نے بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ مختلف تحقیقاتی اداروں اور سابق چیف الیکشن کمشنر بھی اس معاملے پر سوالات اٹھائے ہیں لہٰذا اگر اصلاحی اقدامات نہ کیے جائیں تو انتخابی جمہوریت کی شفافیت پر عوام کا اعتماد مزید متزلزل ہو سکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024