اداریہ

جھوٹ اور فریب کے جال کو توڑنا ضروری

جھوٹ اور فریب بھارت کی سیاست میں ہمیشہ سے ہی ایک معمول کی بات رہی ہے، لیکن جب سے بی جے پی نے اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی ہے، اس کے لیڈروں نے سچ اور جھوٹ کے پیمانے ہی بدل دیے ہیں۔ انہوں نے جھوٹ اور دروغ گوئی کے فن کو جس بلندی پر پہنچایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
بی جے پی کے ہم نواوں نے پچھلے کئی برسوں سے چلا چلا کر مسلمانوں کی آبادی کے تیز رفتار اضافے کا ایک ہوا کھڑا کیا اور سیدھے سادے ہندو عوام کو اس بات سے خوف زدہ کرتے رہے کہ ملک میں مسلمان چار شادیاں اور چالیس بچے پیدا کرتے ہیں جس سے کچھ ہی عرصے میں ان کی آبادی ہندووں سے بڑھ جائے گی۔ یہاں تک کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت تک نے آج سے دو سال قبل اپنے سالانہ خطاب میں بہت ہی چالاکی کے ساتھ یہی راگ الاپتے ہوئے آبادی کے عدم توازن کا ذکر کیا اور مودی حکومت کو نصیحت کی وہ ملک میں آبادی پر کنٹرول کے لیے ایک ملک گیر پالیسی وضع کریں۔ حالاں کہ اس سے قبل کسی اور موقع پر تقریر کرتے ہوئے وہ ہندووں کو یہ کہہ کر اکسا چکے ہیں کہ "کس قانون نے ہندووں کی آبادی کو بڑھنے سے روکا ہے، جب دوسروں کی آبادی بڑھ رہی ہے تو پھر انہیں کس نے روک رکھا ہے؟” آج سے دو سال قبل آسام کے چیف منسٹر مسٹر ہیمنت بسوا سرما نے راست مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "وہ آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی کو اختیار کریں”۔ وشوا ہندو پریشد کی سادھوی پراچی اور بی جے پی کے رکن لوک سبھا ساکشی مہاراج تو بطور خاص ہندو عورتوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی نصیحت کرچکے ہیں۔ حالاں کہ مختلف تحقیقات اور سائنٹفک تجزیات سے یہ بات کئی بار واضح ہو چکی ہے کہ مذکورہ بالا پروپیگنڈے میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ یہ ایک جھوٹا افسانہ ہے جو ملک کی بھولی بھالی عوام کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کے لیے ایک انتخابی ہتھیار کے طور پر ہندو احیا پرستوں نے گھڑا ہے۔ اس موقع پر مسلم آبادی کے متعلق اس پروپیگنڈے کا تذکرہ کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مرکزی وزیر داخلہ نے 5؍ نومبر کو بہار کے ضلع مظفر پور میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہار میں ذات پات کی بنیاد پر آبادی کا جو سروے کیا گیا ہے اس میں مہاگٹھ بندھن کی حکومت نے منھ بھرائی کی پالیسی کے ایک حصے کے طور پر یادوؤں اور مسلمانوں کی آبادی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ گزشتہ ماہ جاری کردہ سروے رپورٹ کے مطابق بہار کی کل آبادی میں یادو 14.3 فیصد اور مسلمان 17.7 فیصد ہیں۔ اس کے متعلق ملک کے وزیر داخلہ یہ الزام لگا رہے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے اور محض یادوؤں اور مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کی آبادی کو بڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ امیت شاہ کا یہ بیان ہمارے ملک میں آبادی کے نام پر ہونے والی سیاست کا سب سے حیرت انگیز موڑ ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر کہا ہے، اب تک مسلمانوں کی آبادی کے بارے میں یہ غلط فہمیاں پھیلائی گئیں کہ یہ بہت زیادہ ہے، یہ بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے، کچھ ہی عرصے میں یہ ہندو آبادی کو پیچھے چھوڑ دے گی وغیرہ وغیرہ۔ آج امیت شاہ پہلی بار یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی حقیقت میں کم ہے اور اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالاں کہ ان کے نظریے کے مطابق انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ مسلمانوں کی آبادی اس سے زیادہ ہے جتنی اس سروے میں ظاہر کی گئی ہے، کیوں کہ آج تک سارے لوگ یہی کہتے آئے ہیں۔ لیکن بی جے پی کے قائدین کے کیا کہنے وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بس صحیح بات وہی ہے جو انہیں فائدہ پہنچائے چاہے اس میں رتی برابر بھی سچائی موجودہ نہ ہو۔
امیت شاہ کے اس بیان کے ذریعے بی جے پی کے قائدین کا ایک اور کردار بھی ابھر کر سامنے آتا ہے کہ وہ ہر مسئلے کو کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر ہندو مسلمان بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر آبادی کے اس سروے کا مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ مذہب کی بنیاد پر ہونے والا سروے نہیں تھا بلکہ یہ سروے ذات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ لیکن بی جے پی کو تو مسئلے کو ہندو مسلم کیے بغیر نہ تو چین آتا ہے اور نہ انہیں اس کے بغیر کوئی کامیابی مل سکتی ہے۔ ان کے لیے یہ ترپ کا پتہ ہے جو وہ ہر انتخاب کے موقع پر بے دھڑک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر تعمیر کی جانے والی عمارت اپنی اصل کے اعتبار سے بہت کمزور ہوتی ہے۔ حقائق کو بڑے پیمانے پر پھیلانے اور مختلف طبقات کے درمیان باہمی رابطہ اور عوامی سطح پر لوگوں کے درمیان قربت سے جھوٹ و فریب کے ذریعے بُنے گئے اس جال کو توڑا جاسکتا ہے جس پر ملک کے تمام طبقات کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔