وزیر اعظم نریندر مودی سے صحافتی برادری کو ایک عرصے سے یہ شکوہ رہا ہے کہ وہ انٹرویو دینے یا پریس کانفرنس کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں لیکن اس مرتبہ انہوں نے ایک ٹی وی چینل کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے اس شکوے کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس انٹرویو میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ای ڈی ایک آزاد ادارہ ہے جو آزادانہ طریقے سے کام کرتا ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ای ڈی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قانون (پی ایم ایل اے) کے مبینہ غلط استعمال سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے یہ سوال کیا کہ آیا مرکزی جانچ ایجنسی کو ہماری حکومت نے بنایا ہے؟ کیا ہم پی یم یل اے قانون لائے تھے؟ ۔ای ڈی کے پاس 7,000 مقدمات ہیں ان میں سے، سیاسی قائدین پر محض 3 فیصد سے بھی کم مقدمات ہیں۔ جب یو پی اے برسر اقتدار تھی تو دس سال میں انہوں نے صرف 35 لاکھ روپے نقد ضبط کیے تھے اور جب سے ہم آئے ہیں، ہم نے 2,200 کروڑ روپے کی نقدی ضبط کی ہے۔
جب ان سے اپوزیشن پارٹی کے لیڈروں کے خلاف کارروائی اور بی جے پی کے لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کی بات پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ای ڈی خود کارروائی نہیں کرسکتا، دوسرے محکموں کو پہلے ایف آئی آر درج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تب جا کر ای ڈی کارروائی کرتا ہے۔
کیا وزیراعظم کے دعوے کے مطابق ای ڈی فی الواقع آزادانہ کام کررہا ہے؟ اس سوال کا جواب ان حقائق کی روشنی میں مل جائے گا۔
1۔ مارچ 2023 میں ای ڈی کی جانب سے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2005 سے جنوری 2023 تک جملہ 5,906 مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے صرف 25 مقدمات ایسے ہیں جن کا کیس مکمل طور سے لڑا گیا یعنی یہ مقدمات نتیجہ خیز ثابت ہوئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جملہ کیسوں کا محض 0.42 فیصد نتیجہ ہی نکل پایا ہے۔ ان 25 مقدمات میں سے ایجنسی نے 24 مقدمات میں سزائیں سنائی ہیں۔
دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ 96 فیصد کو سزائیں دی گئی ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقریباً دو دہائیوں کے عرصے میں ایجنسی صرف 25 کیسوں کو ہی اپنے انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہو پائی ہے۔ وزیراعظم مودی نے اعداد و شمار میں یہ بھی کہا کہ کل مقدمات میں سے صرف 3 فیصد مقدمات میں موجودہ اور سابق منتخب عوامی نمائندے ملزم ہیں۔ یعنی جملہ 5,906 مقدمات میں سے صرف 176 موجودہ اور سابق ایم پیز، ایم ایل اے اور ایم ایل سی ہی شامل ہیں۔ستمبر 2022 میں انڈین ایکسپریس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2014 سے یعنی جب سے مودی کی قیادت میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، سیاست دانوں کے خلاف ای ڈی کے مقدمات میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔
تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 2014 اور 2022 کے دوران 121 اہم سیاست دانوں پر ای ڈی کی تحقیقات ہوئی ہیں، جن میں سے 95 فیصد سیاست داں یا پھر یوں کہیے کہ 115 اپوزیشن لیڈر ہی شامل ہیں، جن کے خلاف مقدمہ درج کیے گیے، چھاپے مارے گئے، پوچھ گچھ کی گئی یا گرفتار کیا گیا ہے۔
ای ڈی کے ذریعہ جانچ کیے جانے والے معاملات سے متعلق خود مودی حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں فراہم کیے گیے اعداد و شمار سے صاف نظر آتا ہے کہ کارروائی یکطرفہ ہو رہی ہے۔
مارچ 2022 میں وزیر خزانہ پنکج چودھری نے لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں کہا کہ 2004 سے 2014 کے درمیان (یو پی اے دور) میں منی لانڈرنگ کے معاملات میں ای ڈی کی طرف سے 112 تلاشیاں کی گئیں، لیکن 2014 کے بعد سے چھاپوں کی تعداد میں 26 گنا اضافہ ہوا ہے، یعنی 2014 اور 2022 کے درمیان، 2,974 تلاشیاں کی گئیں۔
اسی جواب میں جونیئر وزیر نے بتایا کہ 2004 سے 2014 کے درمیان استغاثہ کی 104 شکایات درج کی گئیں تھیں، لیکن 2014 سے 2022 کے درمیان استغاثہ کی شکایات 839 تک پہنچ گئیں۔
جولائی 2022 میں اسکرول کی تحقیقات کے مطابق 2005 میں اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد سے دائر کیے گئے 4,700 مقدمات میں سے تقریباً نصف، یعنی 2,186 مقدمات 2017 سے 2022 کے درمیان درج کیے گئے ہیں۔
اگست 2021 میں، ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ میں کہا کہ ای ڈی نے سپریم کورٹ میں 122 ناموں کی ایک فہرست داخل کی ہے جن میں سابق ایم پی اور ایم ایل اے پر اس قانون کے تحت تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ان میں سے 52 نام اپوزیشن جماعتوں کے قانون سازوں کے ہیں۔
2۔ مودی درست کہتے ہیں کہ پروینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ پی یم یل اے قانون کو ان کی حکومت نے نہیں بنایا تھا، لیکن کئی سالوں سے اس قانون میں کی گئی ترامیم نے اسے بہت ہی خطرناک بنا دیا ہے۔منی لانڈرنگ کے قانون کو 2002 میں (اس وقت کی بی جے پی حکومت کے نے) نافذ کیا گیا تھا تاکہ بین الاقوامی منشیات کی اسمگلنگ کے ذریعے کمائے جانے والے کالے دھن سے نمٹا جا سکے۔تاہم، 2012 (یو پی اے حکومت) اور 2019 (مودی حکومت) نے ان میں ترامیم کر کے اس کے دائرہ کار کو نمایاں طور پر وسیع کر دیا، اس میں نئے جرائم کو شامل کیا گیا (پہلے اس میں چھ قوانین کے تحت 40 جرائم شامل تھے، لیکن اب 30 قوانین کے تحت 140 جرائم کو اس میں شامل کیا گیا ہے)۔
پی ایم ایل اے قانون میں ترمیم کرکے اس کو مزید وسیع کردیا گیا ہے، محض رقم کو قبضے میں رکھنا بھی جرم قرار پائے گا، اس کو اس رقم کا علم ہو یا نہ ہو اس پر کارروائی کر دی جائے گی۔ای ڈی کی کارروائی شروع کرنے کے لیے دیگر ایجنسیوں کے ذریعہ پیشگی ایف آئی آر یا چارج شیٹ کی ضرورت کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
2022 میں، جسٹس اے ایم کھانولکر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بنچ نے پی ایم ایل اے کے ایک سخت قانون کو برقرار رکھا ہے، جس کے تحت ضمانت کا ملنا عملی طور پر ناممکن ہے اور یہ ذمہ داری ملزمان پر ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ بے قصور ہیں۔
3۔ وزیراعظم کے دعوے کے برعکس اس کی آزادی پر کئی ماہرین قانون نے سوالات اٹھائے ہیں۔ سپریم کورٹ نے جب الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اپریل 2019 سے جنوری 2024 کے درمیان انتخابی بانڈز کی ساری تفصیلات اور اعداد و شمار پیش کرنے کو کہا تو یہ عقدہ کھلا کہ حکم راں پارٹی کو چندہ دینے والی سرفہرست کمپنیوں میں وہ کمپنیاں شامل ہیں جن پر ای ڈی کی جانب سے چھاپے مارے گئے اور جانچ پڑتال کی گئی۔
حیرت انگیز طور پچھلے دس برسوں میں ای ڈی کو حکمراں جماعت کا ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ملا جومالی بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہو۔ ایسے میں ای ڈی کے آزادانہ اور غیر جانب دارانہ کردار کے تعلق سے لاکھ دعووں کے باوجود ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ وہ ارباب حکومت کے سیاسی کاز کو فائدہ پہنچانے کے لیے کٹھ پتلی کی طرح استعمال ہو رہی ہے اور المیہ یہ ہے کہ ای ڈی کے حکام کو اپنے پیشہ ورانہ کردار اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوئی فکرنہیں ہے ۔
گذشتہ اسٹوری