اداریہ

سیکولرزم اور جمہوریت ’ہَوَن‘ میں نذر آتش

ہمارے ملک نے اپنی پارلیمنٹ کے لیے ایک نئی عمارت تعمیر کرلی ہے، جس کا اتوار کے روز وزیر اعظم نریندر مودی نے افتتاح کیا۔ محض 73 برس کی عمر میں ہی بھارتی جمہوریہ کو پارلیمنٹ کی جدید عمارت کی ضرورت پڑگئی ہے۔ پارلیمنٹ کی موجودہ عمارت صرف 106 برس قدیم ہے اور نہایت بہترین حالت میں ہے جبکہ دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی عمارتیں اور بھی قدیم ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ کی اس جدید عمارت کے ایوان زیرین (لوک سبھا) میں 888 اور ایوان بالا راجیہ سبھا کے ایک علیحدہ چیمبر میں 300 ارکان کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، جبکہ موجودہ عمارت میں یہ گنجائش 543 اور 250 کی تھی۔
پارلیمنٹ کے لیے ایک جدید عمارت کی تعمیر اور اس کا افتتاح بظاہر خوشی کا موقع ہے لیکن حکمراں جماعت کے بعض اقدامات نے عمارت کے افتتاح کو بھی متنازع بنا دیا ہے۔ 28 مئی کو ہونے والے اس افتتاحی پروگرام کا ملک کی 20 سے زیادہ اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ 2020 میں اس عمارت کے سنگ بنیاد کے موقع پر بھی اپوزیشن پارٹیوں نے اسی طرح تقریب کا بائیکاٹ کیا تھا، جبکہ وزیر اعظم نے عین اس وقت عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تھا جب پوری قوم کووڈ-19 وبا کے سنگین مسئلے سے پریشان تھی اور دوسری جانب ملک کے کسان زرعی قوانین کے خلاف دلی کی سڑکوں پر مصروف احتجاج تھے۔
جدید عمارت کے افتتاح کے موقع پر اپوزیشن پارٹیوں کے بائیکاٹ کی مختلف وجوہات ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس عمارت کی تعمیر کے پراجیکٹ کو اپنے ذاتی پراجیکٹ کی طرح پیش کرتے آئے ہیں۔ آئین کے مطابق بھارت کی پارلیمنٹ صدر جمہوریہ، لوک سبھا اور راجیہ سبھا پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب صدر جمہوریہ اور نائب صدر دونوں کے بغیر منعقد ہوئی جو بلا شبہ ملک کے سب سے اعلیٰ اور باوقار عہدے کی بے عزتی ہے۔ یہ صورت حال اس وقت اور بھی تشویشناک ہو جاتی ہے جب کہ ملک کی صدر جمہوریہ ایک خاتون اور قبائلی طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگر صدر جمہوریہ کے ہاتھوں اس عمارت کے افتتاح نہ کروانے کا سبب ان کا خاتون اور قبائلی ہونا ہو تو یہ اور بھی شرمناک بات ہے۔ چنانچہ مختلف اپوزیشن جماعتوں نے اس بات پر شدید اعتراض کیا اور ان کے بائیکاٹ کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی۔
پارلیمنٹ کی یہ جدید عمارت ایک ایسے جمہوری ملک کی ہے جو سیکولر ہے اور اپنے ڈھانچے کے اعتبار سے وفاقی بھی ہے، لیکن اس کے افتتاح میں ان دونوں باتوں کو صاف نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ سب سے وزنی اعتراض یہ تھا کہ عمارت کے افتتاح کے لیے ایک ایسی تاریخ کا انتخاب کیا گیا جو وی ڈی ساورکر کا یوم پیدائش ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ساورکر ایک کٹر ہندو قوم پرست اور دو قومی نظریے کے ماننے والے تھے۔ ہندوستان کی مشترکہ اور تکثیری روایات کے وہ سخت خلاف تھے۔ اس کے باوجود ان کے یوم پیدائش کو اس عمارت کے افتتاح کے لیے منتخب کرنا ہندوستان کے بنیادی تصور کے متعلق موجود حکومت کے منفی رویے کو ظاہر کرتا ہے، پھر اس عمارت کا افتتاح جس انداز سے کروایا گیا اس کو دیکھ کر کہیں سے بھی یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کسی سیکولر ملک کی کوئی سرکاری تقریب ہے۔ ویسے بھارت کی سرکاری تقاریب میں اکثریتی تہذیب کے رسوم و رواج کا چلن پہلے ہی سے ہوتا رہا ہے لیکن موجودہ حکم راں طبقے نے اس معاملے میں سارے حدود پھلانگ دیے ہیں۔
یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جدید پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب کے وقت بھی دلی کے جنتر منتر پر خواتین ریسلرس اور ان کے حامی 38 دنوں سے احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن عین اسی وقت جبکہ پارلیمنٹ کی جدید عمارت کا افتتاح ہو رہا تھا دلی کی پولیس نے زبردستی اس دھرنے کو ختم کروایا، خاتون ریسلرس کے ساتھ اس موقع پر جس طرح کا سلوک کیا گیا اور جس طریقے سے اس دھرنے کو پولیس نے منتشر کیا وہ خود بھی انتہائی شرمناک تھا۔ مودی جی نے اس پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر قرار دیا ہے اور یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ جدید عمارت بھارت میں ویدک دور سے لے کر آج تک کی جمہوری روایات کی کہانی بیان کرتی ہے، لیکن عین اس کے افتتاح کے روز بین الاقوامی سطح پر تمغے جیت کر ملک کے وقار میں اضافہ کرنے والی خواتین ریسلر کے احتجاجی دھرنے کو زبردستی ختم کرکے ان کے جمہوری حق کو جس طرح پامال کیا گیا ہے اس نے ملک کے سارے شہریوں کو شرمندہ کر دیا ہے۔ بحیثیت مجموعی پارلیمنٹ کی اس جدید عمارت کی تعمیر سے لے کر اس کے افتتاح تک کے پورے عمل میں ہر طرف ملک اور یہاں کی جمہوریت کے بالمقابل ایک فرد واحد کو جس طرح عظیم اور بڑا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی اور ملک کی جمہوری اور سیکولر روایات کو بری طرح نظر انداز کر دیا گیا، اس پر ملک کے ہر سنجیدہ شہری کو متفکر ہونا چاہیے۔