گزشتہ دنوں سماجی رابطے کے مشہور پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) نے اپنے ایک آفیشل ٹویٹ کے ذریعے یہ بات واضح کی کہ ‘بھارتی حکومت نے بعض مخصوص X اکاونٹس کو معطل کرنے کا انتظامی حکم نامہ جاری کیا ہے اور تنبیہ کی کہ اگر اس پر عمل نہ کیا گیا تو بھاری جرمانے اور قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے’۔ دنیا کی اس بڑی کثیر قومی کمپنی نے اپنے ٹویٹر میں مزید لکھا ہے کہ ‘اس حکم نامے کی پابندی کرتے ہوئے ہم نے ان اکاؤنٹس اور ان کے پوسٹوں کو ہندوستان میں معطل کر دیا ہے، تاہم ہمیں ان کارروائیوں سے اتفاق نہیں ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ان اکاؤنٹس اور ان کی پوسٹوں کو بھی اظہار خیال کی آزادی ملنی چاہیے۔ چنانچہ اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے ہم نے بھارتی حکومت کے اس حکم نامے کے خلاف عدالت میں عرضی داخل کر رکھی ہے۔ ہم نے کمپنی کی پالیسی کے مطابق متاثر ہونے والے صارفین کو ان کارروائیوں سے متعلق نوٹس بھی فراہم کردی ہے۔ قانونی پابندیوں کی وجہ سے ہم یہ انتظامی حکم نامہ شائع نہیں کر رہے ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ انہیں عوام کے سامنے پیش کرنا شفافیت کے لیے ضروری ہے۔ کیوں کہ اس کے عام نہ ہونے کی وجہ سے جواب دہی میں کمی اور فیصلوں میں من مانی ہوتی ہے’۔
ٹویٹر کی جانب سے مختلف اکاؤنٹس کو معطل کرنے کا یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ خاص طور پر 2021 کے دوران ہونے والے کسانوں کے احتجاج اور کورونا وبا سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی کے بعد بی جے پی حکومت پر کی جانے والی تنقید والی پوسٹوں اور اکاونٹس کو بند یا معطل کر دیا گیا تھا۔ کسانوں کے سابق میں ہونے والے احتجاج کے موقع پر بھی ٹویٹر نے حکومت کے کہنے پر تقریباً 250 اکاؤنٹس معطل کر دیے تھے۔ ان اکاونٹس میں ان تفتیشی نیوز میگزینوں، مختلف جہدکاروں اور گروپوں کے اکاونٹس بھی شامل تھے جو کسانوں کے اس طویل احتجاج کی حمایت کر رہے تھے۔ اور اب ایک بار پھر ٹویٹر نے کسانوں کے احتجاج کے موقع پر ہی مختلف ایسے اکاونٹس اور ان کے پوسٹوں کو معطل کر دیا ہے جو اس احتجاج کی یا تو رپورٹنگ کر رہے تھے یا احتجاج کی قیادت کر رہے تھے۔ لیکن اس بار ایکس نے پہلی مرتبہ اپنے آفیشل ہینڈل سے یہ بات بھی دنیا کے سامنے رکھ دی کہ اکاؤنٹس کو معطل یا بند کرنے کا یہ کام ہم حکومت ہند کے انتظامی حکم نامے کے سبب کر رہے ہیں ورنہ ہمیں اس پوری کارروائی سے اتفاق نہیں ہے، ہم اپنے ملازمین کو جرمانے اور جیل جانے سے بچانے کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ کس قدر شرمندگی کی بات ہے کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ ایک کمپنی ہمیں یہ سکھا رہی ہے کہ مذکورہ حکم نامہ اظہار خیال کی آزادی کے قطعی منافی ہے اور یہ درس بھی دے رہی ہے کہ اس حکم نامے کو عوام کے سامنے لانا شفافیت، جواب دہی اور من مانے فیصلوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔لیکن وہ قانونی پابندیوں کے سبب ایسا نہ کرنے کے لیے مجبور ہے۔ اس صورت حال میں ہر فکر مند اور سنجیدہ شہری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ کیا ہم واقعی اپنے جمہوری حقوق سے محروم ہو چکے ہیں؟
معلومات کی ترسیل میں شفافیت، اختلاف رائے، اپنے حقوق کے لیے جدوجہد اس کے لیے احتجاج، بحث و گفتگو اور حکمراں جماعت سے سوال کرنا جمہوریت کی اہم اور بنیادی خصوصیات ہیں۔ ان قدروں کے بغیر کوئی سماج اور نظام حکومت جمہوری باقی نہیں رہ سکتا۔ لیکن یہاں آہستہ آہستہ عوام کے ان تمام بنیادی حقوق کو سلب کیا جا رہا ہے۔جمہوریت کے چوتھے ستون یعنی میڈیا کو تو حکومت نے پہلے ہی پوری طرح اپنے قابو میں کرلیا تھا، اب سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارموں پر عوام کو اظہار خیال کی جو آزادی حاصل تھی حکومت ان کو اس سے بھی محروم کرنے کے در پے ہو گئی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے گزشتہ برس امریکی کانگریس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت ایک ایسا نظریہ ہے جو اختلاف رائے اور بحث کا خیر مقدم کرتا ہے، یہ ایک ایسا کلچر ہے جو خیالات اور ان کے اظہار کو پرواز عطا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیرون ملک کی جانے والی یہ دل فریب تقریریں اور اندرون ملک اس کے بالکل برعکس اختلاف رائے کو جبراً روک دینا اور بحث و مباحثے کا دروازہ ہی بند کر دینا آخر کونسی جمہوریت ہے۔ وزیر اعظم مودی کی تقریر کو سننے والے جب ٹویٹر کے اس اعلامیہ کو دیکھیں گے تو وہ ان کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے؟ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکم رانوں کے نزدیک ان سب چیزوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے ان کے لیے تو بس اقتدار ہی سب کچھ ہے اور اس کے لیے وہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا سکتے ہیں، درست معلومات کو عوام تک پہنچنے سے ہر قیمت پر روک سکتے ہیں، چاہے اس کے لیے انہیں اپنے ملک کے دستور اور یہاں کی روایات کو پامال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
گذشتہ اسٹوری