گلوبل ہنگر انڈیکس: تغذیہ فراہم کرنے میں ہندوستان پھسڈی، ہمسایہ ممالک سے بھی پیچھے

نئی دہلی، اکتوبر 15: گلوبل ہنگر انڈیکس کی ویب سائٹ، جو بھوک اور غذائیت کی کمی کو ٹریک کرتی ہے،  نے ہفتے کو یہ رپورٹ شاءع  کی ہے کہ ہندوستان،  پاکستان،  بنگلہ  دیش اور نیپال سے بھی  پیچھے  ہے۔ چین، ترکی اور کویت سمیت 17 ممالک جی ایچ آئی کے 5 سے کم اسکور کے ساتھ سرفہرست ہیں۔
معاشی سست روی اور کورونا کے بحران کے درمیان بھارت میں بھوک اور غیر متوازن غذائیت کی صورتحال مزید خراب ہوگءی ہے۔ 116 ممالک کی اس فہرست میں ہندوستان 101ویں مقام پر ہے۔ اس سے قبل سنہ 2020 میں بھارت 94 نمبر پر تھا۔

اس فہرست میں پاکستان 92ویں، نیپال اور بنگلہ دیش 76ویں نمبر پر ہیں جبکہ چین، برازیل اور کویت سمیت 18 ممالک سرفہرست ہیں جن کا جی ایچ آئی اسکور پانچ سے کم ہے۔

خیال رہے کہ  گلوبل ہنگر انڈیکس یہ ظاہر کرتا ہے کہ مختلف ممالک میں لوگوں کو کیسے اور کتنا کھانا ملتا ہے۔ یہ انڈیکس ہر سال تازہ ترین اعداد و شمار کے ساتھ جاری کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے دنیا بھر میں بھوک کے خلاف جاری مہم کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی بھی عکاسی کی جاتی ہے۔

یہ رپورٹ آئرلینڈ کی امدادی ایجنسی کنسرن ورلڈ وائڈ اور جرمنی کی تنظیم ویلٹ ہنگر ہلفے نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔ رپورٹ میں ہندوستان میں بھوک کی سطح کے بارے میں شدید خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

سنہ 2020 میں ہندوستان 107 ممالک کی فہرست میں 94ویں نمبر پر تھا۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کا جی ایچ آئی اسکور مزید نچلے پاءیدان  پر  پہنچ  گیا ہے۔ سنہ 2000 میں یہ 38.8 تھا جو 2012 اور 2021 کے درمیان کم ہو کر 28.8-27.5 رہ گیا۔

اس سکور کا تعین چار اشاروں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے: غذائیت کی کمی، بچوں کا کمزور ہونا، بچے کے قد کا چھوٹا ہونا اور بچوں کی اموات۔

بلند جی ایچ آئی کا مطلب ہے کہ بھوک کا مسئلہ اس ملک میں زیادہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی ملک کا سکور کم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں کی صورتحال بہتر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ہندوستان میں کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے لگائی گئی پابندیوں کا لوگوں پر شدید اثر ہوا ہے۔‘

ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کی ایک اہم وجہ کورونا کی عالمی وبا ضرور ہے لیکن یہ صرف اس وبائی بحران تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک سماجی اور معاشرتی مسئلہ بھی ہے نیز حکومت کا اس میں کس قدر رول ہے اسے بھی یہ ظاہر کرتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ’لوگ اس کی وجہ کووڈ اور روایتی پیشے سے محرومی کو سمجھتے ہیں لیکن اگر آپ سطح کو تھوڑا بھی کھرچیں تو معلوم ہو گا کہ ہم اس مسئلے پر کئی برسوں سے جدوجہد کر رہے ہیں اور کئی برسوں سے اس کے اشارے مل رہے ہیں۔ لہٰذا یہ صرف وبائی مرض یا خشک سالی جیسی عارضی صورتحال کے بارے میں نہیں بلکہ کھانے کی غیر مساوی تقسیم اور رسائی کے مسائل بھی ہیں۔

جنوبی ایشیا اور افریقہ کے کچھ حصوں میں غذائی قلت طویل عرصے سے عام ہے لیکن ہندوستان میں بہت سے افریقی ممالک سے بھی بدتر صورتحال کی وجہ روایتی جنسی کردار، پیدائش کی بلند شرح اور غذائیت سے محروم بچوں اور ماؤں کی صحت، صفائی ستھرائی اور ناقص معیار کی خوراک جیسے مسائل ہیں۔

سچائی تو یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں میں غذائیت سے بھرپور سبزیاں دستیاب ہیں لیکن لوگ غربت کی وجہ سے وہ انہیں خود استعمال نہیں  کر پاتے۔ وہ گائیں پالتے ہیں لیکن اس کا دودھ نہیں پیتے بلکہ اسے فروخت کر دیتے ہیں۔‘

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آءی ہے کہ ہنگر انڈیکس پر اثرانداز ہونے والا غذائیت کا مسئلہ مڈل کلاس میں بھی ہے بھلے ہی ان کی معاشی حالت بہتر کیوں نہ ہو۔ 

مذکورہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر خزانہ پی چدمبرم نے کہا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے 8 سالوں میں یعنی 2014 سے ہمارا اسکور خراب ہوا ہے۔ انہوں نے ٹویٹر پر سوال کیا کہ “معزز وزیر اعظم بچوں میں غذائی قلت، بھوک اور بے بسی جیسے حقیقی مسائل پر کب توجہ دیں گے؟”

 تلنگانہ کے وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے تارک راما راؤ نے کہا ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کا درجہ 101سے 107ہوگیا ہے۔ ٹوئیٹر پر سرگرم تارک راما راؤ جو حکمران جماعت ٹی آرایس کے کارگذار صدر بھی ہیں، نے طنزیہ انداز میں این ڈی اے حکومت کو این پی اے حکومت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ – یہ ایک اور دن – این پی اے حکومت کا ایک اور شاندار کارنامہ۔ انہوں نے کہا کہ ناکامیوں کو قبول کرنے کے بجائے، یقینی طورپر بی جے پی کے جوکرس، اس رپورٹ کو ملک مخالف قرارد دے کرمسترد کردیں گے، ساتھ ہی وزیر موصوف نے ہیش ٹیگ اچھے دن بھی لکھا ہے۔ انہوں نے اس خبر کے سلسلہ میں انگریزی کے ایک مشہور اخبار کی خبر کا تراشہ بھی لگایا ہے۔