دار الحکومت دلی کے جنتر منتر پر خواتین پہلوانوں کے دھرنے نے بالآخر اپنا اثر دکھا دیا۔ ریسلر خواتین بی جے پی رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن سنگھ کی جانب سے جنسی ہراسانی کے خلاف دوسرے مرحلے کے احتجاج کے طور پر یہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھیں۔ وہ برج بھوشن شرن سنگھ کی گرفتاری سے کم پر راضی نہیں تھیں۔ اس دوران سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد دلی پولیس نے ملزم برج بھوشن شرن سنگھ پر دو ایف آئی آر درج تو کیں لیکن خواتین پہلوانوں کے اس دھرنے کی وجہ سے ملک میں خواتین کے تحفظ اور ان کے خلاف ہونے والے جرائم پر حکومت و انتظامیہ کے رد عمل اور ملکی سیاست دانوں کے اخلاق و کردار سے متعلق کئی سنگین سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ ویسے تو بی جے پی اس طرح کے واقعات کو اپنی طاقت کے ذریعے دبا دینے میں اکثر کامیاب ہو جایا کرتی ہے لیکن اس معاملے میں وہ پسپا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہ واقعہ خواتین اور ان کے تحفظ کے سلسلے میں بی جے پی کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اور قول و عمل کے تضاد کی بد ترین مثال بنتا جا رہا ہے۔
ملک کی سات اعلیٰ خاتون پہلوانوں نے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا میں خاتون پہلوانوں کے ساتھ برسوں سے جاری جنسی ہراسانی اور بدسلوکی کی شکایت کرتے ہوئے اس سال جنوری میں احتجاج کیا تھا۔ حکومت نے انہیں تیقن بھی دیا تھا کہ ان کی شکایات پر توجہ دی جائے گی لیکن چار ماہ گزرنے کے بعد بھی ان کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ چنانچہ چار ماہ کے انتظار کے بعد اپریل کے اواخر میں ان پہلوانوں نے دوبارہ جنتر منتر پر دھرنے کا آغاز کر دیا۔ حکومت کے اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے خلاف سات خاتون پہلوانوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹایا اور انتظامیہ پر بھی یہ الزام لگایا کہ پولیس ان کی شکایت کے باوجود فیڈریشن کے چیئرمین برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف ایف آئی درج نہیں کر رہی ہے۔ اس اپیل کے جواب میں سپریم کورٹ نے دہلی حکومت اور دیگر اداروں کو سخت نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنگین الزامات ہیں جو فوری توجہ کے طالب ہیں۔ چنانچہ دہلی پولیس نے مجبوری کے عالم میں دو ایف آئی آر درج کر لیے ہیں۔ جن میں ایک ایف آئی آر جنسی جرائم سے نابالغوں کے تحفظ سے متعلق قانون پوکسو کے تحت بھی ہے۔
اس معاملے میں بی جے پی کے لیے اس وقت بہت زیادہ پریشانی کھڑی ہو گئی جب ایک خاتون پہلوان ونیشن پھوگٹ نے یہ انکشاف کیا کہ اس نے 2021 میں ہی برج بھوشن شرن سنگھ کے اس طرز عمل کی اطلاع وزیر اعظم نریندر مودی کو دے دی تھی لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بی جے پی کی جانب سے اس معاملے پر کارروائی میں تاخیر نے معاملے کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔ جنوری کے برعکس اس بار کے احتجاج کے موقع پر دہلی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال، کانگریس قائد پرینکا گاندھی، آر ایل ڈی کے صدر جینت چودھری، سابق گورنر جموں و کشمیر ستیہ پال ملک اور سی پی آئی ایم کی لیڈر برندا کرت نے بھی احتجاجی پہلوانوں سے ملاقات کی۔ اگرچہ ملزم برج بھوشن شرن سنگھ نے ان الزامات کو پوری طرح مسترد کرتے ہوئے اسے اپوزیشن کی سازش قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود اس پورے واقعے سے بعض سنگین سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
بھارت میں خواتین کے تحفظ اور ان کے خلاف ہونے والے جنسی جرائم کو روکنے کے لیے قانون سازیوں، سرکاری اسکیموں اور حکومت کے بلند بانگ دعووں کے باوجود خواتین کے تحفظ سے متعلق صورت حال میں کوئی تبدیلی ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی بلکہ دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ کھیلوں کے ذریعے عالمی سطح پر ملک کے وقار میں اضافہ کرنے والی خواتین بھی اگر اس معاملے میں محفوظ نہیں ہوں گی تو عام خواتین کی حالت کیا ہوگی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے ہونے والی قانون سازیاں اور وضع کی جانے والی اسکیمات بھی حقیقت میں محض زبانی دعوے ہی ہیں۔ یہ قوانین اور اسکیمیں اس لیے بھی ناکام رہتی ہیں کہ انہیں بنانے والے لیڈر ہی ان کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ لیڈروں کی بدترین اخلاقی صورت حال کا مظاہرہ اس سے قبل کئی مواقع پر ہو چکا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کرکے انہیں قتل کر دینا، شکایت کرنے پر مظلوم اور اس کے گھر والوں کو پولیس کے ذریعے ہراساں کرنا اب ملک میں عام ہو چکا ہے۔ اس طرح کے واقعات حکومت اور حکمراں جماعت کے قول و عمل کے بدترین تضاد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس اخلاق و کردار کے لوگ جب ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے ہیں تو پھر ملک میں کسی کی بھی بہن اور بیٹی محفوظ نہیں رہ سکتی چاہے وہ مزدور کی بیٹی ہو یا بین الاقوامی کھلاڑی۔
اس معاملے میں پولیس اور انتظامیہ کا رویہ بھی انتہائی تشویشناک بلکہ افسوسناک ہے۔ شکایت ملنے کے چار چار ماہ تک بھی پولیس کی جانب سے کسی کارروائی کا نہ ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پولیس خود بھی طاقت ور سیاسی لیڈروں کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ معصوم لوگوں کے خلاف کارروائی میں تو وہ بہت تیز ہوتی ہے لیکن سرکش مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے میں وہ عام طور پر بزدل ثابت ہوتی ہے۔ خاتون پہلوانوں کے خلاف جنسی ہراسانی کا یہ واقعہ ہمارے ملک کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے۔ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ محض بیٹی پڑھاو بیٹی بچاو جیسے نعروں سے بیٹیوں کی حالت نہیں بدلتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارٹی کے اندر پناہ تلاش کرنے والے مجرمین کے خلاف تیز اور مؤثر کارروائی کر کے انہیں عبرت ناک سزا دینے میں اپنا رول ادا کریں۔
گذشتہ اسٹوری