انڈیا اتحاد؛ ملک کی سیاست میں ایک نئی جہت کا آغاز

2024 کے لوک سبھا انتخابات میں حکومت کو سخت چیلینجس کا سامنا

شبانہ اعجاز ،کولکاتا 

اپوزیشن اتحاد کی اگلی میٹنگ بہت سارے سوالات کا جواب ہوسکتی ہے
اعلیٰ کمانوں کے ظاہری اتحاد کی طرح نچلی سطح  کے پارٹی کارکنان کے اقدامات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں
ملک کی سیاست میں یوں تو ان دنوں کئی سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں لیکن جس بات کا چرچا پچھلے کچھ مہینوں میں سب سے زیادہ ہوا وہ اپوزیشن کا اتحاد ہے۔ جی ہاں! 2024 کے لوک سبھا الیکشن کے لیے سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ حکمراں جماعت مختلف نئے نعروں کے ساتھ میدان میں ہے تو اپوزیشن جماعتوں نے بھی مضبوط اتحاد جسے INDIA alliance کا نام دیا  گیا ہے، میدان میں ہے۔ پٹنہ میں اپنی پہلی میٹنگ کے ساتھ ہی انڈیا اتحاد لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ بنگلور میں دوسری اور ممبئی میں تیسری میٹنگ کے بعد انڈیا اتحاد مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھتا نظر آرہا ہے۔ جبکہ بی جے پی میں اپوزیشن کے مضبوط اتحاد سے پریشانی بھی دیکھی جا رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے بنائے گئے انڈیا اتحاد کے مقابلے میں حکمراں جماعت بھارت نام کے نعرے کے ساتھ سامنے آنا چاہتی ہے۔ One Nation One Election کا ایجنڈا بھی بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی اپوزیشن اتحاد سے پریشان ہے۔ بی جے پی نے اسی بوکھلاہٹ میں کئی منصوبوں میں تبدیلیاں کی ہیں۔ رسوئی گیس کی قیمت میں کمی کو اپوزیشن اتحاد کا نتیجہ مانا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ممبئی میں ہونے والی انڈیا اتحاد کی تیسری میٹنگ میں اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کا جوش و ولولہ دیکھنے قابل دید تھا۔ ہر پارٹی کا لیڈر ایک دوسرے کو عزت دیتا ہوا اور ایک ہی سُر میں سُر ملاتا ہوا نظر  آیا۔ انڈیا اتحاد کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کسی بھی پارٹی کا لیڈر خود کو مضبوط ثابت کرنے کی کوشش میں نہیں ہے بلکہ اس اتحاد میں شامل ہر پارٹی کے لیڈر کے سامنے ایک ہی چیلنج ہے کہ آر ایس ایس کے اشاروں پر ناچنے والی بی جے پی کو کیسے مات دی جائے۔
اس اتحاد میں سبھی پارٹیوں کی مرکزی سطح کی اعلٰی قیادت نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ساتھ ایک اسٹیج پر اپنے آپ کو جمع کیا۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ یہاں راہل گاندھی اور اروند کیجریوال بھی طویل عرصے کے بعد ایک ساتھ نظر آئے۔ ان کے علاوہ ممتا بنرجی، اکھلیش یادو، نتیش کمار، تجیسوی یادو، سیتا رام یچوری اور ادھو ٹھاکرے سب ایک ساتھ ایک اسٹیج پر ایک ہی سر میں سر ملاتے نظر آرہے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کا یہ سفر مشرقی ہندوستان سے شروع ہو کر جنوبی ہند سے ہوتا ہوا وسطی ہندوستان تک پہنچ چکا اور اپنی اہمیت کا لوہا بھی منوا چکا ہے۔ اب یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ اپوزیشن جماعتوں کی اعلی قیادت نے اب تک جس سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے، کیا علاقائی سطح پر ان کی پارٹی کے کارکنان بھی اسی طرح کا مظاہرہ کرتے نظر آئیں گے؟ حالانکہ اپوزیشن اتحاد کو مضبوط بنانے کے لیے کئی علاقائی پارٹیوں نے بھی اپوزیشن کے انڈیا اتحاد کی بلا شرط حمایت کا اعلان کیا ہے۔ آسام سے تعلق رکھنے والے AIUDF کے سربراہ و ایم پی بدرالدین اجمل بھی ان ہی لیڈروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے بلا شرط اپوزیشن اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ انڈیا اتحاد میں کئی مضبوط پارٹیاں ہیں جو اپنی اپنی ریاستوں میں علاقائی چلینجز کا سامنا کر رہی ہیں، اس کے باوجود یہ پارٹیاں انڈیا اتحاد میں شامل ہیں اور مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علاقائی سطح پر چیلنجز سے نمٹنے ہوئے یہ سیاسی جماعتیں کس طرح آگے بڑھیں گی آج ہم ایسے ہی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے مغربی بنگال کا جائزہ لیں گے۔۔۔۔
بنگال میں لیفٹ کے مضبوط سیاسی قلعے کو کامیابی کے ساتھ توڑتے ہوئے ترنمول سپریمو ممتا بنرجی نے ریاست میں اپنے سیاسی قد بڑھایا اور لگاتار تین بار اسمبلی الیکشن جیت کر حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ بنگال میں ترنمول کانگریس مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی جبکہ اپوزیشن کے لیے سیاسی زمین کو بچانا مشکل ہو گیا اور دوسری طرف بی جے پی کو پر پیر پسارنے کا موقع مل گیا اور وہ بنگال میں مضبوط اپوزیشن پارٹی کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ بایاں محاذ بنگال میں برسوں تک برسر اقتدار رہا اور کانگریس بھی مضبوط تھی لیکن سیاست میں مواقع کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ بی جے پی کے لیے بنگال میں قدم جمانا ایک بڑا موقع تھا جس کا اس نے اٹھایا اور لوک سبھا کی واحد سیٹ سے شروعات کرنے والی بی جے پی بنگال میں مضبوط ہوتی گئی، اور اس کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس بھی مضبوط ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق بنگال میں 2013 سے آر ایس ایس کو مضبوطی ملی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے ریاست میں حالیہ برسوں میں آر ایس ایس کی شاخوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ 2013 میں بنگال میں آر ایس ایس کی کل 750 شاخیں تھیں جو 2017میں بڑھ کر 1100 ہوگئیں اور آج اس کی شاخوں کی تعداد 1279 ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق اس سال مغربی بنگال کے سالانہ انڈکشن ٹریننگ کیمپوں میں ٹریننگ لینے والوں کی تعداد میں 60 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سال تربیتی کیمپوں میں اندراج کرنے والوں کی تعداد 50 سے بڑھ کر 80 ہوگئی ہے، جو کہ 60 فیصد اضافہ ہے۔ اس سال اکتوبر میں ہونے والے سات روزہ تربیتی کیمپ میں 14 سے 40 سال کی عمر کے لوگوں کے شرکت کا امکان ہے۔ یہ تربیتی کیمپ بنگال بھر میں کم و بیش دو ہزار سے زائد علاقوں میں منعقد کیے جائیں گے۔ آر ایس ایس کے ایک علاقائی نمائندے نے بتایا کہ تربیت کے لیے آنے والے لوگوں کی زیادہ تعداد ریاست کی موجودہ سماجی اور سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ کم مواقع اور بدعنوانی کا شکار ہوئے ہیں اور وہ آر ایس ایس کے ساتھ اس کے نظریے اور جدوجہد میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ وہیں جس طرح ریاست میں بی جے پی اور ترنمول کے درمیان لیڈروں کا آنا جانا دیکھنے کو ملا جو حیران کن تھا۔ بی جے پی کے سابق ایم پی بابل سپریو آج ممتا حکومت میں وزیر ہیں جبکہ ترنمول لیڈر شوبھندو ادھیکاری بی جے پی کے اپوزیشن لیڈر ہیں۔ لیفٹ اور کانگریس بنگال میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی بڑھتی سیاسی طاقت کے لیے ممتا بنرجی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ آج حال یہ ہے کہ بنگال اسمبلی میں اپوزیشن کے نام پر کانگریس اور لیفٹ کا صفایا ہو چکا ہے جبکہ بی جے پی مضبوط اپوزیشن کے طور پر اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے 18 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بنگال میں لوک سبھا کی 42 سیٹیں ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ممتا بنرجی کو 22 جبکہ بی جے پی کو 18 اور کانگریس کو دو اور لیفٹ کے حصے میں ایک بھی سیٹ نہیں آئی تھی۔ بی جے پی کی زبردست کامیابی کے لیے آر ایس ایس کا اہم رول مانا جاتا ہے۔ 18 لوک سبھا سیٹوں پر بی جے پی کی کامیابی میں آر ایس ایس کا ایک بڑا رول ہے۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے نتیجے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگال میں بی جے پی مضبوط ہوئی ہے۔ کانگریس اور لیفٹ ممتا بنرجی پر بی جے پی کو سیاسی طور پر مواقع دینے اور مضبوط بنانے کا الزام لگاتی رہی ہیں جبکہ ممتا بنرجی ایک سیکولر لیڈر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ 2024 کے لوک سبھا الیکشن سے پہلے اپوزیشن کے اتحاد میں ممتا بنرجی بھی شامل ہوئیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق بنگال میں ممتا بنرجی کو اپوزیشن کے لگاتار حملوں کا سامنا ہے۔ ممتا بنرجی نے الزام لگایا کہ سی بی آئی اور ای ڈی کے نام پر انہیں اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے ساتھ ہی کرپشن کے بھی کئی ایسے معاملے ہیں جن میں ترنمول کے کئی لیڈروں کو انکوائری کا سامنا ہے۔ ایسے میں ممتا بنرجی نے بھی بی جے پی کے خلاف اپوزیشن اتحاد میں شامل ہو کر 2024 کا لوک سبھا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ممتا بنرجی انڈیا اتحاد کی ہر میٹنگ میں شامل ہوتی رہی ہیں۔ سمجھا جا رہا ہے کہ ریاست میں لیفٹ اور   کانگریس کے ساتھ اختلافات کے باوجود ممتا بنرجی انڈیا اتحاد میں شامل ہو کر بی جے پی کو چیلنج دینا چاہتی ہیں۔
سیاسی ماہرین انڈیا اتحاد کو بہترین سیاسی حکمت عملی مان رہے ہیں حالیہ ضمنی انتخاب بی جے پی کی شکست کو انڈیا اتحاد کی بڑی کامیابی مانا جارہا ہے۔ بنگال کے سماجی کارکن او پی شاہ نے کہا کہ اپوزیشن کا اتحاد مضبوط ہے لیکن علاقائی سطح پر بھی انڈیا اتحاد کو مضبوط بنانے کے لیے پارٹی ورکروں کو آگے آنا ہوگا کیونکہ قومی سطح پر اتحاد میں شامل پارٹیوں کے اپنے اپنے علاقائی مسائل ہیں جسے پس پشت ڈالتے ہوئے مرکزی قیادت کے سیاسی مقاصد کو سامنے رکھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔  کانگریس لیڈر محمد وسیم کے مطابق انڈیا اتحاد کا مقصد بی جے پی کو مات دینا ہے ایسے میں اختلافات سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ یہ سوچا جائے کہ 2024 کے الیکشن میں بی جے پی کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا اتحاد مضبوطی کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس میں ایمانداری کا مظاہرہ کرنا ہر ایک لیڈر کی ذمہ داری ہے۔ ترنمول لیڈر سابق ایم پی و موجودہ ایم ایل اے ادریس علی کے مطابق ممتا بنرجی انڈیا اتحاد میں ایک اہم رول ادا کریں گی جو ملک میں ان کے قد کو اور بھی بڑھاے گا۔ سماجی کارکن فرحانہ خاتون نے کہا کہ موجودہ حالات میں ملک جمہوریت سے آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے اور جس خاندانی سیاست کو موضوع بنایا جاتا تھا آج وہی چیز سب سے زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کیونکہ آج کے سیاسی منظر نامے میں ایک سوچ ایک فرقہ ایک نظریے کو نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو سیکولر سماج کے لیے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے اپوزیشن اتحاد پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا انڈیا اتحاد آنے والے لوک سبھا الیکشن میں ایک مضبوط اتحاد کے طور پر سامنے آئے گا جو لوگوں کے دلوں پر اپنے نقش بنانے میں بھی کامیاب ہوگا۔ سی پی ایم لیڈر فیاض احمد خان نےکہا کہ ملک میں جاری نفرت کی سیاست اور لوگوں میں ڈر اور خوف کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے اور  ان میں بھروسے کا احساس جگانے کی ضرورت ہے جو انڈیا اتحاد کا مقصد ہے۔ ایسے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ پارٹیاں عوامی مفاد کے لیے چھوٹے نقصانات کو پس پشت ڈال کر اصل مقصد کے حصول کے لیے آگے بڑھیں گی۔ اپوزیشن اتحاد کی اگلی میٹنگ میں سیٹوں کی تقسیم پر فیصلہ لیا جاسکتا ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اگر انڈیا اتحاد کی سیٹوں کی تقسیم پر ہونے والی میٹنگ میں سب کچھ ٹھیک ہوتا ہے تو انڈیا اتحاد کی ایک بڑی کامیابی ہوگی جس پر ملک کے لوگوں کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 ستمبر تا 30 ستمبر 2023