اداریہ

عام انتخابات : کون کیا کررہا ہے؟

مرکزی الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے۔ یہ پارلیمانی انتخابات اپریل کے وسط سے شروع ہوکرجون کے پہلے ہفتے تک جاری رہیں گے۔ اس طرح تقریباً دو ماہ تک جملہ سات مرحلوں میں یہ انتخابات منعقد ہوں گے۔یوں تومختلف سیاسی جماعتیں بالخصوص حکم راں جماعت الیکشن کمیشن کے رسمی اعلان سے کافی پہلے سے ان انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہوچکی تھی۔ لیکن اس اعلان کے بعد تو ملک میں انتخابی ماحول کافی گرم ہوگیا ہے۔پچھلے ہفتے ملک میں جو واقعات ہوئے ہیں ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید بی جے پی نے اپنے طور پر یہ طے کرلیا ہے کہ اسے ہر قیمت پر یہ انتخابات جیتنے ہیں۔ملک کی آبادی کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرکے کامیاب ہونے کا فارمولہ تو بی جے پی کے لیے سب سےکامیاب حکمت عملی ہے ہی، جس کے تحت انہوں نے جنوری کے مہینے میں رام مندر کا سیاسی افتتاح انجام دیا اور اسے اپنی سب سے اہم کامیابی کے طور پیش کیا۔ حالیہ دنوں یعنی انتخابات سے عین قبل مرکزی حکومت کی جانب سے سی اےاے قانون کے نفاذ کا اعلان بھی کردیاگیا۔چار سال کے عرصے کی خاموشی کےبعد اچانک انتخابات سے قبل اس کے نفاذ کے اعلان سے یہ شبہ یقین میں بدل جاتا ہے کہ انہیں پڑوسی ممالک کے مظلوم افراد سے ہمدردی نہیں بلکہ اپنے سیاسی بقا کی فکر زیادہ ہے۔لیکن یہ سب امور تو وہ ہیں جن کا تعلق بی جے پی کے اپنے سیاسی نظریے سے ہے اور وہ وقفے وقفے سے اس کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ اس لیے اس پر بہت زیادہ تعجب بھی نہیں ہونا چاہیے۔سب سے زیادہ تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ موجودہ حکم راں جماعت اپنی سیاسی بقا اور انتخابات میں کامیابی کے لیے ملک کے پورے جمہوری ڈھانچے اور سیاسی نظام ہی کو تباہ کرنےکے درپے ہے۔
حکم راں جماعت کی جانب سے اس سلسلے میں جو دھاندلیاں ہوئی ہیں ان میں ایک مسئلہ الکٹورل بانڈس کا ہے جو عدلیہ کی بے باکی کی وجہ سے حالیہ دنوں ملک کی عوام کے سامنے آیا ہے ۔سپریم کورٹ کے حکم نامے کے بعد ان بانڈس کے متعلق جس طرح کے انکشافات ہوئے ہیں اگر اس کے بعد بھی عوام اس پارٹی کی حقیقت سے واقف نہ ہوپائیں تو یہ ملک کی بدنصیبی ہوگی ۔ لوگوں کو یہ پتہ چلنا چاہیے کہ الیکشن بانڈس کی اسکیم سیاست سے کالے دھن کو ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ کالے دھن کو سفید دھن میں بدلنے کے لیے بنائی گئی تھی اور حکومت نے ہر قدم پر اس کے بارے میں اعداد وشمار کو چھپانے کی کوشش کی۔حقیقت یہ ہے الیکشن بانڈس کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ تنہا بی جے پی کو کل رقم کا تقریباً پچاس فیصد حصہ یعنی 16 ہزار 518 کروڑ میں سے 8 ہزار 250کروڑ روپنے حاصل ہوئے ہیں۔اصل گھوٹالہ تو اس سے بھی بڑا ہے جس کا کوئی حساب نہیں ہے، کیوں کہ یہ رقم تو وہ ہے جو اتفاقاً قانون کی گرفت میں آگئی ہے ورنہ انتخابات میں جو دولت استعمال ہوتی ہے وہ اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ بھی نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکم راں جماعت نے تمام اخلاقی و قانونی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کس طرح سے یہ بانڈس حاصل کیے۔ مرکزی حکومت کے ماتحت تمام ایجنسیوں کا استعمال کرکےاس انتخابی چندے کو جمع کرنے کا کاروبار کیا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ اسکیم کا غلط استعمال نہیں تھا بلکہ اسکیم اسی کام کے لیے بنائی گئی تھی اوراسے بنانے کے لیے آئین کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ یہ محض ایک بڑے سیاسی بدعنوانی کا معاملہ نہیں ہےبلکہ یہ بدعنوانی کو قانونی حیثیت دینے اور دن دھاڑے ڈکیتی کو ایک جائز عمل بنانے کا معاملہ ہے اور اس لحاظ سے یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہے۔سپریم کورٹ کے حکم نامے کے بعد ہرروز اس اسکینڈل کی نئی پرتیں کھل رہی ہیں۔
دوسرا اہم مسئلہ انتخابات میں منصفانہ مقابلے کے امکانات کو ختم کردینے کا ہے۔جمہوریت کی ایک اہم خصوصیت اس کے آزادانہ و منصفانہ انتخابات ہیں۔یوں تو ہر حکم راں جماعت اس معاملے میں کسی نہ کسی طرح فائدہ اٹھاتی ہے لیکن موجود حکومت اور صاحب اقتدا ر جماعت تو اس معاملے میں پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ہی ہے۔ انتخابات میں کامیابی اور اپنی سیاسی بقا کے لیےمختلف سرکاری اداروں کا استعمال کرکے اپوزیشن کو انتخابی مقابلے میں بے دست و پا کردینے کی کوشش اس وقت زوروں پر ہے۔برسوں پرانے معاملات کو تازہ کرکےان کے خلاف قانونی کاروائیاں کی جارہی ہیں۔ اب تک اپوزیشن اتحاد کے دو برسر کار چیف منسٹروں کو ای ڈی کے ذریعے گرفتارکیا جاچکا ہے۔ انکم ٹیکس کے ضوابط کی خلاف ورزی کے نام پرملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے اکاونٹس کو منجمد کردیا گیاہے۔چنانچہ ان کارروائیوں پر اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے شکایت بھی کی ہے کہ یہ کارروائیاں مساویانہ اور منصفانہ انتخابات کو ناممکن بنارہی ہیں ۔لیکن الیکشن کمیشن کی تشکیل کے معاملے میں حکومت نے جس طرح کا طرز عمل اختیار کیا ہے اس کے بعد اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی اقدام کرے گا۔ ملک کے مین اسٹریم میڈیا نے بھی ان تمام معاملات پر جیسے چپ سادھ لی ہے۔ گرچہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے الکٹورل بانڈس کے مسئلے کی خبروں کو پوری طرح بلیک آوٹ تو نہیں کیاجاسکا لیکن بوفورس اور 2 جی وغیرہ جیسےگھوٹالو ں پر جس طرح کا ماحول بنایا گیا تھا، اس کا عشر عشیر بھی یہاں دیکھنے کو نہیں ملا۔
لیکن ان مسائل کو جس طرح عوام کے سامنے لانا چاہیے تھا اس میں اپوزیشن جماعتیں بھی شاید پوری طرح کامیاب نہیں ہوپارہی ہیں۔ گرچہ یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ کانگریس قائد راہول گاندھی نے منی پور سے شروع کی گئی اپنی یاترامیں موجودہ صورت حال پر سخت موقف اختیار کیا ہے اور ملک کے حقیقی مسائل کو پیش کرکے ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی ہے۔ کانگریس نے نوجوانوں، کسانوں، عورتوں، مزدوروں اور دلتوں کے بنیادی مسائل کو بھی اپنا موضوع بنایا اور انہیں حل کرنے کی بات بھی کی ہے۔ رائے عامہ کے سروے میں ملک کو درپیش سب سے بڑے مسائل کی فہرست میں جو مسئلہ سرفہرست رہا ہے وہ بے روزگاری کا مسئلہ ہے۔اس مسئلےکو کانگریس نے اپنی بحث کا ایک اہم مسئلہ بنایا ہے اوراس کے حل کے لیے کچھ ضمانتوں کا اعلان بھی کیا ہے۔ گرچہ کانگریس کا یہ اعلان بے روزگاری کے مسئلے کو ایک طرح سے سیاسی طور پر تسلیم کرنے کے مترادف ہے، لیکن یہ آواز ابھی بہت طاقت ور نہیں بن پائی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابات کے موقع پرموجود ہ حکم راں جماعت کی خرابیوں کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے حقیقی مسائل کو لوگوں کے سامنے پوری قوت کے ساتھ پیش کیا جائے اور بی جے پی کے نفرت پر مبنی بیانیے کو کمزور کرنے کی بھر پور کوشش ہو، یہ پورے حزب مخالف کی ذمہ داری ہے اور یہی ملک کے حق میں بھی بہتر ہوگا۔