انسانوں کو بھوک سے بچانے کی خاطر غذائی اجناس کی بربادی پر روک لگانا ضروری
امریکہ و اسرائیل غزہ کے بچوں، بوڑھوں اور مردوں و عورتوں کو ’بھوک بم‘ سے بھی ہلاک کر رہے ہیں
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
آج دنیا بھر میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک جس طرح غذائی اجناس کو ضائع اور برباد کررہے ہیں اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ مادی ترقی کے ساتھ دور جدید میں بھی انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں اور دوسری طرف بڑی مقدار میں غذائی اشیا کو بری طرح برباد کردیا جاتا ہے۔ واقعی انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام UNEP کی ایک رپورٹ اس تلخ حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ دنیا بھر میں 19 فیصد خوراک برباد کردی جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ساری دنیا میں لمبے عرصے سے 78.3 کروڑ انسان بھوک سے زور آزمائی کر رہے ہیں۔ عالم انسانیت پر سوار دو شیطانی ممالک امریکہ و اسرائیل غزہ کے رہنے والے بچوں، بوڑھوں، مردوں و عورتوں کو بھوک کے بم (Hunger Bomb) سے ہلاک کر رہے ہیں۔ جب فلسطین عوام اپنی بھوک کی آگ کو بجھانے کے لیے امدادی قافلے کے پاس قطار بند ہوتے ہیں تو صیہونی شیطان اسرائیل، امریکہ کے سپلائی کردہ بموں اور گولیوں سے انہیں بھون دیتے ہیں۔ اس طرح اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ ایک ننگی حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کُل وسائل کی موجودگی کے باوجود خوردنی اشیا کی عادلانہ تقسیم نہیں ہو پا رہی ہے جو ایک اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ ماحولیات پر منفی اثرات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یقینی طور سے یہ مصیبت ہمارے ملک کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔ آج حکومت 81 کروڑ حاشیے پر پڑے بھوکے لوگوں کا جانوروں کے اناج سے پیٹ بھر رہی ہے۔ 23 کروڑ خط غربت سے نیچے (بی پی ایل) زندگی بسر کرنے والے نان شبینہ کو ترستے ہیں۔ آج غذائی اجناس کی بربادی ایک چیلنج ہے۔ ہمارے ملک کے سرکاری گوداموں کا پیٹ ضرورت سے زائد اناج ٹھونسے جانے پھول رہا ہے جب کہ بھوکے غریبوں کا پیٹ پیٹھ کو لگتا جا رہا ہے۔ بھارتی غذائی سلامتی اور قومی اسٹینڈرڈ کے مطابق غذائی اجناس کا ایک تہائی حصہ استعمال میں آنے سے قبل ہی برباد ہوتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق یہ ضیاع ہمارے ملک میں فی کس 50 کلو گرام ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک امریکہ میں 60 کلو فی کس اور چین میں 65 کلو فی کس سالانہ ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی دیگر رپورٹوں میں ہمارے ملک میں تغذیہ کی کمی کی مصیبت سالہا سال سے دکھائی جا رہی ہے، جس کے مطابق 7.4 فیصد آبادی صحت بخش غذا کا خرچ اپنی مفلسی کی وجہ سے برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ ایسی غذائی اجناس کی بربادی دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی گرین ہاوس گیسوں کے اخراج سے ماحولیاتی آلودگی کی مصیبت لارہی ہے کیونکہ کچرے میں پڑی سڑی ہوئی غذا سے میتھین گیس کے اخراج سے گلوبل وارمنگ جیسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے مارچ میں گرمی کی شدت باشندگان ملک کے لیے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے منصفانہ غذائی تقسیم کو اولیت دینے اور ترجیحات میں لانے کے لیے حکومت اور عوامی جہد کاروں کو فی الفور توجہ دینا ہوگا۔ عالمی اداروں کا بھی مشورہ ہے کہ غذائی تقسیم کے نظام میں مکمل تبدیلی لائی جائے۔ آج ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ اب اس کے لیے قومی پیمانے پر ایک بڑے لائحہ عمل کی ضرورت ہے جس کے لیے بیداری مہم منصوبہ بند تبدیلی اور برادریوں میں رائج پہلووں کو یکجا کرکے مسلسل کوشش کرنا ہوگا۔ دوسری طرف مبہم اور بے ہنگم سرکاری مداخلت کو کم سے کم کرنے کے لیے ضابطہ بند کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی سماجی سطح پر غذاوں کو ضیاع سے تحفظ کے لیے طویل مدتی جدوجہد کو بڑھاوا دینا ہوگا تاکہ خدمت خلق کے اداروں، سرکاری ایجنسیوں اور پرائیویٹ انٹرپرینور کی مشترکہ کوششوں سے تھالی میں بچ گئے کھانوں کی بہتر تقسیم کا نظم ہو۔
حال ہی میں غذائی اجناس کی بربادی اور ضیاع کے تعلق سے اقوام متحدہ کے ذریعہ شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق یومیہ تقریباً ایک ارب تھالیاں دنیا بھر میں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ فی کس 79 کلو گرام کھانا لوگ برباد کردیتے ہیں جو انتہائی قابل تشویش ہے۔ یو این ای پی کی رپورٹ سے بھی زیادہ غذائی اجناس کی بربادی 30 فیصد تک دکھائی جارہی ہے۔ تنہا امریکہ میں جتنا کھانا ضائع ہوتا ہے وہ افریقی سہارا خطوں کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل کر سکتا ہے اور ایتھوپیا جیسے ممالک کی غذائی قلت کو اٹلی میں غذائی اجناس کی بربادی سے محفوظ کر کے پورا کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غذائی اشیاء کا گھریلو سطح پر 60 فیصد جبکہ سپلائی کے دوران 13فیصد ضیاع ہوتا ہے۔ اور سب سے کم خردہ فروخت پر ہوتا ہے۔ یعنی دکانوں سے فروخت کیے گئے اشیاء کم سے کم ضائع ہوتے ہیں۔ شہری لوگ ہی غدائی اشیاء کو زیادہ برباد کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں وہ بھی اس جرم میں شامل ہیں۔ مگر دیہی علاقوں اور گاوں میں کھانے پینے کی اشیاء کا ضیاع کم ترین سطح پر ہے۔ کیونکہ وہاں کے لوگ چرند و پرند کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی تہذیب کا حصہ ہے۔ بھارتی فلسفہ میں اناج کو مذہبی (پرساد) مان کر عزت دینے کی روایت ہے۔ آج بھی چند مہذب گھرانوں کے افراد کھانے کے قبل خوردنی اشیا کو سلام (پرنام) کرکے نوالہ منہ میں رکھتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ خوردنی اشیا کی تعظیم و تکریم ہو تاکہ غذائی اجناس کا متوازن استعمال ہو۔ محسن انسانیت حضرت محمدؐ نے فرمایا: اکرم الخبز یعنی روٹی کی عزت کرو۔ دستر خوان سے گری ہوئی روٹی کو چن کر کھالو۔ انگلیوں کے ساتھ لگی ہوئی چیز کو کھالو، یہاں تک کہ برتن کی ساتھ لگی ہوئی چیز کو بھی چاٹ کر کھالو، ہوسکتا ہے کہ اس کے اندر برکت ہو (صحیح مسلم) پلیٹ میں جو کچھ رہ جائے اگر رقیق ہوتو اسے پی لیا جائے۔ اس طرح ہم کھانے کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ جب ہم غدائی سلامتی کی بات کرتے ہیں تو اس میں چرند، پرند کے ساتھ پالتو جانوروں کا خیال بھی رکھا کریں۔ گاوں کے لوگ کتے، بلی، گائے، بھینس، مرغیوں و دیگر جانوروں کی غدائی سلامتی کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچے ہوئے کھانے کو محفوظ کرنے کو عار نہیں سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف شہریوں کے نفسیات میں چرند و پرند کو کھلانا نہیں رہتا۔ رپورٹ میں بیس ممالک، جاپان آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ یوروپی یونین کے ممالک میں گھریلو سطح پر غدائی ضیاع کو روکنے کی بات ہوئی ہے۔ سعودی عرب اور کناڈا نے اس ضمن میں اچھی پیش رفت کی ہے۔
تشویش کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں 40 فیصد غذائی اشیاء ضائع ہو جاتی ہیں۔ لدھیانہ میں واقع آئی سی اے آر کے ادارہ سی آئی پی ایچ ای ٹی کے مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے ملک میں غذائی اجناس کی بربادی ذخیرہ اندوزی کے وقت چاول اور گیہوں کا کم ہوتا ہے اس کے برخلاف سبزیاں پھل فروٹ زیادہ ہی برباد ہوتے ہیں۔ اس میں آم، امرود، ٹماٹر، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ خوردنی اشیا کے موثر طریقے سے ضیاع کو روکنے کے لیے سماجی بیداری کے لیے فلم اسٹارس، کرکٹ اسٹارس و دیگر عوامی نمائندوں کو آگے آنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کا اس سمت میں اقدام اور تنقید بروقت ہے تاکہ ہم اپنے ضابطوں میں تبدیلی لاکر تغذیہ کی سلامتی، غذائی سلامتی اور موسمیاتی تبدیلی کے تعلق سے چوکنا رہیں۔
فی الحال کرہ ارض پر تقریباً 7.8 ارب لوگ آباد ہیں اور 2050 تک آبادی 9 ارب ہو جانے کا اندازہ ہے۔ ساری دنیا میں جتنی پیداوار ہو رہی ہے 14 ارب لوگوں کے لیے کافی ہے جو ہماری آبادی کے تناسب سے دوگنی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سماج کا ایک طبقہ کھا کھا کر بدہضمی اور موٹاپے کا شکار ہے جبکہ آج ملک میں 30 فیصد بچے موٹاپے کے مرض کو جھیل رہے ہیں جبکہ دنیا کی 12 فیصد ممالک بشمول بھارت کے پاس ضروری تناسب سے غذا دستیاب نہیں ہے۔ خصوصاً صومالیہ، سوڈان، ایتھوپیا فلسطین وغیرہ میں۔ اب ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے پیداوار پر کم توجہ دینی ہوگی۔ آج ہم جتنی فصل حاصل کر رہے ہیں اسے بربادی سے بچاتے ہوئے سنبھال کر استعمال کرنے کا سلیقہ سیکھیں تو عالمِ انسانیت کو بھوک سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024