اداریہ

قوم کی تعمیر جھوٹ پر نہیں سچائی پر ہو

کیرالا کے ایک کنونشن سنٹر میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر جس طرح کا پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا اس نے ایک بار پھر حکمراں پارٹی، اس کے وزیروں اور حاشیہ بردار سوشل میڈیا فوج کی بدنیتی کا چہرہ بری طرح آشکارا کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق 28؍ اکتوبر کو کیرالا کے ضلع کلمسیری میں واقع یہوواگواہی کے کنونشن سنٹر میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے جن میں تاحال تین لوگوں کی جان چلی گئی جبکہ پچہتر سے زائد افراد زخمی ہیں۔ دھماکے کے دوسرے دن یعنی 29؍ اکتوہر کو کیرالا کے باشندے ڈومینک مارٹن نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا اقبالی بیان جاری کیا اور خود کو پولیس کے حوالے بھی کر دیا۔ اس نے اپنے اقبالی بیان میں صاف طور پر کہا ہے کہ یہ دھماکے کسی اور نے نہیں بلکہ خود اسی نے کیے ہیں کیوں کہ وہ اس مخصوص عیسائی فرقے کے لوگوں کو ان کی "ملک دشمنی” کے لیے سبق سکھانا چاہتا تھا۔
تمام شواہد اور تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ کیرالا کے دھماکوں کے پیچھے ڈومینک مارٹن ہی کا ہاتھ ہے۔ انٹلی جنس ذرائع کا بھی یہی کہنا ہے کہ "ڈومینک مارٹن ہی وہ شخص ہے جس نے کل کیرالا میں دھماکے کیے تھے۔ کل اس نے سوشل میڈیا پر جو دعویٰ کیا تھا اس کی تائید میں ہمارے پاس کافی ثبوت موجود ہیں”۔ انٹلی جنس اداروں کی جانب سے تفیش کے دوران بھی اس نے اپنا جرم قبول کرلیا اور بتایا کہ یہووا گواہی فرقے کے ساتھ اس کے شدید اختلافات تھے، وہ اس فرقے سے کافی ناراض تھا۔ مذکورہ فرقے کے لوگوں کے ساتھ ماضی میں بھی کئی بار اسی موضوع پر تنازعہ ہوا تھا۔ وہ قومی ترانہ نہ گانے، قومی پرچم نہ لہرانے، کرسمس نہ منانے، دوسرے عیسائیوں سے قطع تعلق رکھنے اور ان کی عجیب و غریب سرگرمیوں کی وجہ سے ناراض تھا۔ وہ پچھلے چار پانچ سالوں سے انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بقول اس کے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اپنی ان کوششوں میں ناکامی کے بعد آخرکار اس نے انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور دھماکے کیے۔ ڈومینک مارٹن کے مطابق ان دھماکوں کا مقصد لوگوں کو مارنا نہیں تھا، وہ بس یہ چاہتا تھا کہ متعلقہ فرقے کے لوگ اس کے نقطہ نظر کو قبول کرلیں۔ ڈومینک مارٹن دُبئی کی ایک کمپنی میں الیکٹریکل فورمین کی حیثیت سے کام کرتا تھا اور کچھ عرصہ پہلے ہی وہ ہندوستان آیا اور یہاں اس نے انگریزی کا ٹیوشن پڑھانا شروع کیا۔ ساتھ ہی اس نے اپنے طور پر مذکورہ بالا کارروائی کی تیاری بھی شروع کی۔ یوٹیوب اور دیگر ذرائع کی مدد سے اس نے مقامی طور پر دستیاب اشیا کے ذریعے بم بنائے اور مذکورہ کارروائی انجام دی۔ اس کا ایک چھوٹا سا خاندان ہے جس میں اس کی بیوی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ اس وقت یہ ساری تفصیلات اس لیے پیش کی گئی ہیں کہ  ملک کے انٹلی جنس اداروں نے ڈومینک کی گرفتاری اور تفتیش کے بعد یہ ساری معلومات محض ایک دن میں حاصل کرلی تھیں، لیکن یہاں عام طور پر جس طرح ہر معاملے کو کھینچ تان کر ایک مخصوص رنگ دینے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے اسی طرح اس معاملے میں بھی ہوئی، چنانچہ اس واقعہ کو لے جا کر حماس سے جوڑ دیا گیا۔ جس کنونشن سنٹر پر دھماکہ ہوا اسے یہودیوں کا مرکز بتاکر بھارت میں یہودیوں کے خلاف کارروائی قرار دے دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر مخصوص فکر کے حامل نمائندوں کے علاوہ خود حکمراں جماعت کے وزیروں نے تک بلا کسی ثبوت کے اسی سُر میں اپنا سُر ملانا شروع کر دیا، یہاں تک کہ اسپورٹس کی معروف شخصیات پی وی سندھو اور سچن ٹنڈولکر نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لینا ضروری سمجھا۔ اتفاق سے ایک دن قبل ہی کیرالا کے ملاپورم میں فلسطین کی تائید میں ایک ریلی منعقد ہوئی تھی جس کو حماس کے رہنما خالد مشعل نے بھی آن لائن خطاب کیا تھا۔ بس پھر کیا تھا اسی کو بنیاد بنا کر سارا بیانیہ تیار کر لیا گیا۔ کسی نے لکھا کہ "کرونولوجی ملاحظہ کریں، کل حماس کے خالد مشعل نے قطر سے کیرالا میں خطاب کیا اور آج یہاں یہودیوں پر حملہ ہوگیا”۔ بی جے پی کیرالا یونٹ کے صدر کے سریندرن نے اس دھماکے کا سیاسی کرن کرنے میں تھوڑی بھی دیر نہیں لگائی اور دھماکے پر آنسو بہاتے ہوئے کہہ دیا کہ "ان دنوں کیرالا ایک ایسی ریاست میں تبدیل ہوگئی ہے جہاں عوامی اور پرہجوم مقامات پر مسلسل دھماکے ہو رہے ہیں اور یہ پنارائے وجین حکومت کی ناکامی کا ایک واضح ثبوت ہے”۔ مرکز کے مملکتی وزیر راجیو چندر شیکھر نے بھی کچھ ہی دیر بعد اس پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے اسے کیرالا حکومت کی ناکامی قرار دیا اور کہا کہ "ایک دن قبل ہی یہاں ایک دہشت گرد تنظیم کے لیڈر کی تقریر ہوئی اور آج یہ واقعہ ہوگیا”۔ ایک اور سوشل میڈیا کے کارندے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ "کیرالا کے ضلع کلمسیری میں چار سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے جہاں یہودی رہتے ہیں، اور یہ دھماکے حماس کے قائد خالد مشعل کی آن لائین تقریر کے ایک دن بعد ہوئے ہیں”۔ اسی طرح کے ٹویٹس دیگر لوگوں کے ہینڈل سے بھی سامنے آنے لگے۔ یہ واقعہ جس میں تازہ ترین اطلاع ملنے تک تین لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے، اتنا اہم بن جاتا ہے کہ مشہور کرکٹ کھلاڑی سچن ٹنڈولکر کیرالا دھماکے پر ٹویٹ کر کے متاثرین اور ان کے خاندانوں کے ساتھ تعزیت کرتے ہیں اور اس کے کچھ ہی دیر بعد بیڈمنٹن چمپین پی وی سندھو بھی اس پر ٹویٹ کرتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ دونوں کے ٹوئٹس کا مضمون تقریباً ایک جیسا ہے۔ یہ وہ سیلیبرٹیز ہیں جنہوں نے منی پور میں ہونے والی قتل و غارت گری پر ایک لفظ نہیں کہا، اور ابھی آندھرا پردیش میں ہونے والے تازہ ٹرین کے حادثے میں مرنے والوں کی انہوں نے تعزیت تک کرنا گوارا نہیں کیا لیکن اس واقعہ پر اپنا تبصرہ کرنا ضروری سمجھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹی وی چینلوں پر بھی یہی بیانیہ چلنا شروع ہوگیا۔ ایک ٹی وی چینل نے چند ہی گھنٹوں کے اندر یہ سرخی لگائی کہ "حماس کے نشانے پر ایک مخصوص فرقہ”۔گویا اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ اس واقعے کو ہمیشہ کی طرح ایک مخصوص رنگ میں پیش کرکے اپنے مذموم سیاسی مقاصد حاصل کیے جائیں۔ حیرت تو یہ ہے کہ اب جب کہ اصل مجرم کا اقبالی بیان آچکا ہے اور ساری حقیقت واضح ہوچکی ہے، اس کے بعد بھی اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس واقعہ کو اپنے مطلب کے مطابق پیش کیا جائے۔ حکمراں جماعت اور ان کے ہمنواوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جھوٹ اور افواہوں کے سہارے ملک کے ماحول کو خراب کر کے اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے کی جو کوشش بھی وہ کر رہے ہیں اس سے نہ تو ملک کا بھلا ہو گا اور نہ خود ان کا۔ جھوٹ کے بل پر قوم کو ورغلانے یا اکسانے کا عمل بالآخر پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ بھلے ہی وقتی طور پر کچھ فائدہ حاصل ہوتا ہو لیکن طویل مدت کے بعد پوری کی پوری قوم جھوٹ کی اس قدر عادی ہو جاتی ہے کہ وہ نہ سچ سن سکتی ہے اور سچ کو برداشت کرسکتی ہے۔
اس موقع پر ہم ملک کے سمجھدار اور دانشور طبقے کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ وہ جھوٹ کے پرستاروں کو ایسا کوئی موقع فراہم نہ کریں جس کا استعمال وہ اپنے ناجائز فائدوں کے حصول کے لیے کرسکیں۔ انہیں پوری دانائی اور حکمت کے ساتھ مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ وہ یقیناً مظلوموں کے حق کے لیے آواز اٹھائیں لیکن اس کوشش میں حکمت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔