لاء کمیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پنجاب سے لے شمال مشرق تک کی صورت حال کے سبب ہندوستان کو بغاوت کے قانون کی ضرورت ہے

نئی دہلی، جون 28: لاء کمیشن کے چیئرپرسن جسٹس ریتو راج اوستھی نے منگل کو کہا کہ کشمیر سے کیرالہ اور پنجاب تک اور شمال مشرق کی صورت حال، ہندوستان کی سالمیت کی حفاظت کے لیے بغاوت کے قانون کو برقرار رکھنا ضروری بناتی ہے۔

پچھلے مہینے لاء پینل نے بغاوت سے نمٹنے والی تعزیرات ہند کی دفعہ 124A کو برقرار رکھنے کی سفارش کی تھی۔ یہ پیش رفت تقریباً ایک سال بعد ہوئی جب سپریم کورٹ نے غداری کے قانون کی کارروائی پر روک لگا دی اور ریاستی حکومتوں اور مرکز سے درخواست کی کہ جب تک اس کی دوبارہ جانچ نہیں کی جاتی اس کے تحت کوئی نیا مقدمہ درج نہ کیا جائے۔

لاء کمیشن نے حکومت کو پیش کی گئی اپنی 88 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں دفعہ 124A میں ’’تشدد کو بھڑکانے یا عوامی انتشار پھیلانے کا رجحان‘‘ کے الفاظ بھی شامل کرنے کی سفارش کی۔ اس نے واضح کیا کہ یہ تبدیلی اصل تشدد یا تشدد کے شدید خطرے کے بجائے تشدد کو بھڑکانے یا عوامی انتشار پیدا کرنے کے لیے پراسیکیوشن کی اجازت دے گی۔

منگل کو جسٹس اوستھی نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ خصوصی قوانین جیسے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ اور قومی سلامتی ایکٹ مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں اور بغاوت کے جرم کا احاطہ نہیں کرتے۔ اس لیے اس نے بغاوت کے قانون کی پشت پناہی کے اقدام کو جائز قرار دیا۔

درحقیقت لاء پینل نے یہ بھی سفارش کی تھی کہ اس قانون کے تحت جیل کی مدت کو تین سال سے بڑھا کر سات سال کر دیا جائے۔ اس نے کہا تھا کہ جیل کی سزا میں اضافہ عدالتوں کو بغاوت کے مقدمے میں سزا دینے کے لیے زیادہ گنجائش فراہم کرے گا اور وہ عمل کے پیمانے اور شدت کے مطابق سزا سنائے گا۔

جسٹس اوستھی نے منگل کو پی ٹی آئی کو بتایا ’’ہم نے پایا ہے کہ سزا کے انتظام میں بڑا فرق ہے کیوں کہ تین سال تک کی سزا یا جرمانے کے ساتھ یا اس کے بغیر عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔‘‘

پینل کی تجویز پر کئی اپوزیشن لیڈروں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی پر اگلے سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات سے قبل اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

لیکن جسٹس اوستھی نے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے بغاوت کے قانون کے غلط استعمال کو کم کرنے کے لیے کچھ طریقۂ کار کے تحفظات کی سفارش کی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابتدائی تفتیش انسپکٹر یا اس سے اوپر کے رینک کا پولیس افسر کرے گا۔

جسٹس اوستھی نے کہا کہ واقعہ کے سامنے آنے کے سات دنوں کے اندر انکوائری کی جائے گی اور اس معاملے میں پہلی معلوماتی رپورٹ درج کرنے کی اجازت کے لیے ابتدائی رپورٹ مجاز سرکاری اتھارٹی کو پیش کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’’ابتدائی رپورٹ کی بنیاد پر، اگر مجاز حکومتی اتھارٹی کو بغاوت کے جرم میں ملوث ہونے کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت ملتا ہے، تو وہ اجازت دے سکتی ہے۔ اجازت ملنے کے بعد ہی آئی پی سی کی دفعہ 124 اے کے تحت ایف آئی آر درج کی جائے گی۔‘‘

کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ بغاوت کے قانون کو محج نوآبادیاتی میراث ہونے کی وجہ سے منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقائق ہر دائرہ اختیار میں مختلف ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا ’’یہاں تک کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی، نیدرلینڈ، آئرلینڈ، اسپین، ناروے اور ملائیشیا جیسے ممالک میں بھی کسی نہ کسی شکل میں بغاوت کا قانون موجود ہے۔‘‘