ان دنوں ڈیپ فیک (Deep Fake) ویڈیوز اور آرٹیفیشل انٹلیجنس (AI) کے بڑے چرچے ہیں۔ مرکزی حکومت اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی تک اس تکنیک کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے اہل ملک کو آگاہ کر چکے ہیں۔ ان کا یہ بھاشن میں نے سنا تو محسوس ہوا کہ یہ ضرور ہی ڈیپ فیک ہے، کسی نے AI تکنیک کی مدد سے ایڈٹ کرکے بنایا ہو گا کیونکہ ایک دیش کا پردھان منتری تو ایسی زبان کا استعمال تو کر ہی نہیں سکتا مگر پھر دھیرے دھیرے پتا چلا کہ یہ ویڈیو بالکل اصلی ہے۔ شری مودی جی نے ہی اپنے بھاشن میں ان شبدوں کا ذکر کیا ہے۔ جب یہ بات مجھے معلوم ہوئی تو بی جے پی آئی ٹی سیل کے لیے میری نظروں میں عزت اور بھی بڑھ گئی‘‘۔
جیکی یادو نامی صحافی کا یہ تبصرہ21؍ اپریل کو وزیر اعظم نریندر مودی کی راجستھان کی ان کی تقریر کے تناظر میں آیا ہے اور اس اکثریت کی نمائندگی کر رہا ہے جس کو سیاسی بحثوں میں نفرت، تفریق اور تعصب کی توقع وزیر اعظم کی زبان سے نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ اعلیٰ عہدے پر پہنچ کر انسان کے اندر احساس ذمہ داری اور برد باری مزید بڑھ جاتی ہے لیکن 9/11 کے حملوں کے بعد دنیا کی سوپر پاور کا طاقتور ترین صدر مسلمانوں اور بالخصوص عربوں کے ساتھ صلیبی جنگ کے واقعات کو یاد کرتے دیکھا گیا۔ اور اب دنیا کی قیادت کا خواب دیکھنے والے بھارت کے وزیر اعظم مودی خود اپنی ہی ملک کی پچیس کروڑ کی آبادی کو غیر ملکی قرار دے رہے ہیں۔ ’’زیادہ بچوں والے در انداز‘‘ کہنے پر وزیر اعظم اور ان کے جگری دوست و ہم راز وزیر داخلہ سے کیوں نہ سوال کیا جائے کہ آخر پچھلے دس سال ان کی خفیہ ایجنسیاں، فوج، ملک کی سلامتی و نیم فوجی دستے اڑوس پڑوس سے بھارت میں بسنے والوں پر قدغن کیوں نہیں لگاسکے؟ بتاتے چلیں کہ مرکزی حکومت سے بار بار سوال کرنے پر بھی اب تک ایسے مبینہ بنگلہ دیشیوں اور روہنگیاوں یا تمام در اندازوں کی تعداد شہریوں کے سامنے بیان کرنے میں یہ حکومت ناکام رہی ہے۔ ایوان پارلیمنٹ میں آئین ہند پر ہاتھ رکھ کر اپنے عہدے کا حلف لینے والے آئین کی شق نمبر 15 کو کیوں بھول رہے ہیں کہ حکومت محض مذہب، نسل، ذات، جنس، جائے پیدائش یا ان میں سے کسی بھی بنیاد پر شہریوں کے مابین تفریق نہیں کرے گی؟ ملک کے وسائل پر سرمایہ داروں کا حق ہوگا یا مستحق شہریوں کا؟ یہ سوال حزب اختلاف مسلسل اٹھا رہا ہے اور اس سے متعلق بعض نکات کانگریس پارٹی نے اپنے منشور میں شامل کیے ہیں۔ نیائے پتر (Nyay patra) نامی اس منشور کے جاری ہونے کے بعد بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اسے مسلم لیگی اور نکسلی چھاپ والا مینی فیسٹو کہہ کر اپنی بوکھلاہٹ کا اظہار کر رہی ہے۔ اس میں ملک گیر ’’سماجی ومعاشی سروے، ذات کی مردم شماری‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’اقلیتوں کے معاشی استحکام کے لیے ضروری اقدامات‘‘ نیز تعلیم، صحت، سرکاری ملازمتوں، سرکاری ٹھیکوں، اسکل ڈیولپمنٹ، کھیل اور ثقافتی سرگرمیوں میں کسی تفریق و تعصب کے بغیر شرکت اور استفادہ کو یقینی بنانے کی بات بھی کہی گئی ہے اور بجا طور پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے باشندوں کو اسی طرح کے حقوق کی بحالی عین آئینی حق ہے، اس میں آگ بگولہ ہونے والی کوئی بات ہی نہیں ہے لیکن تفریق و نفرت کے ایجنڈے والوں کے لیے یہ بات تکلیف دہ بلکہ ناقابل برداشت بن گئی ہے کہ ملک کے ہر باشندے کو اس کا جائز حق دینے کی بات پر انتخاب لڑا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدیواسی اکثریت والے ضلع بانسواڑہ میں اپنی ریالی کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے تقریباً اٹھارہ برس پرانے اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ایک بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کر دیا۔ 9؍ دسمبر 2006کو منموہن سنگھ نے اپنی حکومت اور اسکیموں کی ’’اجتماعی ترجیحات‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، اقلیتوں اور خواتین و بچوں کو اوپر اٹھانے کے لیے پروگراموں کی ضرورت ہے‘‘۔ واضح ہو کہ پچھلے دنوں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے تلنگانہ میں کا تھا کہ ’’ہم نے طے کیا ہے کہ بی جے پی سرکار بنتے ہی 4فیصد مسلم ریزرویشن ختم کردیں گے اور ان سیٹوں کو ایس ٹی، او بی سی، ایس سی کوٹے میں دے کر نیائے( انصاف) کرنے کا کام بی جے پی سرکار کرے گی‘‘۔ ظاہر ہے کہ حکمراں ٹولے کی اعلیٰ ترین قیادت ملک کی اکثریت جو پس ماندہ، قبائلی اور اقلیتوں پر مشتمل ہے ان کے سماجی تانے بانے کو منتشر کرنے کی دانستہ کوششیں کررہے ہیں درآں حالانکہ برہمن، بنیا کے کارپوریٹ اتحاد کے ذریعہ ملک و قوم کے وسائل کی نابرابری اور غیر منصفانہ لوٹ کھسوٹ کے الیکٹورل بانڈ اور دیگر آر ٹی آئی کے ذریعہ اجاگر ہونے والی بدعنوانیاں ووٹروں کے ذہن کو صاف کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ مزید برآںINDIA محاذ کی چنوتی کا سامنا پہلے مرحلہ کی ووٹنگ کے دوران بی جے پی کی پریشانیوں میں اضافہ کا سبب بن گیا ہے۔ بوکھلاہٹ، جھنجھلاہٹ اور شاید اپنے معلنہ 400پار کے غیر دانشمندانہ ٹارگیٹ پر منڈلاتے خطرات بی جے پی خیمے میں ڈر کا ماحول پیدا کردیا ہے اور ہر جائز و ناجائز ، اخلاقی و غیر اخلاقی ، قانونی و غیر قانونی، معروف و غیر معروف کسی بھی طریقے سے مودی کی تیسری پاری کا خواب اور اقتدار کے قریب رہتے ہوئے بٹور نے والے فائدوں سے آر ایس ایس کا موجودہ حکومت کی پشت پناہی کی مجبوری ایسے عوامل ہیں کہ وہ ہارنے کی بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ کارپریٹ نے جتنی سرمایہ کاری پارٹی، آر ایس ایس سے وابستہ این جی اوز اور حکومت کے پروجیکٹوں کے لیے کر رکھی ہے وہ بھی اسی اقتدار کو برطرف ہوتے دیکھ نہیں سکتا۔انہیں سب کا نتیجہ ہے کہ ہر مرحلے کے ساتھ انتخابی تشہیر مزید زہر آلود ہونے کا اندیشہ ہے۔ اسی کڑی میں جھوٹ، مکرو فریب، افترا پردازی، تہمت کے ساتھ پرانی باتوں کو کرید کر ان کے سیاق و سباق کو بدل کر ووٹروں کو گمراہ کرنے کا کام تیز ہوتا جارہا ہے۔
یوں تو مودی کی تقریر کی غلط بیانی کا نکتہ بہ نکتہ جواب مختلف حلقوں کی جانب سے دیا جاچکا ہے لیکن وہ اپنی ٹارگیٹ ووٹروں کی تسکین قلب کا ساما ن کرنے میں ضرور کامیاب ہوگئے۔ چنانچہ سخت گیر ہندتو عناصر اب مضبوطی کے ساتھ ان کے پیچھے کھڑے ہوں گے لیکن شر میں سے خیر کا پہلو یہ نکل رہا ہے کہ ہر خاص و عام جو انسانیت، بھائی چارگی، نظم و قانون کی حکمرانی اور ملک کے لیے سچی محبت کا جذبہ رکھنے والے لوگ مودی کی شخصیت کو کرشماتی اور ملک کا نجات دہندہ سمجھ بیٹھے تھے وہ این ڈی اے سے کھسکنے لگے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر کافی حوصلہ افزا بیانات دیکھنے کو مل رہے ہیں جن میں مسلمانوں کے تئیں ہمدردی کے جذبات اور ملک کے سیاستدانوں کے گرتے اخلاق پر تشویش دیکھ کر ہمیں یک گونہ تشفی ضرور ہوتی ہے۔ اس مناسبت سے ہمارے پہلے وزیر تعلیم اور عظیم مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریر یاد کرسکتے ہیں کہ ’’عہد کرو! یہ ملک ہمارا ہے، ہم اسی کے لیے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیاد فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے‘‘۔
ملت پر آزمائشی حالات انوکھی بات تو نہیں ہے۔ عالمی اور اسلامی تاریخ نیز ملکی تاریخ میں بھیانک دور گزرے ہیں آج بھی مخلص مسلم قیادت، اجتماعیت سے وابستگی کی ض؟رورت ہے ہر طرح کی اشتعال انگیزی کے باوجود مسلمانوں کے صبر و استقامت سے ہماری دیگر اقوام متاثر ہورہی ہیں ۔ فسطائی طاقتیں تو چاہتی ہی ہیں کہ ہم ڈر یا اشتعال میں آکر غلط قدم اٹھائیں اور پھر وہ ہم پر ٹوٹ پڑیں۔ منو اسمرتی اور برہمنی نظام کو ہندتو اور سناتنی کی آڑ میں وہ زیداہ دنوں تک چھپا کر نہیں رکھ سکیں گے اور بالآخر یہ فریب کا غبار پھوٹے گا۔
گذشتہ اسٹوری