ابراہیم افسر، میرٹھ (یو پی)
غیر افسانوی ادب میں انشائیہ کافی مقبول و معروف صنف ہے۔ اس صنف کو اردو نے مغرب سے مستعار لیا ہے۔ اس صنف میں ہلکی پھلکی تحریریں انسان کے ذہن کو فرحت بخشتی ہیں۔ مضمون میں جو بات سنجیدگی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے وہی بات انشائیے میں نرم و نازک اور شیریں انداز میں بیان کی جاتی ہے۔ انشائیے تخلیق کرنا ایک دو دھاری تلوار کے مانند ہے۔ ذرا سی لغزش سے تحریر بوجھل بن جاتی ہے۔ در اصل انشائیہ، طنز و مزاحیہ مضمون سے مختلف ہوتا ہے۔
بر صغیر میں انشائیہ لکھنے والوں میں محمد اسداللہ کا نام بہت نمایاں ہے۔ انشائیہ نگاری کے رموز و نکات کو انہوں نے اپنی تخلیقات میں سلیقہ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ موصوف کی انشائیہ کے حوالے سے اب تک ایک درجن سے زیادہ تصنیفات و تالیفات منصہ شہود پر آکر قارئین سے دادِ تحسین وصول کر چکی ہیں۔ ان کتابوں میں ’انشائیے کی روایت مشرق و مغرب کے تناظر میں‘، ’یہ ہے انشائیہ‘، ’انشائیہ شناسی‘، ’بوڑھے کے رول میں‘ اور ’ڈبل رول‘ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے مضامین ہند و پاک کے موقر ادبی رسائل و جرائد میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا کے ماہنامہ رسالے ’’اوراق‘‘ میں ان کے انشائیے شائع ہوئے ہیں۔ موصوف نے ڈاکٹر وزیر آغا کی ستائش کے بعد اس میدان میں قدم رکھا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’انشائیہ: ایک خوابِ پریشاں‘‘نمیں محمد اسداللہ نے 16 مضامین شامل کیے ہیں جن میں یہ ہے انشائیہ، انشائیہ کی تعریف، انشائیے کی شناخت، پس پردہ (پیش لفظ: ڈبل روٹی) آزادیِ اظہار کا مظہر: انشائیہ، عالمی مسائل کا اظہار اردو ادب میں، مغرب میں انشائیے کی روایت، عہد سرسید میں انشائیہ نگاری، مولانا ابوالکلام آزاد اور انشائیہ نگاری، کرشن چندر اور انشائیہ نگاری، وزیر آغا کی انشائیہ نگاری، غلام جیلانی اصغر، انور سدید، جدید انشائیہ نگاری کا ایک اہم ستون: جمیل آذر، انشائیے کا مستقبل، انشائی مجموعے: ایک نظر میں وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں اس کتاب میں انٹرویو، سوال نامے پر مبنی جوابات، ایک خط اور شناس نامہ بھی شامل ہے۔
محمد اسداللہ نے کتاب میں شامل پہلے تین مضامین ’’یہ ہے انشائیہ، تعریف انشائیہ اور انشائیے کی شناخت‘‘ میں انشائیے کے بانی، لفظ انشائیہ اور اس کے خد و خال پر تحقیقی و تنقیدی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے ان مضامین میں مشرقی اور مغربی ادب میں انشائیہ نگاری کے جو مطالب و مفاہیم بیان کیے ہیں انہیں تنقید کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ہند و پاک کے نامور انشائیہ نگاروں کی تصنیفات سے اقتباسات اور اقوال اپنے مضامین میں شامل کیے ہیں۔ مضامین کے آخر میں موصوف نے حوالہ جات کا خاص اہتمام کیا ہے جس سے مضمون میں صداقت اور حقیقت بیانی کا عنصر غالب ہوا ہے۔ محمد اسداللہ نے صفحہ 21 تا 22 پر ہند و پاک کے 109 مشہور و معروف انشائیہ نگاروں کی فہرست شامل کی ہے، ساتھ ہی صفحہ 23 تا 24 پر 39 انشائی مجموعوں کی فہرست مع سن اشاعت شامل کی ہے۔ دراصل یہ تمام انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغا کی انشائیہ نگاری تحریک سے وابستہ تھے۔ اس میدان میں قدم رکھنے والوں کے لیے انشائیہ نگاروں کے اسما اور کتابوں کے نام ایک دستاویزی حوالہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
محمد اسداللہ نے اپنے مضمون’’انشائیے کا مستقبل‘‘ میں انشائیے کے حوالے سے بہت سی کارآمد باتیں رقم کی ہیں۔ ان کی نظر میں اب ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جنہیں انشائیے اور طنز یہ و مزاحیہ مضامین میں فرق کرنا نہیں آتا۔ وہ افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ اب تو لوگ پطرس کے مضامین کو بھی انشائیہ کہنے لگے ہیں۔ہندوستانی پس منظر میں انشائیے کے روشن مستقبل سے انہیں بے زاری ہے۔ اس کی ایک وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ رسائل وجرائد کے مدیران انشائیوں کو اپنے یہاں شائع کرنے سے کتراتے ہیں۔ کتاب کے اٹھارویں مضمون ’’انشائی مجموعے: ایک نظر میں‘‘ میں محمد اسد اللہ نے نو کتابوں کے تعارفی نوٹ تحریر کیے ہیں۔ ’’ایک خط‘‘ میں موصوف نے ظفر کمالی کے مضمون ’’اردو ادب میں انشائیہ کا آغاز اور روایت‘‘ (شائع شدہ اردو دنیا) سے نظریاتی اختلاف پیش کیا ہے جس میں سرسید احمد خاں کو انشائیے کا بانی قرار دیا تھا۔
بہر نوع! موجودہ وقت میں انشائیہ نگاروں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میدان میں کئی لوگوں نے قدم رکھا ہے جن کی تحریریں اور کتابیں منظرِ عام پر آ رہی ہیں۔البتہ میں محمد اسداللہ کو انشائیہ جیسے اہم موضوع پر کتاب کی اشاعت کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ کتاب کا سرورق بہت ہی دیدہ زیب، کاغذ کی کوالٹی عمدہ اور قیمت بہت ہی مناسب ہے۔ انتساب مرحوم سلیم آغا قزلباش کے نام ہے۔
کتاب کی قیمت: 141 روپے، ضخامت: 224 صفحات اور ملنے کا پتہ: محمد اسداللہ 30 گلستان کالونی، جعفر نگر، ناگپور 440013 (مہاراشٹر)ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023