غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے ذریعہ معصوم انسانوں کے قتل عام کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ غزہ سے چھن چھن کر جو اطلاعات باہر آرہی ہیں ان کے مطابق وہاں اب تک دس ہزار سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں جن میں پانچ ہزار پھول جیسے بچوں کے علاوہ کئی خواتین بھی شامل ہیں۔ دنیا کی نام نہاد مہذب قومیں اسرائیل کی اس وحشیانہ کارروائی کو نہ صرف خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے بلکہ خود کو جمہوریت کا علم بردار قرار دینے والے مغربی ممالک فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کو دہشت گرد قرار دے کر اسرائیل کی اس وحشیانہ کارروائی کی تائید کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے بھی پہلے مرحلے میں ہی اپنے قدیم موقف کے برخلاف کھل کر اسرائیل کی تائید کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ بعد میں فلسطین کے حق میں حکومت کا سرکاری بیان بھی آگیا۔ لیکن دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی طرح ملک کا گودی میڈیا بھی حماس کے دہشت گرد ہونے کے اسرائیلی موقف کو نہایت ہی بے ڈھنگے طریقے سے پھیلانے میں مصروف ہوگیا اور حق و انصاف کے تمام تقاضوں کو بری طرح پامال کرنے کا مرتکب ہوا۔ اس پورے قضیے میں ملک کے عوامی شعبے کے کسی فرد نے بھی صیہونی تحریک، اسرائیلی حکومت اور اس کی سر پرستی میں پلنے والی دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے پچھلے زائد از نوے برسوں سے بے گناہ فلسطینیوں پر کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذرا سا بھی ذکر کرنا تک گوارا نہیں کیا۔
دراصل مغرب کے عام بیانیے میں دہشت گردی کی اصطلاح ایک طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ، بالخصوص فلسطینی عربوں کے سر منڈھ دی گئی ہے جس کے بعد اسے پوری دنیا کے اسلام پسند مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جب کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں سے بیس پچیس برس پہلے سے ہی مختلف صیہونی دہشت گرد تنظیمیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے فلسطین اور سلطنت برطانیہ کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں۔ ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کئی بڑے بڑے دہشت گرد بعد میں اسرائیل کی حکومت میں وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور وزیر اعظم تک کے عہدوں پر فائز ہوئے۔ یہ سب باتیں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں لیکن اسرائیل کے زور دار لیکن جھوٹے پروپیگنڈے نے ان پر پردہ ڈال دیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت پوری دنیا ان کے سابقہ و موجودہ جرائم پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہماری حکومت اور اس کی مرضی کا میڈیا بھی عدل و انصاف پر مبنی اپنے پرانے موقف کو بالائے طاق رکھ کر بے سرے آواز میں ٹیپ کا وہی بند دہراتا جا رہا ہے۔
لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کے باوجود ہمارے ملک میں انصاف پسند دانشوروں کا ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو حق و انصاف پر مبنی آواز بلند کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے بھارتی حمایتیوں کو آئینہ دکھانے کا کام کر رہا ہے۔ چنانچہ پچھلے دنوں سابق وزیر خارجہ منی شنکر ایئر نے اس موضوع پر ایک مضمون تحریر کیا جو 28؍ اکتوبر کو انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوں نے نہایت ہی جرات اور بے باکی کے ساتھ لکھا کہ "یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ آج اسرائیل دنیا سے حماس کی دہشت گرد کارروائی کی مذمت کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جب کہ 1940 سے صیہونی دہشت گردی ہی صہیونی تحریک کی تمام کارروائیوں کا مرکز تھی جس میں اسرائیل کے کئی ماضی کے وزرائے اعظم ملوث رہے ہیں”۔ انہوں نے اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے مزید لکھا کہ "صیہونیوں کی کئی مسلح عسکری تنظیمیں تھیں جن کے ارکان میں مناہم بیگن، ییگال ایلن، موشے دایاں وغیرہ جیسے اسرائیلی وزرا بھی شامل تھے”۔ ان تنظیموں نے 1940 کے بعد سے پورے فلسطین میں تشدد و دہشت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ بازاروں، ریلوے اسٹیشنوں اور دیگر مقامات کو بموں سے اڑا دینا، مختلف لیڈروں کو قتل کرنا اور عوامی مقامات کو اپنی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنانا ان کی معمول کی سرگرمیاں تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ "ان عسکری تنظیموں نے نہ صرف فلسطینی عربوں کو نقصان پہنچایا بلکہ خود ان کے مخالف یہودی بھی ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنے”۔ ائیر نے لکھا کہ "اس طرح کی دہشت گردانہ کارروائیاں اسرائیل کی جانب سے پہلے بھی ہوتی تھیں اور آج بھی یہی طریقہ کار فلسطینیوں کے تئیں اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہے۔ اسرائیل ہمیشہ سے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں، اوسلو معاہدہ اور دیگر امن معاہدوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتا رہا ہے۔ اس نے فلسطینیوں کے خلاف وہی طرز عمل اختیار کر رکھا ہے جو اس تحریک کے آغاز سے تھا”۔ اگرچہ منی شنکر ائیر کا یہ مضمون ملک میں فلسطین کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں پھیلائے جانے والے پروپگنڈے کے درمیان میں حق و انصاف کی ایک ہلکی سی آواز ہی ہے لیکن ایسے اور بھی لوگ ہیں جو اب اسرائیل کے جابرانہ کارروائیوں کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں اور حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف عالم اسلام کے مختلف ممالک اتنی بھی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کی موجودہ وحشیانہ کارروائی کو دہشت گردی قرار دے کر اس کے ساتھ سختی کا برتاو کریں۔ رائٹرز کے حوالے سے جو تازہ ترین اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق ان مسلم ممالک کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی، سفارتی اور تمام طرح کے تعلقات منقطع کرلیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ایرانی صدر نے اسلامی ممالک کے اس اجتماع میں یہ تجویز بھی رکھی تھی کہ اسرائیلی فوج کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے۔ لیکن سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مراقش، تیونس، مصر ، اردن ، بحرین اور سوڈان جیسے بعض مسلم ممالک کی مخالف کے سبب اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کی تجویز منظور نہیں ہوئی۔ ان ممالک کے درمیان اس اہم مسئلے پر اتحاد کا نہ ہونا بھی نہایت ہی افسوس ناک ہے۔
بہر حال اس کانفرنس کے متعلق تفصیلی معلومات ابھی نہیں ملی ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ عرب ممالک اس معاملے میں اہلِ غزہ کے ساتھ محض زبانی ہمدردی اور ما بعد جنگ بازآبادکاری کے کاموں کے لیے تو تیار ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں اہلِ غزہ کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر ان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن بہرحال اہل غزہ کا مدد گار تو اللہ ہی ہے، وہی ان کا کار ساز بھی ہے اور وہی ان کا پشتیبان بھی۔اور اسی خدا کے سہارے وہ ایک مہینے سےاس اسرائیل کی داداگیری کے سامنے سینہ سپر ایک دیوار بن کر کھڑے ہیں جسے یہ زعم کہ وہ بہت طاقتور ہے حالانکہ وہ خود ایک دیگر عالمی قوت امریکہ کے دم پر اپنے وجود کو باقی رکھے ہوئے ہے۔
اللہ ان بے سر و سامان جیالوں کی اپنی سنت کے مطابق مزید مدد و نصرت فرمائے۔
گذشتہ اسٹوری