اندور: ایک کتاب کے خلاف اے بی وی پی کے احتجاج کے بعد لاء کالج کے پرنسپل استعفیٰ دینے پر مجبور، پولیس نے مقدمہ بھی درج کیا

نئی دہلی، دسمبر 4: انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق ہفتہ کو مبینہ طور پر استعفیٰ دینے پر مجبور کیے جانے کے چند گھنٹے بعد اندور میں ایک سرکاری لاء کالج کے پرنسپل کے خلاف، تین دیگر افراد کے ساتھ، دشمنی کو فروغ دینے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

انعام الرحمٰن کے خلاف کارروائی، جو 2019 سے نیو گورنمنٹ لاء کالج کے پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری میں ایک کتاب کو لے کر کالج میں ایک تنازعہ کے بعد کی گئی۔

اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد یا اے بی وی پی کے ارکان نے الزام لگایا تھا کہ کتاب ’’اجتماعی تشدد اور مجرمانہ انصاف کا نظام‘‘ میں ہندوؤں اور ہندوتوا تنظیموں جیسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے خلاف قابل اعتراض مواد موجود ہے۔

اے بی وی پی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا طلبہ ونگ ہے۔

اے بی وی پی کے ارکان نے الزام لگایا کہ کتاب ’’ہندو فرقہ پرستی کے ایک تباہ کن نظریہ کے طور پر ابھرنے کی بات کرتی ہے۔ کتاب میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندوتوا تنظیمیں ایک ہندو اکثریتی ریاست قائم کرنا چاہتی ہیں اور دوسری برادریوں کو غلام بنانا چاہتی ہیں۔‘‘

یکم دسمبر کو تنظیم کے ارکان نے کالج کے کچھ پروفیسرز پر ’’لو جہاد‘‘ کو فروغ دینے اور ’’مذہبی انتہا پسندی‘‘ کا پرچار کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔ ان پروفیسرز کو تعلیمی کام انجام دینے سے عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا کیوں کہ کالج کے حکام نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ہفتہ کو مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے پولیس کو اس کتاب کے مواد کی تحقیقات کرنے کے بعد مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

جس کے بعد کتاب کے مصنف رحمان، فرحت خان، کتاب کے پبلشر امر لاء پبلی کیشن اور پروفیسر مرزا معیز بیگ کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کی گئی۔

دی انڈین ایکسپریس نے کالج حکام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ایف آئی آر ایک طالب علم لکی اڈیوال کی طرف سے درج شکایت پر مبنی ہے، جس نے مبینہ طور پر گذشتہ دو سالوں سے اپنی فیس ادا نہیں کی ہے۔

وہیں ہفتے کے روز پرنسپل رحمان نے دعویٰ کیا کہ جب انھوں نے 2019 میں چارج سنبھالا تو وہ نہیں جانتے تھے کہ کالج کی لائبریری میں وہ کتاب موجود ہے۔

انھوں نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’مجھے دباؤ میں استعفیٰ دینا پڑا جس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی۔ یہ کتاب اس وقت کے پرنسپل نے 2014 میں فیکلٹی کی سفارش پر خریدی تھی۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’اس وقت کتاب کے مواد پر اعتراضات کے بعد مصنف کو معافی مانگنی پڑی تھی اور اس کے بعد سے یہ کتاب کبھی بھی نصاب کا حصہ نہیں رہی۔‘‘

دریں اثنا امر لاء پبلی کیشنز کے نمائندے ہتیش کھیترپال نے کہا کہ کتاب کے کچھ صفحات کے مواد کو 2021 میں ایڈٹ کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا ’’اس کتاب کا پہلا ایڈیشن سال 2015 میں شائع ہوا تھا۔ جب ہمیں 2021 میں اس کے متنازعہ حصوں کے بارے میں معلوم ہوا تو ہم نے اس کے مصنف سے اس پر تبادلہ خیال کیا اور کتاب کے متعلقہ صفحات کو تبدیل کر دیا۔‘‘

کھیترپال نے یہ بھی کہا کہ اس وقت خان کی طرف سے معافی نامہ بھی پیش کیا گیا تھا۔