ہم محض قوم نہیں امّتِ دعوت بنیں

قرآن کے نعمتِ عظمیٰ ہونے کا احساس و عمل ہی امّت کو سرخرو کرے گا

ڈاکٹر ساجد عباسی

قرآن سے ہمارا تعلق محض ثواب حاصل کرنے کی حدتک نہ ہو بلکہ اس پر تدبّر کرتے ہوئے اس کو کتابِ ہدایت بنانے کے لیے ہو۔پھر اس کو کتابِ دعوت بناکر ساری انسانیت کے سامنے اس کی تعلیمات کو پیش کریں۔
مسلمانوں کے لیے صرف دو عیدوں کو مقرر کیا گیا ہےجن میں سے ایک عیدالفطر ہے۔ عیدالفطر دراصل قرآن حکیم کے نزول پر اظہار تشکر بھی ہے اور اظہارِ شادمانی بھی۔سورۃ البقرہ آیت ۱۸۳میں جہاں صیامِ رمضان کا ایک مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے تقوی ٰکا حصول ہوتا ہے وہیں آیت ۱۸۵ میں یہ فرمایا گیا ہے رمضان کے فرض روزوں کے ذریعے ہم نے قرآن جیسی نعمت کے نزول پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔
اسلام میں اظہارِ تشکر اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے کیا جاتا ہے اس لیے عید کی نماز، زاید تکبیروں کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اور عیدگاہ جاتے ہوئے اللہ کی کبریائی بیان کی جاتی ہے ۔
عموماً تمام مذاہب میں عید کسی بہت بڑے انعام پریا کسی غیر معمولی واقعہ پرہر سال منائی جاتی ہے تو دیکھنا ہوگا کہ عیدالفطر کس خوشی میں منائی جاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیؐ، کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔(سورۃ یونس ۵۷، ۵۸)
عید کےلغوی معنی بار بار پلٹ کر آنے والی چیز کے ہیں ۔ یعنی ہر سال منائی جانے والی خوشی کو عید کہتے ہیں۔قرآن کا نزول ساری انسانی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس میں قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے رہنمائی ہے۔اس کتاب میں دنیا سے آخرت تک کی کامیابیوں کے راز پنہاں ہیں ۔لیکن ان رازوں کو ساری انسانیت تک پہنچانے کی ذمہ داری امّتِ مسلمہ پر ڈالی گئی ہے۔ نزولِ قرآن کے موقع کو اس لیے عید بنایا گیا ہے کہ ہر سال یہ بات مسلمانوں کے بچے بچے کو معلوم ہوجائے کہ قرآن ایک عظیم الشان نعمت ہے ۔دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کے لیے ان گنت نعمتوں کو پیدا فرمایا ہے لیکن ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت قرآن کی نعمت ہے جس کی بدولت مسلم قوم کو خیرِ امت اور امت ِ وسط کا اعزاز عطا کرکے اس کو حامل ِ قرآن بنایا گیا اور اس امّت پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی کہ قرآن کے مطابق ایک بے مثال امّت بن کر ساری دنیا کی رہنمائی کر ے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ امّتِ مسلمہ کے عوام و خواص نے اس منصب ہی کو سرے سے بھلادیا اور خود کو ایک قوم کے مقام پر فائز کر لیا اور اب محض قومی مفادات کی حفاظت اس کا مقصد بن چکا ہے ۔دین اسلام ہمارے لیے ایک مذہب بن چکا ہے جس میں عقائد ،مراسمِ عبودیت اور عائلی قوانین کےماسوا زیادہ کچھ باقی نہ رہابلکہ عائلی قوانین بھی یکساں سول کوڈ کی نذر ہوتے نظر آرہے ہیں ۔حقیقی ایمان کے بجائے ہمارے اندر روایتی ایمان پایا جاتا ہے جو مورثی طور پر ہم کو غیر شعوری طور پر مل جاتا ہے۔قرآن جیسی نعمت سے ہمارا تعلق ناظرہ پڑھنے یا حفظ کرنے تک محدود ہوگیا ہے جو ہمارے حلق سے نیچے نہیں اترتا اس لیے کہ حلق سے نیچے عربی حروف کا کوئی مخرج نہیں ہوتا۔ قرآن کی تعلیمات کا حلق سے دل تک پہنچنے کے راستے خود ہمارے مدارس میں مسدود کردیے گئے ہیں۔ انقلابی اسلام کے بجائے ہم روایتی اسلام کے حامل ہوچکے ہیں جس کی شناخت فقہ کے ذریعے سے ہوتی ہے کہ یہ حنفی اسلام ہے، یہ دیوبندی اسلام ہے، یہ بریلوی اسلام ہے اور یہ اہلِ حدیث کا اسلام ہے۔ قرآن کا اسلام ہمارے نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔
عید الفطر بھی ہمارے لیے مراسمِ عبودیت کا ایک حصہ بن چکی ہے۔عید کے خطبوں میں اکثر امّت کی نئی نسلوں کو یہ نہیں بتلایا جاتا کہ قرآن کیسی عظیم کتاب ہے ۔یہ عارضی نعمتوں سے نکال کر ابدی نعمتوں کی طرف رہنمائی کرنے والی کتاب ہے۔ یہ دنیاکی امامت و قیادت کے مقام تک امّت کی رہنمائی کرنے والی کتاب ہے۔اس کا حق یہ ہے کہ ناظرہ تلاوت کے ساتھ تراجم و تفاسیر کی مدد سے اس کو سمجھ کر پڑھا جائے ۔ اس پر عمل کیا جائے اور اس کی تعلیمات کو مسلمانوں میں بغرض اصلاح و تذکیر اور غیرمسلموں میں بغرضِ دعوت وابلاغ عام کیا جائے۔نظریاتی میدان میں باطل نظریات کا قرآن سے ابطال کیا جائے اور اس کے ذریعے سے انسانی مسائل کا حل پیش کیا جائے۔اسی بات کو قرآن جہاد
بالقرآن کہتا ہے جو سب سے بڑا جہاد ہے۔اس جہاد کےذریعےباطل پر حجت قائم کرنے کے بعد ہی ہجرت و جہاد کے دوسرے محاذ کھلتے ہیں جس کے نتیجے میں اسلام ایک ناقابلِ تسخیر قوت بن جاتا ہے۔ جب اسلام مظبوط ہوگا تو مسلمان بھی ہر لحاظ سے مضبوط ہوں گے۔ یہ ہے مسلمانوں کے بامِ عروج پر پہنچنے کا روڈمیاپ اور اس کے سنگ ہائے میل۔ یہی دراصل ہمارا مقصدِ وجود ہے۔اس مقصدِ وجود کو بھلادینے سے ہی ہمارے اندر ساری خرابیاں پیدا ہوئیں اور امّت کا اتحاد پارہ پارہ ہوا۔
ہمارے خطیب حضرات عید کے خطبہ میں امّت کو یہ بتلائیں کہ ہم نے مہینہ بھر روزے اس لیے رکھے ہیں کہ ان کے ذریعے بطورِ نعمتِ عظمیٰ نزول قرآن پر ہم اللہ کا شکر ادا کریں۔ اسلام محض چند مراسمِ عبودیت کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ دینِ کامل ہے جس میں ساری دنیا کے لیے رہنمائی ہے۔ روزوں کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ اگر ہم نے روزے رسمی طور پر رکھے ہوں تو ان روزوں کی تاثیر عید کے دن ہی ماند پڑجائے گی ۔ہماری مسجدیں پھر سے غیر آباد ہوجائیں گی۔ لیکن اگر ہم نے ان روزوں سے حقیقی تقویٰ حاصل کیا ہواہوتو ان کا اثر اگلے گیارہ مہینوں تک باقی رہے گا۔ہم جائزہ لیں کہ کیا ہمارا ایمان روایتی ایمان ہے یا حقیقی ایمان ہے؟۔ہماری عبادتیں رسمی ہیں یا حقیقی تقویٰ پیداکرنے والی ہیں ؟جب ہم نے اس رمضان کو آخری رمضان سمجھ کر کے اس کو صیام و قیام میں گزارا اور اعمال صالحہ سے اس کو مزیّن کیا اور استغفار کا اہتمام کیا تو ہماری نیکیاں بڑھ جاتی ہیں ۔ برائیاں نامہ اعمال سے مٹنے لگتی ہیں ۔ اس طرح ہمارے نفوس کا اتنا تزکیہ ہوتا ہے کہ ہم کو اللہ کے فضلِ عظیم سے جہنم سے نجات کا پروانہ مل جاتا ہے جس سے ہم جنت کے وارث بن جاتے ہیں ۔رمضان کے بعد کیا ہم یہ گوارا کریں گے کہ ہم جنت میں جانے کی یہ اہلیت کھو دیں؟ کیا ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اگلا رمضان ملے گا؟ عقلمندی یہی ہے کہ جنت میں جانے کی جو اہلیت ہم نے نیک اعمال ،قیام و صیام ، قرآن کی تلاوت و سماعت اوردعا واستغفار سے کمائی ہے اس کو سنبھال کررکھیں اور بعد رمضان اپنے نامہ اعمال کو پھر سے معصیت سے آلودہ کرنے کا آغاز نہ کریں۔
عید الفطر سے پہلے صدقۂ فطر کو واجب کردیا گیا ہے ہر مسلمان طرف سے ۔یہ دراصل اسلامی مزاج کا ایک عظیم مظہر ہے کہ امّت کے افراد خودغرضی سے پاک ہوں اور ان کے اندر امّت کے کمزور افراد جو رزق کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں یا جو حوادث کا شکار ہوئے ہیں ان کی معذوری و مجبوری کو شدت سے محسوس کریں۔یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے جہاں اللہ نے امتحان لینے کی خاطر لوگوں کے حالات و ظروف میں بہت فرق رکھا ہے۔ایک کا رزق دوسرے کے مال میں رکھا ہے اور ایک کو دوسرے کا حق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس دنیا میں آناً فاناً لوگ غریب سے امیر اور امیر سے غریب ہوجاتے ہیں ۔صحتمند بیمار ہوتے ہیں اور بیمار صحتمند ہوجاتے ہیں۔ یہاں کا نہ ہی غم مستقل ہےاور نہ ہی خوشی ۔امتحان اس بات کا ہے کہ فراخی میں شکر اداکریں اور تنگی میں صبر۔شکر کا طریقہ یہ ہے کہ محروم ، مجبور اور معذور افراد کے لیے اپنے اموال میں جو حق موجود ہے اس کو پہچانیں اور ان تک پہنچائیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جن کے مالوں میں،سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔سورۃ المعارج ۲۴، ۲۵۔
جب سے ہمارے اندر امّت ہونے کا احساس جاتا رہا ہمارے اندر قوم ہونے کا احساس پیدا ہوا اور ہم قومیت کے احساس میں جی رہے ہیں اور ہماری سوچ یہ ہوگئی ہے کہ ہم بھارت کے مسلمان ہیں تو ہم کو فلسطین کے مسلمانوں سے کیا واسطہ اورہم کو چین کے ایغور مسلمانوں سے کیا لینا دینا ہے۔جب کہ اسلام میں سارے عالم کے مسلمانوں کو ایک امّت قرار دیا گیا ہے جو ایک جسم کی مانند ہے اگر جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔
فلسطین کے مسلمان ایک عرصہ سے مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں ۔ جب مسجد اقصی ٰ پر نمازیوں پر حملہ ہوتا ہے تو غزہ کے محصور لیکن غیور مسلمان، صہیونی ریاست پر دباؤ ڈالنے کے لیے راکٹوں کا استعمال کرتے ہیں تو اسرائیل کی فوج جواب میں ان کی رہائشی عمارتوں کو، اسکولوں کو،مساجد کو اور دوسری اہم عمارتوں پر بمباری کرتی ہے ۔بالخصوص رمضان کے مبارک ماہ میں مسجدِاقصیٰ میں یہودی صہیونی داخل ہوکر اس کے تقدس کو پامال کرتے ہیں اور نمازیوں پر حملہ کرکے ان کو نماز سے روکتے ہیں ۔جس کے نتیجہ میں جنگ کے شعلے غزہ تک پہنچتے ہیں اور معصوم لوگوں کو ہر رمضان خاک و خون میں نہلایا جاتا ہے۔
اس عید میں ہم ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
جتنا ہمارے اندر امّت ہونے کا احساس زندہ رہے گا ہم اسی قدر مظلوم مسلمانوں کا درد ہمارے دل میں محسوس کریں گے ۔
دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں تہوار کی حیثیت روایتی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک پیغام ہے۔
عید کا پیغام یہ ہے کہ قرآن کے نعمتِ عظمیٰ ہونے کا احساس ہمارے اندر پیدا ہو۔ قرآن سے ہمارا تعلق محض ثواب حاصل کرنے کی حد تک نہ ہو بلکہ اس پر تدبّر کرتے ہوئے اس کو کتابِ ہدایت بنانے کے لیے ہو ۔پھر اس کو کتابِ دعوت بناکر ساری کے سامنے اس کی تعلیمات کو پیش کریں۔
عید کا پیغام یہ ہے کہ ہم قوم نہیں بلکہ امّت بنیں۔ ہم ایک بامقصد امّت ہیں اور مقصدیہ ہے کہ شہادت علی الناس کی اہم ذمہ داری کو ادا کریں۔ توحید ،رسالت و آخرت کے حقائق کو دلائل کے ساتھ عوام الناس کے سامنے پیش کریں۔اگر ہم یہ کام کرنے کےلیے نہ اٹھیں گے تو دنیا کے مسائل کا حل تو کیا پیش کریں گے الٹا ہمارا وجود ہی ساری دنیا کے لیے ایک مسئلہ بن جائے گا۔ ہم روایتی ایمان کے حامل نہ ہوں بلکہ ہمارے اندر اس قرآن کے ذریعے حقیقی ایمان پیدا ہو۔ ہماری عبادتوں میں عبدیت کی حقیقی روح پیدا ہو۔
عید کا پیغام یہ ہے کہ ہم نے اس مبارک ماہ میں جو تقویٰ حاصل کیا ہے اس کے اثرات کو باقی رکھیں اور جنت میں جانے کی جس اہلیت کو اللہ کی بخشش سے حاصل کیا ہے اس کو پھر غفلت کے دلدل میں پھنس کر گنوا نہ دیں۔
عید کا پیغام یہ بھی ہے کہ ہم سارے عالم میں امت مسلمہ کے درد کو محسوس کریں ۔کچھ کرسکتے ہوں تو حسبِ استطاعت ان کے لیے کچھ کریں اور کم از کم یہ تو کریں کہ ان کے لیے سوزِ دل سے دعا کریں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 ہمارے خطیب حضرات عید کے خطبہ میں امّت کو یہ بتلائیں کہ ہم نے مہینہ بھر روزے اس لیے رکھے ہیں کہ ان کے ذریعے بطورِ نعمتِ عظمیٰ نزول قرآن پر ہم اللہ کا شکر ادا کریں۔ اسلام محض چند مراسمِ عبودیت کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ دینِ کامل ہے جس میں ساری دنیا کے لیے رہنمائی ہے۔ روزوں کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ اگر ہم نے روزے رسمی طور پر رکھے ہوں تو ان روزوں کی تاثیر عید کے دن ہی ماند پڑجائے گی ۔ہماری مسجدیں پھر سے غیر آباد ہوجائیں گی۔ لیکن اگر ہم نے ان روزوں سے حقیقی تقویٰ حاصل کیا ہواہوتو ان کا اثر اگلے گیارہ مہینوں تک باقی رہے گا۔ہم جائزہ لیں کہ کیا ہمارا ایمان روایتی ایمان ہے یا حقیقی ایمان ہے؟۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اپریل تا 29 اپریل 2023