انتخابی سیاست کے تین طرز

ملک کے حقیقی مسائل اور مسلمان بحیثیت شہری

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

انتخابی سیاست میں برسر اقتدار حکومتوں سے وابستہ سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر عموماً حقیقی مسائل پر گفتگو نہیں کرتے اور نہ ہی پانچ سال پہلے انہوں نے جن عوامی مسائل پر ووٹ مانگا تھا اور جن وعدوں کو پورا کرنے کا وعدہ کیا تھا اس پر بات کرتے ہیں۔ یعنی سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشوروں میں درج وہ ایشوز جن کا تعلق ملک کے حقیقی مسائل ، عوام کی فلاح و ترقی سے ہوتا ہے اگلے الیکشن میں ان ایشوز کو چھوڑ کر دیگر مسائل کو چھیڑ دیا جاتا ہے اور سابقہ مسائل کو پس پشت ڈال کر ایک بار پھر نئے مسائل اور وعدوں میں الجھاکر عوام کو گمراہ کردیا جاتا ہے۔یہ پیٹرن غالباً برصغیر کے زیادہ تر ممالک کا ہے۔اور انتخابی سیاست کے پس منظر میں نتائج واضح کرتے ہیں کہ یہ آزمودہ اور کامیاب طریقہ سیاست ہے۔وہیں ایک دوسرا پیٹرن یہ ہے کہ عوام کو طبقوں میں تقسیم کردیا جائے۔کہیں مذہب کی بنیاد پر، کہیں ذات پات کی بنیاد پر، کہیں علاقائیت کی بنیاد پر،کہیں معاشی گروہوں کی بنیاد پر تو کہیں کسی اور بنیاد پر۔ یعنی نہ عوام ایک رہیں نہ ان کے مسائل ایک ہوسکیں، وہ ایک عوامی گروہ کی حیثیت سے اپنے مسائل اور ان کے حل تلاش نہ کریں بلکہ تقسیم کے بعد ہر چھوٹا بڑا گروہ اور اس کے مسائل مختلف ہوجائیں اور وہ اپنے متلعقہ مسائل اور اس کے حل کی تلاش میں سرگرداں رہیں یا اسی پس منظر میں سیاسی لیڈر ان سے سودے طے کرتے رہیں۔ اور یوں یہ گروہ سیاسی لیڈروں سے امیدیں باندھ کر اپنے مسائل کے حل کے لیے پریشان ومضطرب رہتے ہیں اور عوام کے حقیقی مسائل تقسیم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ دوسرا پیٹرن بھی کافی مقبول اور نتیجہ کے اعتبار سے کامیاب طریقہ سیاست رہا ہے۔ایک تیسرا پیٹرن، دشمن کی شناخت یا اکثریت کے سامنے کسی مذہبی یا سماجی گروہ کو عوام دشمن، ملک دشمن یا اکثریت دشمن کے طور پر پیش کرنا ہے اور اس طریقہ سیاست سے بھی ووٹ کی سیاست اور اس کے نتائج کے حوصلہ افزا رہے ہیں اور سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو کامیابی حاصل ہوتی رہی ہے۔یہ تینوں پیٹرن ہمارے ملک میں ریاستی اور ملکی سطح کے انتخابات میں آزاد بھارت کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں اور آج جبکہ لوک سبھا انتخابات 2024 جاری ہیں تو اس وقت بھی موجود ہیں۔
بی جے پی نے اپنے سیاسی منشور 2019 ’’سنکلپ پتر‘‘ میں عوام سے 75 وعدے کیے تھے۔ لیکن اب جبکہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات جاری ہیں، بی جے پی کو ووٹ دینے والے نہیں پوچھتے کہ انہوں نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں کتنے کالجس یا یونیورسٹیاں بنائے ہیں؟ اس کے باوجود ملک میں پارٹی کے 600 ہائی ٹیک دفتروں کا بننا، میڈیا کی معرفت سے پورا ملک جانتا ہے۔ روزگار، بد عنوانی اور نکسل واد کے نام پر سنکلپ پتر خاموش ہے۔ جبکہ اس دوران بے روزگاری، نکسل وادی اور دہشت گردانہ واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ بھکمری کے معاملہ میں بھی قابل ذکر بڑھوتری ریکارڈ کی گئی ہے۔ 2014 میں بھارت گلوبل ہنگر انڈیکس میں 55ویں مقام پر تھا، 2018 میں 103ویں نمبر پر آیا اور 2023 میں111ویں مقام پر آگیا ہے۔ اس کے برخلاف ہمارے پڑوسی ممالک ہم سے اچھی حالت میں ہیں۔2023 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں، بھارت 125 ممالک میں 111ویں نمبر پر ہے جہاں GHI اسکور کا حساب لگانے کے لیے ڈیٹا موجود ہے۔ 2023 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں 28.7 کے اسکور کے ساتھ، بھارت میں بھوک کی سطح سنگینی کی جانب اشارہ کررہی ہے۔
رہا بد عنوانی کا سوال تو رافیل کا معاملہ ہو یا حالیہ الیکٹورل بانڈز کا عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ فصل بیمہ، ڈیجیٹل اکنامی،نوٹ بندی، جی ایس ٹی، کسانوں کی آمدنی میں اضافہ، ایم ایس پی اور ان جیسے بے شمار وعدے۔ نوٹ بندی سے نہ دہشت گردی پر روک لگی نہ کالے دھن کے غیر ملکی ممالک سے آنے پر۔ غریب کنبوں کو بھیک کے بطور گیس کنکشن تو دی گئی لیکن غریبی دور کرنے کی کوئی تجویز پیش نہیں کی جاسکی۔ دی ہندو کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اجولا یوجنا کے تحت جنہیں مفت گیس کنکشن اور چولہا دیا گیا تھا ان میں سے 85 فیصد لکڑی کے چولہے پر ہی کھانا بنا رہے ہیں کیوں کہ غریبی کی وجہ سے سلنڈر میں گیس بھروانا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہیں حکومت ہی کی جانب سے یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ مرکزی کابینہ نے 29؍ نومبر 2023کو پردھان منتری غریب کلیان انا یوجنا (PMGKAY) کو مزید پانچ سالوں یعنی دسمبر 2028 تک تقریباً 81 کروڑ غریبوں کو مفت اناج فراہم کرنے کی تجویز کو منظوری دی ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ 81 کروڑ عوام غریب کیوں ہیں، یہ آپ کے سنکلپ پتر کو پورا کرنے کے وعدے کے باوجود کیوں باقی رہ گئے ہیں؟ سنہ2000 اور 2019 کے درمیان نوجوانوں کی بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری، خاص طور پر ثانوی سطح یا اعلیٰ تعلیم کے حامل نوجوانوں میں بے روزگاری نے شدت اختیار کرلی ہے۔2022 میں کل بے روزگار آبادی میں بے روزگار نوجوانوں کا حصہ 82.9فیصد تھا۔ اس کے برخلاف کل بے روزگار لوگوں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا حصہ بھی 2022 میں بڑھ کر 65.7 فیصد ہو گیا ہے جو 2000 میں 54.2 فیصد تھا۔
ہم جانتے ہیں کہ بھارت میں عموماً لوگ اخراجات میں بچت کرنے کے عادی ہیں تاکہ اس بچت سے وہ اپنی اہم ضروریات جیسے بچوں کی تعلیم، صحت کے مسائل، شادی بیاہ اور تہواروں کے اخراجات اور دیگر ضروریات پوری کرسکیں۔اکثر اوقات متذکرہ ضروریات اور اخراجات کے پیش نظر اپنے روز مرہ کے اخراجات بھی کم کرتے ہیں لیکن اس رجحان میں اب تبدیلی محسوس ہورہی ہے۔ریزرو بینک آف انڈیا کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں لوگوں کی خالص بچت 47 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ خالص بچت سے مراد کسی بھی گھرانے کے ذمہ واجب الادا قرض اور اخراجات نکالنے کے بعد بچ جانے والی رقم اور سرمایہ کاری ہے۔ سنہ 2023 میں مجموعی گھریلو بچت کا تناسب کم ہو کر ملک کی جی ڈی پی 5.3 فیصد ہو گئی۔ سنہ 2022 میں یہ 7.3 فیصد تھی۔وہیں قرضوں کے تناسب میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سالانہ قرضے اب جی ڈی پی کا 5.8 فیصد ہے جو 1970 کے بعد کی دوسری بلند ترین سطح ہے۔اعداد و شمار کے مطابق اب زیادہ تر گھرانے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض لے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جانب سے کی جانے والی بچت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کو اپنی کمائی کا بیشتر حصہ قرضوں کی ادائیگیوں پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔بی بی سی اردو کی ایک شائع شدہ رپورٹ میں نکھل گپتا، ماہرِ معاشیات،موتی لال فائنانشل سروسز نامی فرم سے وابستہ ہیں، ان کے مطابق انڈین گھرانوں کے قرضوں کا ایک بڑا حصہ غیر رہن (نان مارٹگیج) قرضوں پر مشتمل ہے۔بھارت میں کل قرضوں میں سے تقریباً آدھے زراعت اور کاروباری نوعیت کے ہیں۔حیرت انگیز طور پر سنہ 2022 میں بھارت میں لیے جانے والے غیر رہن (نان مارٹگیج) قرضے آسٹریلیا اور جاپان سے مماثل تھے۔ ان قرضوں کا تناسب امریکہ اور چین سمیت کئی بڑے ممالک سے زیادہ تھا۔نکھل گپتا کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قرض لینے والوں کے بارے میں زیادہ تفصیلات میسر نہیں ہیں کہ کتنے لوگوں نے قرض لیے ہیں؟ وہ کیا کام کرتے ہیں؟ لی گئی رقم کس کام استعمال کی گئی یا کتنے افراد نے قرض واپس کیے ہیں؟نکھل گپتا اور ان کی ساتھی تنیشا لاڈھا کو ایسے شواہد ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں گھریلو قرض لینے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ معاشی لحاظ سے زیادہ لوگوں کا قرض لینا چند قرض لینے والوں کے بھاری قرضے لینے سے بہتر ہے۔تنیشا لاڈھا اور نکھل گپتا کے مطابق بھارتی گھرانے اپنی مجموعی کمائی کا تقریباً 12 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ شرح چین، فرانس، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک سے زیادہ ہے۔اس کی ایک وجہ بھارت میں قرضوں پر وصول کی جانے والی شرح سود ہے جو ان ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت میں دیے جانے والے قرضوں کی مدت مذکورہ بالا ممالک سے کم ہے۔
ہم نے اس مضمون میں صرف دو مسائل عالمی بھوک انڈیکس اور بے روزگاری کا مختصر تذکرہ کیا ہے۔ اس کے باوجود اعداد و شمار اور حقائق ثابت کرتے ہیں کہ یہ مسائل معمولی نوعیت کے نہیں ہیں۔ان مسائل نے ملک کی اکثریت کو متاثر کیا ہے اور وہ خاندانی وسماجی سطح پر ان مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ وہیں دیگر بے شمار عوامی مسائل ہیں جن کا تذکرہ ملک میں راست یا بلاواسطہ ہو رہا ہے اور اپوزیشن پارٹیاں سماجی مسائل کے حل میں مصروف این جی اوز اور ادارے مسائل کو اپنی استطاعت کی حد تک اٹھارہے ہیں۔ اس کے باوجود برسر اقتدار پارٹی، ان کی حلیف پارٹیاں اور لیڈر کسی اور ہی رخ پر گامزن ہیں۔یہ لوگ ان طریقہائے کار کو اختیار کیے ہوئے ہیں جن کا تذکرہ ابتدائی گفتگو میں کیا گیا ہے۔اس پس منظر میں چونکہ اردو قارئین کی اکثریت مسلمانوں پر مبنی ہے اور یہ مسلمان چاہے اپنے آپ کو شعوری مسلمان کہیں یا لاشعوری میں زندگی بسر کرنے والے مسلمان ،انہیں دیکھنا چاہیے کہ ملک کے دیگر شہریوں کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ حکومتیں چونکہ ان حقیقی مسائل کو حل کرنے کی جانب عام طور پر سنجیدہ نہیں ہیں لہٰذا اہم سوال یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمان کیا کرسکتے ہیں؟اس کا فیصلہ انہیں ابھی کرنا ہوگا نہ کہ کسی خاص دن جبکہ ان کی ووٹ دینے کی باری آئے تو ایک ووٹ دے کر سمجھ لیا جائے کہ ملک و ملت کے مسائل حل ہو گئے، اس طرح ان کی ذمہ داری مکمل ہو گئی؟ یا اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں جنہیں بحیثیت مسلمان، بحیثیت امت وسط اور بحیثیت شعوری طور پر اسلام سے وابستگی کے نتیجہ میں انہیں ادا کرنا ہوگی؟مزید یہ کہ جو کچھ بھی کرنے کی ضرورت ہے اسے چند جماعتوں یا این جی اوز کے بھروسے پر چھوڑا جاسکتا ہے اور کیا ایسا ممکن بھی ہے؟ یا تمام مسلمانوں کو بحیثیت ایک سنجیدہ شہری ہر مقام پر جہاں بھی وہ موجود ہیں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی جانب پیش قدمی کرنی چاہیے؟ ایسے میں اگر کچھ مسلمانوں کو چاہے وہ تعداد میں کچھ بھی ہوں احساس ہو جائے کہ ووٹ دینا ہی کافی نہیں اور یہ مسائل کا مکمل حل بھی نہیں تو پھر انہیں اللہ تعالیٰ نے جو وقت اور وسائل بھی میسر کیے ہیں ان کو غنیمت جانتے ہوئے سماج میں لیڈنگ رول ادا کرنا پڑے گا اور اگر مسلمان اس تعلق سے سنجیدہ ہوتے ہیں اور ملک کے مسائل کو عوام کے مسائل معاشرہ اور بازار کے مسائل کو اپنا دائرہ عمل سمجھیں گے تو لازماً جلد نہ سہی کچھ عرصہ بعد اس ملک کے اور عوام کے مسائل حل ہوں گے اور ملت اور مسلمانوں کی صورت حال میں بھی تبدیلی نظر آئے گی۔ لیکن اگر یہ احساس جاگزیں کروانے میں ہمارے قائدین کامیاب نہیں ہوئے تو پھر جس طرح ہر پانچ سال بعد نئے مسائل ملک اور ملت کے سامنے آتے جائیں گے ان میں تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آئیں گے۔
maiqbaldelhi.blogspot.com
***

 

***

 تمام مسلمانوں کو بحیثیت ایک سنجیدہ شہری ہر مقام پر جہاں بھی وہ موجود ہیں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی جانب پیش قدمی کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کو اگر یہ احساس ہو جائے کہ ووٹ دینا ہی کافی نہیں ہےاور یہ مسائل کا مکمل حل بھی نہیں تو پھر انہیں اللہ تعالیٰ نے جو وقت اور وسائل بھی میسر کیے ہیں ان کو غنیمت جانتے ہوئے سماج میں قائدانہ رول ادا کرنا پڑے گا۔۔ اگر مسلمان اس تعلق سے سنجیدہ ہوتے ہیں اور ملک کے مسائل کو عوام کے مسائل معاشرہ اور بازار کے مسائل کو اپنا دائرہ عمل سمجھیں گے تو لازماً جلد نہ سہی کچھ عرصہ بعد اس ملک کے اور عوام کے مسائل حل ہوں گے اور ملت اور مسلمانوں کی صورت حال میں بھی تبدیلی نظر آئے گی۔ لیکن اگر یہ احساس جاگزیں کروانے میں ہمارے قائدین کامیاب نہیں ہوئے تو پھر جس طرح ہر پانچ سال بعد نئے مسائل ملک اور ملت کے سامنے آتے جائیں گے ان میں تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آئیں گے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024