گزشتہ دنوں رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ بھارت کے چھ روزہ دورے پر آئے۔ مرکزی بی جے پی حکومت نے مہمان کا ان کے شایان شان استقبال کیا اور ان کے اعزاز میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا۔ اس دوران ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے دلی کی تاریخی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ دیا اور نماز جمعہ کی امامت کی۔ انہوں نے نئی دلی کے انڈیا اسلامک کلچر سنٹر میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی نمائندہ شخصیات کے ایک گروپ سے خطاب بھی کیا۔ مسلمانوں کی نمائندہ شخصیات نے بھی سعودی عرب سے آئے ہوئے مہمان کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔
ڈاکٹر العیسیٰ کی شخصیت مسلمانوں میں اعتدال پسندی، شدت پسندی سے گریز اور بین المذاہب مفاہمت کے فروغ کے لیے معروف ہے، اگرچہ مسلم دنیا اور اسلامی تحریکوں کے نزدیک ان کی شخصیت بہت زیادہ پسندیدہ نہیں ہے لیکن سردست ہم ان کی شخصیت کے اس پہلو اور مسلم دنیا میں ان کی اس امیج پر کوئی گفتگو نہیں کریں گے بلکہ ہماری آج کی گفتگو ان کے بھارت کے دورے اور اس کے مضمرات تک محدود رہے گی۔
اس دورے کے موقع پر انڈیا اسلامک کلچر سنٹر میں انہوں نے جو خطاب کیا اس میں بھی ان کے انہی افکار و نظریات کی گونج سنائی دیتی ہے جس کا اظہار وہ عام طور پر کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے تمام مذاہب کے لوگوں کے درمیان مفاہمت اور اتحاد پر زور دیا اور دنیا، بالخصوص بھارت میں پائی جانے والے مذہبی و ثقافتی تنوع کا احترام کرنے، اس کو برقرار رکھنے اور اسے فروغ دینے کی اپیل کی۔ مذکورہ اجلاس میں وزیر اعظم کے قریبی رفیق اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال بھی شریک تھے اور انہوں نے بھی اجلاس سے خطاب کیا۔ اجیت دووال نے ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کے خیالات کی پر زور تائید کی اور کہا کہ بھارت بھی اسی راستے پر گامزن ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت میں بیس کروڑ مسلمان رہتے ہیں اس کے باوجود عالمی سطح پر ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی ان کا تناسب نہایت ہی کم ہے۔
سرکاری سطح پر ڈاکٹر العیسیٰ کے دورہ کا یہ عالی شان اہتمام، انڈیا اسلامک کلچر سنٹر میں ڈاکٹر العیسیٰ اور قومی سلامتی مشیر کا خطاب ملک کے سنجیدہ اور صاحب نظر افراد کے لیے بہت ہی تعجب خیز ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار، مسلمانوں اور ملک میں پائی جانے والے ثقافتی و مذہبی تنوع کے متعلق بی جے پی حکومت کے اس یو ٹرن پر بھی ورطہ حیرت میں ہیں۔
ساری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ بی جے پی کے دس سالہ دور حکمرانی میں مذہبی اقلتیں اور سماج کے کمزور طبقات بہت زیادہ ظلم وستم اور محرومی کا شکار رہے ہیں۔ پچھلے دس برسوں کے دوران مختلف اوقات میں وزیر اعظم سے لے کر ریاستی وزرائے اعلیٰ تک اور دیگر وزیروں سے لے کر عام سطح کے بی جے پی قائدین تک مسلمانوں اور اسلام کے متعلق انتہائی دلآزار اور اشتعال انگیز باتیں کرتے رہے ہیں جس کے سبب ملک کے بیشتر حصوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ کسی تحقیق اور تفتیش کے بغیر ملک کے مسلمانوں کو ملک دشمن، غدار اور دہشت گرد قرار دینے کی مسلسل کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ کبھی انہیں کپڑوں سے پہچاننے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو کبھی انہیں کرنٹ لگانے کی بات کہی جاتی ہے۔ کوئی ان کے جان سے عزیز پیغمبر پر بہتان طرازی کرتا ہے تو کوئی ان کو کھلے عام گالیاں دے کر لوگوں کو گولی مارنے کی دعوت دیتا ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ یہ حکومت ان کے خلاف نہ صرف کوئی کارروائی نہیں کرتی بلکہ ان میں سے بعض افراد کو وزارتوں سے بھی نوازا گیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال وزیر اعظم کی وہ تقریر ہے جس میں انہوں نے یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں سے منسوب کر کے اسے عوام کو پولرائز کرنے کوشش کی۔ ان کی اس تقریر کے بعد ہی سارے ٹی وی چینلوں نے مسلمانوں کو رجعت پسند، ترقی و اصلاح کے مخالف اور نہ جانے کیا کیا بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ مسلمانوں کے بارے میں مسلسل یہ ڈھول پیٹا جا رہا ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ وہ تعدد ازدواج پر عمل کرنا چاہتے ہیں، عورتوں کو ان کے حقوق دینا نہیں چاہتے وغیرہ۔ ان ٹی وی مباحث سے ملک میں مسلمانوں کے تئیں وہی نفرت پھیلائی جا رہی ہے جو بی جے پی اور اس کے ہم نواوں کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ ایسے حالات میں ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ کا تزک و احتشام سے پر یہ دورہ، انڈیا اسلامک کلچر سنٹر میں ان کے اور اجیت دووال کے خطابات سے عام شہری اور مسلمان اگر حیرت میں ہیں تو یہ کوئی قابل تعجب بات نہیں ہے۔
ہم مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے تئیں بی جے پی کے خیالات میں ہونے والی اس خوش گوار تبدیلی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بی جے پی نے محض دنیا بھر میں اپنی امیج کو بہتر بنانے کے لیے یہ کام نہیں کیا ہوگا بلکہ وہ حقیقت میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں اپنی پرانی روش کو بدلنا چاہتی ہو گی۔ یقیناً پچھلے کچھ عرصے سے دنیا میں بی جے پی کی حکومت کی امیج کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے موقع پر وال اسٹریٹ جرنل کی صحافی کے تیکھے سوالات کے بعد ہندوتوا بریگیڈ نے جس طرح ان کی ٹرولنگ کی اور سوشل میڈیا پر ان کے ساتھ بد سلوکی کی گئی اس نے بی جے پی حکومت کی رہی سہی تصویر کو بگاڑنے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بعد منی پور میں ہونے والے پرتشدد واقعات نے بین الاقوامی سطح پر اور بالخصوص عیسائی دنیا میں حکومت کی شبیہ کو اور بھی خراب کیا ہے۔ چنانچہ مختلف سیاسی تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ حالیہ سرگرمی دراصل عیسائی دنیا میں ہونے والے اس نقصان کی پابجائی کے علاوہ مسلم دنیا میں اپنی تصویر کو بہتر بنانے کی ایک کوشش ہے۔ اجیت دووال اگر ہندوتوا کے بنیادی نظریے کے برعکس یہ کہہ رہے ہیں کہ ثقافتی تنوع انسانی سماج کی ایک بنیادی خصوصیت ہے تو ہمیں خوش گمانی رکھنی چاہیے کہ واقعی حکومت اور ارباب اقتدار کے خیالات میں تبدیلی آرہی ہے۔ لیکن ہم یہ بھی واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تبدیلی کا اظہار محض تقریروں اور مسلم دنیا کے کسی مہمان کے پر تپاک استقبال سے ہی نہیں بلکہ ایسے اقدامات سے ہونا چاہیے جو ملک میں جاری اس نفرت کے ماحول کو پوری طرح سے ختم کر دے، ملک میں بسنے والی ثقافتی اکائیوں کے دلوں سے عدم تحفظ کے احساس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور ان تمام لوگوں کی زبانوں پر لگام لگائے جو اس فکر و خیال کے خلاف ثقافتی یکسانیت کی بات کرتے ہیں اور ملک کو ایک رنگ میں رنگنے کے دعوے کرتے ہیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ بی جے پی حکومت کی پالیسی میں یہ مثبت تبدیلی محض کسی شو آف اور اپنی امیج بلڈنگ کی سرگرمی نہ رہے بلکہ واقعی ملک میں امن و محبت کی فضا کو فروغ دینے والی بنے۔ اور بھارت کی حکومت ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ کے خطاب کے اس حصے پر اخلاص و سنجیدگی سے عمل کرے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں زمین پر تنوع کی کیفیت کو قائم کرنے کے لیے محض اقدام کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کثرت میں وحدت کا یہ نظریہ محض نصابی کتابوں کی زینت بن کر نہ رہے۔
گذشتہ اسٹوری