انشائیہ

نصف بہتر نہیں کہیں بہتر

اقبال مجیدﷲ

ازدواجی زندگی کو بآسانی کامیاب بنایا جا سکتا ہے
اپنی زندگی کی کہانی یا واقعات بیان کرنا بلاشبہ ایک مشکل مرحلہ ہوتاہے اور جب یہ کہانی اپنی ازدواجی زندگی سے تعلق رکھتی ہو تو یہ اور بھی دشوار ہوجاتی ہے۔ میں حال ہی میں اس تجربے سے گزرا ہوں وہ اس طرح کہ ہم نے اپنی ازدواجی زندگی کے پچاس برس مکمل کرلیے اور اس موقع پر ہمارے عزیز و اقارب، قریبی رشتہ دار، احباب اور ساتھ ہی ہمارے پوتے اور نواسے جو اب ہماری تیسری نسل کی ترجمانی کرتے ہیں انہوں نے ہماری شادی کی پچاسویں سالگرہ کا اہتمام کر ڈالا اور اس طرح ہم اس آباد خرابے میں عمر کے اکیاونویں برس میں داخل ہوگئے۔ اس نوعیت کے تقاریب منانے کے بارے میں ہم اپنی ایک علیحدہ رائے رکھتے ہیں، وہ یوں کہ سالگرہ یا جنم دن جو عمر کا ایک برس خیر وخوبی سے گزرتے کے بعد خوشیاں منانے کا اہتمام کرتے ہیں مگر سچ پوچھو تو ہماری عمر کا ایک سال ضرور بڑھ جاتا ہے یا زندگی کا ایک سال کم ہوجاتا ہے اور اس طرح ہم اپنے اختتام کہ کچھ اور قریب ہوجاتے ہیں تو کیا واقعی اُسے جوش و خروش سے منایا جائے؟ بہرحال ان تمام مفروضوں کو بازو رکھ کر ہمارے اپنوں کی خوشیوں کی خاطر اُسے گرم جوشی سے منایا گیا۔ ہم نے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز پچاس برس قبل کیا تھا اور کس تیزی سے یہ وقت گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔ مڑ کر دیکھا تو ہم اپنی نصف بہتر کے ہمراہ یہ نصف صدی کا سفر طے کرچکے تھے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان بیتے دنوں کی یادوں کو ذہن میں تازہ کر ہی رہے تھے کہ بے اختیار امجدالاسلام امجدؔ یاد آگئے کہ ؎
سودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں
ائے چشم یار مجھ کو ذرا سوچنے تو دے
عمر بھر گزارنے کا یہ سودا واقعی ہمارے لیے ایک کھیل ہی ثابت ہوا۔ وہ اس لیے کہ جس عمر میں ہم پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی تھیں اُس کے لیے ہم ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ ہم چاہتے تھے کچھ مالی استحکام کے قابل ہونے کے بعد اس بار کو سلیقہ سے اُٹھا پائیں۔ مگر حالات کے دباؤ نے ایسا کرنے نہیں دیا اور یہ المیہ نہ صرف ہمارے ساتھ ہی بلکہ متوسط طبقہ میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی خوشیاں بڑی حد تک محدود ہوتی ہیں اسی کے نتیجے کے طور پر عملی زندگی کے تجربات نے وقت سے پہلے ہی بالغ بنا دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ ہمارے چار لڑکے اُن کی بہوئیں، تین پوتے اور چھ پوتیاں زندگی کی اسی نبرد آزمائی میں ہمارے ساتھ شریک ہو کر اس مقدس بندھن کو ابھی تک نباہ رہے ہیں۔
ازدواجی زندگی کے آغاز میں ہم نے کامیاب اور خوشگوار زندگی بسر کرنے کے لیے کچھ تدابیر اور نسخے جمع کر رکھے تھے اور ان کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کیا تھا تاکہ اُس کی روشنی میں اپنی عملی زندگی گزارنے کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے جو کامیاب زندگی بسر کرنے کا اشاریہ ثابت ہو۔چنانچہ اسی پر عمل کرتے ہوئے ہم نے اولین اہمیت اس بات کو دی ہے کہ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے زوجین کی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کو سمجھنا ضروری ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں رہی کہ ازدواجی زندگی ایک سفر ہے جس کی مدت مقرر ہے اور اس کے لیے کوشش کی جائے کہ ہم اس سے بھر پور استفادہ کریں۔ ہم نے طے کیا تھا کہ اس راستے کو اپنائیں گے جو ہمیں کامیابی سے ہمکنار کر سکے اور اس پر چلنے سے قبل ہم نے اپنا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ ہم اپنی ملازمت اور دیگر ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد جو وقت رہ جاتا اسے کچھ پڑھنے، سوچنے اور موڈ بن جائے تو کچھ لکھ لینے میں گزارتے رہے اور یہ خامہ فرسائی کبھی انشائیہ نگاری کی شکل میں ابھرتی تو اسے ہم بغرض اشاعت ارسال کرتے رہے۔ یہ تو رہی ہماری بات اب رہا سوال ہماری نصف بہتر کا جن کے بغیر ہماری شخصیت مکمل نہیں ہو پاتی وہ باوجود پڑھی لکھی بڑی سند یافتہ ہونے کے انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ پڑھنے لکھنے کو تضئیع اوقات سمجھتی ہیں۔ ادب، عصری رحجانات، ملکی و غیر ملکی سیاسیات وغیرہ جیسے کسی موضوع سے ان کا کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ ہم سے پوچھتی ہیں کہ یہ سب پڑھ کر ہمیں کیا حاصل ہوگا؟ بلکہ بہتر ہوگا کہ وہ ان باتوں پر غور کریں جو ہمارے لیے اور خاص طور پر بچوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں اور ان سوالات کا جواب دینے میں ہم بے بس ہی نظر آتے رہے۔ اب چونکہ ہم ان سے ہم آہنگی اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کے پابند ہیں تو اس معاہدے کو ہم نباہ رہے ہیں اور اس ہم آہنگی کی کیا قیمت ادا کر رہے ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ ہم نے اپنی نصف بہتر کی طمانیت کے لیے اپنے اندر کئی تبدیلیاں پیدا کیں مگر ان کے اس رویے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ہماری بے حد خواہش ہوتی ہے کہ فرصت کے لمحات میں ان موضوعات پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کریں جس میں ہم دلچسپی رکھتے ہیں مگر یہ نصیب میں نہیں۔ اس کے باوجود ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں، ہم اپنی روش پر چل رہے ہیں تاکہ یہ رشتے یوں ہی قائم رہیں۔ ہم زیادہ وقت اپنی انہی سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں، وہیں ہماری نصف بہتر امور خانہ داری میں ہمہ تن مصروف رہتی ہیں۔ وہ گھر کی صاف صفائی اور ہر چیز کو سلیقہ سے حد درجہ رکھنا پسند کرتی ہیں اور اس میں تھوڑی سی تبدیلی بھی انہیں گوارا نہیں اور اسی وجہ سے ہمارا گھر ہمیشہ صاف ستھرا نظر آتا ہے اور کسی وقت بھی آنے والے مہمانوں کو اس بارے میں ایک اچھا تاثر ضرور دیتا ہے جس میں مکینوں کی سلیقہ مندی جھلکتی ہے۔ ہماری نصف بہتر گھریلو ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد باقی وقت اپنی باغبانی اور اس سے متعلقہ امور میں دلچسپی لیتی ہیں۔ خوبصورت پھولوں اور پودوں کی وہ رسیا ہیں اور انہیں کی کوششوں کی وجہ سے ہمارا گھر خوشبوؤں سے مہکتا ہوا نظرآتا ہے۔ باغبانی میں ہم دونوں ہی توجہ دیتے ہیں۔ میرا چونکہ محکمہ زراعت سے تعلق ہے اس لیے اکثر نئے نئے قسم کہ پھولوں کے پودے لاتا رہتا ہوں تاکہ ہمارے اس باغیچہ کی خوبصورتی کو اور بڑھاوا دیا جاسکے۔ میں پھولوں کی نگہداشت اور بچوں کی تعلیم و تربیت کو یکساں تصور کرتا ہوں اس لیے میں نئے پودوں کو لگانے کے بعد ان پر پورا دھیان دیتا ہوں تاکہ وقت پر پانی اور کھاد دی جائے اور صاف صفائی بھی ہوتی رہے تاکہ یہ پودے اچھی طرح پھل پھول سکیں۔ اس طرح ہمارا مختصر سا یہ باغیچہ ہم دونوں کے مشترکہ شوق کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح ہم نے اپنی زندگی میں کچھ خوشیوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے جس میں ایک کاوش اس طرح بھی اپنائی ہے کہ زندگی گزارنے کا پیمانہ یہ بھی ہے کہ آپ کی رفاقت نے ہماری نصف بہتر کی زندگی کو بڑی حد تک آسان کر دیا ہے جس کا وہ خود بھی اعتراف کرتی ہیں۔ ہماری نصف بہتر کو دن بھر کے واقعات کو بہت تفصیلی طور پر سنانے کا ملکہ حاصل ہے وہ اس انداز سے واقعات سناتی ہیں کہ کوئی معمولی سی بات بھی نہ چھوٹ جائے اور اُن کی ساری باتوں کو دلچسپی سے سماعت کرنا بہرحال ہمارے لیے لازمی ہوتا ہے۔ ہم یہاں اس بات کو بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ ان کے تمام رشتہ دار احباب و واقف کار پورے شہر میں نامہ نگاروں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں اور وہ اپنے موبائل کے ذریعہ تمام باتوں کو ان تک پہنچا دیتے ہیں اس طرح سے خبروں کا ایک نیٹ ورک مسلسل کام کرتا رہتا ہے۔ دن بھر کی تفصیلات مجھے رات کے کھانے کے میز پر ایک روداد کی طرح نہایت ہی تفصیل کے ساتھ گوش گزار کر دیتی ہیں اور اس طرح سے ہمارے لیے رات کی قومی و بین الاقوامی خبروں کے ساتھ ان کی خانگی خبروں کو بھی اسی انہماک سے سماعت کرنا پڑتا ہے۔ بالفرض خانگی خبریں زیادہ اہمیت کے حامل ہوں تو پھر قومی خبروں کی کیا مجال کہ انہیں دیکھا اور سنا جائے؟ اسی لیے انہیں بند کر دیا جاتا ہے۔
ہماری نصف بہتر نے زندگی میں شریک ہو کر ہماری زندگی میں ایک توازن پیدا کر دیا ہے۔ اس سے قبل ہمارے پڑھنے اور سوچنے میں زیادہ وقت دینے کی وجہ سے یہ توازن بڑی حد تک بگڑ گیا تھا۔ اب شریک حیات نے ہماری روز مرہ کی زندگی پر پوری طرح مسلط ہو کر خانگی معاملات میں ہماری دلچسپی کو بڑھا دیا ہے اور اس میں ایک نیا رنگ بھر دیا ہے۔ ہماری زندگی میں اس نئے رنگ کو سمجھانے کے لیے ایک آرٹسٹ دوست کا واقعہ یاد آتا ہے کہ میرے رفیق اور ان کی اہلیہ دونوں ہی مصوری سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اس شوق نے انہیں زندگی کے بہت سے معاملات سے دور کردیا تھا وہ زیادہ تر اپنی آرٹ کی دنیا میں کھوئے ہوئے نظر آتے تھے۔ ہوا یوں کہ ہمارے مصور دوست اور ان کی اہلیہ کو ایک ایسی جگہ جانا تھا جہاں انہیں اپنے کسی عزیز کے سانحہ ارتحال پر پرسہ دینا تھا اور دوسری تقریب میں ایک ولیمہ میں شرکت کرنا تھی۔ اور وہاں انہیں مبارکباد اور تحفہ بھی دینا تھا۔ انہوں نے یہ طے کیا کہ دونوں جگہوں پر شرکت کریں گے اور ان کاموں کو بخوبی انجام دیں گے۔ انہوں نے اس کے لیے ایک تحفہ بڑی خوبصورتی سے پیک کیا مگر اس کے اوپر جلی حروف میں دونوں کا نام لکھنا بھول گئے۔ ان تمام باتوں کو اچھی طرح ذہن میں رکھتے ہوئے ان دونوں ہی تقاریب میں شرکت کی۔ اب وہ دونوں ہی ٹھہرے آرٹسٹ مزاج۔ ان سے گڑبڑ یہ ہوئی کہ انہیں اپنے پہلے رشتہ دار کے یہاں جہاں انہیں پُرسہ دینا تھا وہاں انہوں نے پرسہ دیا اور مرحوم کی یاد میں اشکبار بھی ہوئے اور اسی کے ساتھ لایا ہوا تحفہ بھی صاحب خانہ کو تھما دیا۔ انہیں حیرت ہوئی کہ وہ تحفہ کیوں دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سمجھا شاید کوئی نئی رسم کا آغاز ہوا ہے کہ تعزیت کے ساتھ کچھ تحفہ بھی دیا جائے۔ بہرحال انہوں نے اسے قبول کرلیا۔ اس رسم کو انجام دینے کے بعد وہ دوسری تقریب ولیمہ میں شریک ہوئے۔ انہوں نے گرم جوشی سے بغلگیر ہوتے ہوئے دلہے کو کامیاب زندگی کے لیے خوب دُعائیں دیں۔ مگر جیسے ہی دیگر احباب پر نظر پڑی جو دلہے کو مبارکباد دیتے ہوئے تحفے دے رہے تھے یہ دیکھتے ہی ان کا اپنا تحفہ یاد آیا جو وہ دوسری جگہ دے چکے تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ بے حد پشیماں ہوئے مگر خود کو سنبھالا اور فوراً قریبی اسٹور سے اچھا تحفہ لے آئے اور انہوں نے اسے اپنی اہلیہ کو دیا تاکہ وہ رشتہ داروں کے حوالے کر دیں۔ اس طرح سے انہوں نے یہ رسم پوری کی۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھر کے اندرونی اور بیرونی معاملات پر شریک حیات کا اختیار ہے اور کسی بھی معاملہ میں ان کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے، جیسے ضروریات کی خریدی، کوئی بڑا کام ان میں کسی بھی قسم کی مداخلت گوارا نہیں اور گھر کے تمام افراد اس ڈسپلن کے عادی ہو گئے ہیں اور اس طرح سے ہمارا گھر ایک متوازن گھر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہم ان کے کسی بھی اقدام میں مداخلت نہیں کرتے ہیں بلکہ اسے اس طرح سے مان لیتے ہیں کہ ان کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ اس طریقہ کار سے ہماری نصف بہتر پر ایک جادو سا چل گیا ہے اور یہ نسخہ بڑا کامیاب ثابت ہوا اور ہم باوثوق طور پر یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ رہنے نے ان کی زندگی کو کافی آسان کردیا ہے۔ ہم نے اپنے عملی تجربات سے اس حقیقت کو بھی جانا کہ میاں بیوں اپنی پریشانیوں کو حل کرنے میں ان کے رویہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں وہ اس طرح کہ مرد کسی مشکل کے بارے میں سوچتا ہے اور عورت اس کو محسوس کرتی ہے اور اس تفاوت میں مشکلات کو حل کرنے میں کامیابی ملی ہے۔ یہ بات بھی ہم پر عیاں ہوچکی ہے کہ ان مشکلات کو ہم اپنی شخصیت کا حصہ مان لیتے ہیں اور اسے برداشت کرلیتے ہیں اور ہم نے اس یقین کو مزید مستحکم کرلیا ہے کہ ناکامی کوئی چیز نہیں ہے اور زندگی نام ہے تجربات سے گزرنے کا۔ شریک حیات کے ساتھ اور اپنے پر بھروسہ اور دوسروں پر اعتماد نے کامیابی کا راستہ بھی کھول دیا ہے۔
ازدواجی زندگی کا یہ قصہ دو چار برس کی بات نہیں بلکہ یہ نصف صدی سے زائد پر محیط ہے اور جس کا محور بلاشبہ ہماری شریک حیات ہیں جن سے ساری خوشیاں جڑی ہوئی ہیں اور انہوں نے ہماری ادھوری زندگی کو مکمل کردیا ہے۔ میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انہیں نصف بہتر کیوں کہا جاسکتا ہے جبکہ بہت سی خوشیاں ان سے ملی ہیں۔ ان کے تعلق سے ہمارا تجربہ تصدیق کرتا ہے کہ وہ ہر طرح سے ’’ نصف ‘‘ ہونے کے باوجود ہر لحاظ سے ’’ مکمل ‘‘ ہیں۔ زندگی کو سلیقہ سے گزارنے کا ہنر ہم نے ان سے سیکھا ہے اور یوں خوشیوں کو اپنے گھر میں تلاش کیا ہے اور اُن کے ساتھ اندھیرے اجالے دور و نزدیک ہونے کا یہ سفر جاری ہے۔۔۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 جولائی تا 29 جولائی 2023