ہم جنس پرستوں کی شادیاں‘ ایک بار پھر سرخیوں میں

سپریم کورٹ کی منظوری کا انتظار۔ بدترین بگاڑ اور عوامی صحت کی بربادی کا راستہ

ڈاکٹر جاوید جمیل

قدرتی قوانین کے بجائے بگڑے ہوئے انسانوں کے اصولوں کی بنیاد پر مہذب معاشرہ تعمیر نہیں کیا جاسکتا
میں اپنے اس مضمو ن کا آغاز‘ 20 سال پہلے لکھی گئی میری اپنی کتاب The Killer Sex کے ایک اقتباس سے شروع کرتا ہوں۔
شیطان ابلیس کو ہنسی کے پاگل پن کا شدید دورہ پڑا کیوں کہ اس کے پاس اس کے چیلوں نے دنیا میں ایک بہترین عملی کارنامہ کر دکھایا ہے۔ وہ ابھی تک اپنے اس کارنامے کی حدود کو توسیع دینے میں، بڑھانے میں مصروف ہیں یعنی جنسیت کے ذریعے شیطان کی چالیں کامیاب ہورہی ہیں۔ ان کی ہر چال جنسیت کے خوشنما باغوں میں ہر لمحہ ایک نئی تازہ ترین لیکن نام نہاد تفریح کا انتظام کررہی ہے ۔ جب بھی ان کے نام نہاد باغ سے کوئی قافلہ گزرتا ہے، وہاں کے باشندے خوشی ومسرت سے جھوم اٹھتے ہیں اور پھر حسب معمول انسانوں کو اس خطرناک دھوکے کی خوشی میں مبتلا کرکے شیطان اپنی کامیابی پر رقص کرنے لگتا ہے۔ وقتی طور پر اللہ کو ناراض کرنے میں ابلیس کامیاب لگتا ہے۔ گویا وہ خود اللہ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے اے اللہ! دیکھ لے کہ میں نے اشرف المخلوقات کہلائے جانے والے تیرے انسانوں کو کیا سے کیا بنا ڈالا۔ آج ان انسانوں کو تیری پیش کردہ دائمی امن اور صحت و عافیت کی راہوں پر چلنے میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی کیوں کہ انہوں نے میرے نام نہاد عیش کدے میں شمولیت اختیار کرلی ہے، جہاں میں نے انہیں اتنا مصروف رکھا ہے کہ اب وہ تیری بہترین عنایتوں کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ دولت کی لامتناہی ہوس اورغیر تشفی بخش جنسی آرزووں نے آج کے انسانوں کو اب ابلیس کے آگے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہاں! بعض گوشے شیطان کے لیے آج بھی چیلنج بنے ہوئے ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ بھی میری چالوں میں پھنس ہی جائیں گے کیوں کہ منشیات انہیں مسلسل چیلنج کر رہی ہیں۔ دنیا میں غیر معمولی ٹیڑھی اور پوری طرح بگڑی ہوئی جنسیت، انسانوں کے ذہنوں پر چھائی ہوئی ہے۔ جنسیت‘ جو آزاد انسانوں کو غلام بناتی ہے، مرد و خواتین کو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دیتی ہے، بچوں اور خاندانوں کو تباہ و تاراج کردیتی ہے، اخلاقی اور سماجی تانے بانے کو بری طرح بگاڑ دیتی ہے۔ جنسی آزادی کسی بھی انسانی جسم کو خطرناک بیماریوں سے نہیں بچا سکتی بلکہ سیدھے موت کے منہ میں لے جاتی ہے۔ جنسیت انسان کی وہ اخلاقی کمزوری ہے جس سے ایک اچھا خاصا آزاد انسان اس کا غلام بن جاتا ہے۔ جنسیت کے سوداگروں نے اپنے پر اور بازو، اتنی دور دور تک پھیلا رکھے ہیں کہ اس جال میں پھنسنے والے کسی انسان کے لیے، اس سے بچ نکلنابہت مشکل ہے۔
میں نے یہ تحریر بہت پہلے لکھی تھی جس کے الفاظ آج بھی میرے ذہن میں بڑی شدت کے ساتھ گونجتے ہیں۔ ہم جنس پرستی کا جنون ایک مرتبہ پھر سرخیوں میں آگیا۔ سپریم کورٹ اسی موضوع پر پیش کی گئی ایک درخواست پر فیصلہ سنانے والی ہے جس میں اس سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ہم جنس پرستی کو قانوناً جائز قرار دے۔ اگرچہ سپریم کورٹ اس سے پہلے اسے قانونی قرار دے چکی ہے۔ فیصلہ سنانے سے پہلے ہم کوئی پیشن گوئی تو نہیں کر سکتے لیکن ہم جنس پرستی پر بین الاقوامی رجحانات اور اس کی بھرپور تائید کے تناظر میں، اس کے قانوناً جائز قرار دیے جانے کے امکانات کا اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ سنا سکتی ہے۔ سیاسی طاقتوں اور ماہرین قانون کے درمیان مکمل تال میل اور تعاون کے علاوہ معیشت پر قابض خود غرض قوتوں کے درمیان تعاون کے پس منظر میں ہمیں خطرہ ہے کہ بھارت میں نام نہاد جنسی انقلاب برپا ہو کر ہی رہے گا اور شاید ہی کوئی تنظیم اس قانون کی مخالفت کرنے کی جرات کر پائے۔ اسی کتاب کے ایک اور پیرائے کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ ’’جنسی انقلاب نے ہمیں سکھایا ہے کہ جنسی تعلقات، زندگی کے لیے نہیں ہیں بلکہ زندگی ہی جنسی تعلقات کے لیے ہے اور اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنا ہمارا فرض اور ذمہ داری ہے۔اگر عدالت اس پر اعتراض کرتی ہے تو اسے انسانیت کے ساتھ برتاو کے آداب بتائے جانے چاہئیں۔ اگر وہ کوئی مذہبی قائدین ہیں تو انہیں ان کی ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا جانا چاہیے۔ اگر کوئی ماہر اخلاقیات اس پر اعتراض کرتا ہے تو اس کا ہمیں ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ آزاد جنس پرست اور ہم جنس پرست ٹولہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ضروری نہیں کہ انسان کے جنسی تعلقات صرف انسانوں ہی کے درمیان قائم ہونے چاہئیں بلکہ انسان اور جانوروں کے درمیان بھی جنسی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنس پرستی کے لیے دو الگ الگ جنسوں کی بھی ضرورت نہیں، یہ مرد اور مرد اور عورت اور عورت کے درمیان بھی جائز قرار دیے جانے چاہئیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری نہیں کہ جنسی تعلقات صرف دو بالغوں کے درمیان ہی رہیں بلکہ یہ تعلق ایک بالغ اور نابالغ کے درمیان بھی ہونے چاہئیں۔ حیوانات کی طرح جنسی تعلقات میں خون کے رشتوں کی بھی کوئی پابندی حائل نہیں ہونی چاہیے مثلاً ماں اور بیٹے کے درمیان، باپ اور بیٹی کے درمیان، بھائی اور بہن کے درمیان، جنسی تعلقات کو قانوناً آزادی ملنی چاہیے۔ اس کے علاوہ جنسی تعلقات صرف دو افراد تک محدود نہ ہوں بلکہ ایک ہی وقت میں بہت سے لوگ بہ یک وقت جنسی عمل میں شامل ہوسکتے ہیں۔ جنسی تعلقات کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ صرف تناسلی اعضاء ہی کا استعمال کیا جائے، جو قدرت نے ہمیں دیے ہیں بلکہ کوئی بھی عضو عورت یا مرد کے جسم میں داخل کیا جا سکتا ہے۔ جنسی تعلقات کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ عوام کی نظروں سے اوجھل ہو کر کیا جائے۔ بلکہ اس عمل کو عوام کی گھورتی نگاہوں، پرجوش دلوں اور کھلے دماغوں کے سامنے بھی انجام دیا جانا چاہیے۔ جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے کسی رسمی اعلان کی بھی ضرورت نہیں، نہ اسے کسی سماجی، مذہبی اور قانونی منظوری کی حاجت ہوگی۔ ان سب سے بڑھ کر یہ بھی ہے کہ جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے کی رضامندی کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ یعنی قانون کو دھوکہ دینے میں ماہر، مجرم کہیں بھی، کسی بھی وقت، کسی کی بھی عصمت ریزی کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جنسی تعلقات کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی کی جائز جسمانی اور نفسیاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے کی جا رہی ہو، یہ دولت کمانے یااپنی تجوری بھرنے کے لیے بھی ہو سکتی ہے۔ جنس پرستی میں محبت کا کوئی دخل نہیں یعنی یہ ضروری نہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے آپس میں محبت بھی کرتے ہوں۔ جنسی تعلقات کو بازار میں خریدا اور بیچا بھی جاسکتا ہے۔ اگر کوئی طاقت اس کام میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرے گی تو اسے نہایت بے رحمی کے ساتھ راستے سے ہٹا دیا جائے گا چاہے سماج میں اس کا کتنا ہی اونچا مقام کیوں نہ ہو۔ مختصراً یہ کہ جنسی انقلاب ہمیں اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ اس کی کوئی حدود نہیں جس میں اسے قید کیا جاسکے۔ ایک پرانی کہاوت کے مطابق محبت، جنس اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔
یہ سچ ہے کہ حقیقت کسی صورت میں چھپائی نہیں جا سکتی چنانچہ حقائق اس طرح ہیں:
۰۰دنیا میں3 ملین اموات جنسی بیماریوں کی وجہ سے ہوچکی ہیں (40 ملین افراد گزستہ 35 برسوں میں مرض ایڈس ،ایچ آئی وی کینسر، ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا ہو کر مرے) 50 ملین سے زیادہ ایس ٹی ڈی جیسے مہلک مرض میں مبتلا مریض دواخانوں میں زیر علاج رہے 70 ملین خواتین غیر قانونی اسقاط حمل کے ذریعے ہلاک ہوچکی ہیں (یہ وہ خواتین ہیں جو شادی کے بغیر عارضی معاہدے کے تحت مختلف مردوں کے ساتھ رہا کرتی تھیں)
لاکھوں کی تعداد میں خواتین کی عصمت ریزی کی گئی بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا، خواتین نے خود کشی کی، خواتین کا قتل کیا گیا، خواتین آج طوائفوں اور فحش اداکاراوں، کلب ڈانسرس‘ عریاں رقص کرنے اور مساج کرنے والوں کے طور پر کام کررہی ہیں، خواتین اورشادی شدہ مردوں کے درمیان غیر قانونی جنسی تعلقات کے نتیجے میں مہلک اور انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
صحت، خاندانی سکون، علاقائی امن و امان کی برقراری کی اساس پر اگر ہم تمام ممنوعہ، ناپسندیدہ اور مطلوبہ کاموں کی فہرست بنا کر اس کا جائزہ لیں تو نہایت کریہہ تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔
عوام کی ضروریات زندگی کی نہ ختم ہونے والی فہرست اور مطالبات کو پورا کرنے کے لیے تاجر پیشہ طبقہ‘ گاہکوں کو روز روز نئے پراڈکٹس پیش کرنے میں مسابقت کرتا ہے۔ ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کرتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے تمام ضروری چالاکیاں بھی ساتھ ساتھ جاری رہتی ہیں۔ اس مسابقت میں آج کے دور میں عوام میں پیدا شدہ نئی خواہش یعنی جنسی بے راہ روی کی عادت کو ان تاجروں نے مضبوطی سے پکڑ لیا ہے، چنانچہ ہم جنس پرستی، آج کی عالمی منڈی کا نیا پراڈکٹ ہے، جو ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ ہم جنس پرستی اور ہم جنس پرستوں کا امتزاج ان کے کاروبار میں چار چاند لگانے کے لیے انہیں ایک نیا فارمولا ہاتھ لگا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ نیا مرض پھیلے گا اور عالمی آبادی کی اکثریت خود بخود اس جال میں خود بخود پھنستی جائے گی۔ اس کاروبار کو منظم اور وسیع پیمانے پر آگے بڑھانے کے لیے عالمی صنعت کاروں کے ساتھ خود غرض لیڈروں نے منصوبہ بندی کا آغاز کردیا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں ہم جنس پرستوں کی تنظیمیں قائم ہو رہی ہیں اور جگہ جگہ ان کی تائید میں تحریکیں بھی منظم کی جا رہی ہیں۔ چنانچہ بادل ناخواستہ ہی سہی، ان تنظیموں کے دباو میں، ایک کے بعد دیگرے حکومتیں، ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دینے کے لیے اپنے آپ کو مجبور محسوس کر رہی ہیں۔ ہم جنس پرستوں کے کلب، دنیا کے مختلف ممالک میں زور و شور اور کامیابی کے ساتھ قائم ہو رہے ہیں۔ لٹریچر جگہ جگہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ایشیائی ممالک میں بھی ہم جنس پرستی کے اثرات نمایاں طور پر مرتب ہو رہے ہیں۔ مخلوط آپسی تعلقات اور دوستی کی وجہ سے، ان کی یہ مہمات عروج پر ہیں۔ حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ خواتین بھی اس خبیث کام میں برابر کی شریک ہیں۔ شیطان کی جد وجہد کے زیر اثر، ہم جنس پرستی کی تنظیموں کا مسلسل تقاضا رہا ہے کہ تمام جنسی بدکاریوں، جنسی بے راہ روی کو معمولی اور انسانی فطری تقاضے کے عین مطابق قراد دیا جائے۔ ان پر بدکاری ،جرم یا گناہ کی مہر لگانے والوں کے ساتھ حکومت سخت کارروائی کرے۔ ہم جنس پرستوں کی مرکزی تنظیم کے سربراہ اور ان کے مدد گاروں نے اس مہم کو شدت کے ساتھ آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے دو افراد، خصوصاً مرد و خاتون کے درمیان جنسی تعلقات تو عین فطری بات ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسانی آبادی کا ایک بڑا حصہ اسی نظریے پر یقین بھی رکھتا ہے اور عام رجحان بھی یہی کہتا ہے۔ تجارتی فوائد کے پیش نظر یہ اس حقیقت کو یکسر بھول جاتے ہیں کہ قدرت اور انسانی فطرت، ہرگز یکساں نہیں ہوا کرتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں کے لیے بنائے گئے قدرتی اصول، بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے لیے ہمیشہ فائدہ مند ہی ہوتے ہیں۔ ان اصولوں پر عمل کرنے سے انسان موت، بیماری اور تباہی سے بچنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ قدرت کے قوانین کے نفاذ کا مقصد انسان کی انفرادی بھلائی کے بجائے تمام بنی نوع انسان کی فلاح ہوتا ہے۔ بعض اوقات جب قدرتی تباہی کے سانحات در پیش آتے ہیںتو فطرت، سلجھے ہوئے عالمی معاشرے کو دوبارہ قائم کرتی ہے جو انسانی غلطیوں کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ لہذا دنیا میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹ سانحات کا مقصد دراصل انسان کی عقل کو ٹھکانے لگانا ہوتا ہے کہ اگر اب بھی نہیں سنبھلے تو اس سے بڑے حادثے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف عام انسانی رجحانات جو عموماً نفس کی تسکین کا نتیجہ ہوتے ہیں، وہ قدرتی نظام کے توازن کو بری طرح بگاڑ دیتے ہیں۔ یہ بگاڑ بھی سو فی صد انسانی کمزوریوں کا نتیجہ ہی ہوتا ہے، جو قدرتی نظام ہرگز نہیں ہے جس کی وجہ سے کرہ ارض پر مختلف قسم کے جرائم، سینکڑوں قسم کی مہلک اور متعدی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
بالفرض محال اگر ہم جنس پرستی کو فطری عمل تسلیم بھی کرلیں تو قتل و غارت گری، خواتین کی برسر عام عصمت ریزی، چوریاں، ڈکیتیاں، دھوکہ دہی اور دوسرے شہریوں کے حقوق کی پامالی پر روک لگانے کے رجحانات، اصول و ضوابط اور قوانین کو بھی فطری سمجھا جانا چاہیے۔ اگر ہم جنس پرستی کی مخالفت کرنے والوں کو غلط سمجھتے ہیں، ان کی مذمت کرتے ہیں، ان کی اصلاح چاہتے ہیں اور انہیں قابل سزا قرار دیتے ہیں تو ہم جنس پرستی کی تائید اور ان کی حمایت اور وکالت کرنے والوں کو بھی اسی اصول کی بنیاد پر سزا ملنی چاہیے۔
ہم جنس پرستی کے ذریعے، مرد اور مرد کے درمیان اور عورت اور عورت کے درمیان جنسی تعلقات کے خلاف شدید مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل ہم جنس پرستی، جنسی تعلقات کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ خبیث، غیر صحت بخش، غیر فطری، غیر سائنٹفک اور غیر سماجی عمل ہے۔ اس سے ایچ آئی وی اور دیگر کئی خطرناک امراض خبیشہ پیدا ہوتے ہیں، بعد میں ہم جنسوں کے درمیان ناقابل علاج بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور اس غیر فطری عمل میں ملوث ہر شخص کے جسم میں ناقابل علاج امراض پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایک سب سے عام بیماری جس میں یہ خبیث مبتلا ہوتے ہیں وہ یہ کہ ان کے عضوئے تناسل میں بے شمار سوراخ پڑ جاتے ہیں اور جس کے بعد وہ جائز مباشرت کرنے کے لائق نہیں رہتے، وہ مستقل طور پر ہمیشہ کے لیے نامرد ہو جاتے ہیں۔ ہر بار پیشاب کرنے کے دوران ناقابل برداشت کرب سے گزرنا پڑتا ہے، جو ان کے لیے بذات خود ایک قدرتی سزا ہے۔ آج دنیا میں ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دینے کے مطالبے میں مسلسل اضافہ دراصل بازار میں ان کی بڑھتی ہوئی شہرت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ حالانکہ یہ بازار پہلے سے کہیں زیادہ پھیل چکا ہے اور جنسی بے راہ روی کے بازار میں آج سب سے زیادہ مانگ ہم جنس پرستی کی ہے۔
ہم جنس پرستی کی حمایت میں دیے گئے چند بیانات اور اس کے معقول جواب:
ہم جنس پرستی زمانہ قدیم سے موجود ہے:
یہ ایک غلط دلیل ہے کیوں کہ تمام گناہ اور جرائم زمانہ قدیم ہی سے انسانی معاشرے میں موجود ہیں۔ اس کے برعکس اگر آج ہم اپنے آپ کو مہذب، تعلیم یافتہ اور ترقی پسند ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یہی صحیح وقت ہے کہ اس خبیث حرکت کی تعریف اور اس کی تائید کرنے کے بجائے اسے ختم کرنے یا کم کرنے کی کوشش کی جائے۔
اگر ہم جنس پرستی بالغ افراد کی رضا مندی سے ہو رہی ہو تو اس پر اعتراض کرنا ایک غیر اخلاقی حرکت ہے:
افراد کے درمیان کسی کام کے لیے رضامندی یا معاہدہ، کسی ناجائز عمل، گناہ یا جرم کو درست یا قانونی نہیں بنا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو رشوت کا لین دین یاکسی کا قتل کر دینا، کیا جرم نہیں ہے؟
ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دینا دراصل زندگی گزارنے کے حق کو قبول کرنے کے مترادف ہی تو ہے:
حقیقت اس نظریے کے برعکس ہے۔ اگر قانونی شکل دے دی جائے تو اس سے پوری انسانی نسل کی بقاء کو خطرہ لاحق ہوجائے گا اور دوسرے عام صحت مند انسانوں کی زندگی کے لیے بھی خطرہ رہے گا جو دوسروں کے ساتھ جنسی رابطے میں آئیں گے اور اس سے متاثرہ انسانوں کی عمر میں 25 تا 30 سال کی کمی ایک حقیقت ہے۔
ہم جنس پرستی دراصل انتخاب کی آزادی کے اصولوں کی مظہر ہے:
انتخاب کی آزادی صرف اسی صورت میں قابل فہم ہے جب یہ کسی بہترین انتخاب کے آزادی کی بنیاد پر ہو۔ چنانچہ لوگوں کو خطرناک انتخاب، بیماریاں پھیلا کر اپنی اور دوسروں کی موت کی آزادی نہیں دی جا سکتی۔
بنیادی اخلاقی اصولوں پر مبنی طرز زندگی، صحت مند انسانی زندگی کے لیے سوغات ہے۔ بگڑے ہوئے نام نہاد اصولوں کی بنیاد پر کوئی مہذب معاشرہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا بگاڑ جو سماج میں بسنے والے افراد کی زندگیوں اور بااعتماد خاندانی نظام کی بقاء کو خطرے میں ڈال دے، کسی صورت میں قبول نہیں ہے۔ آج کے نام نہاد ترقی پسند عناصر، ظلم وبربریت کی زندہ لیکن بدترین مثال ہیں۔ یہ وہ ٹولہ ہے جو سب سے زیادہ مکروہ قسم کی جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہے اور انسانی زندگی کا خطرناک جان لیوا عمل یعنی ہم جنس پرستی کو فروغ دینے اور اسے خالص تجارت سطح پر اونچا اٹھانے کی جستجو کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دینے کی تمام تر کوششیں، نام نہاد ترقی کی حکمت عملی کے سوا کچھ نہیں ہیں، اس کے لیے انسانی احساسات کو سب سے پہلے قانونی اور پھر سماجی منظوری دی جاتی ہے اور پھر میڈیا میں اسے آزادی پسند اور انسانی حقوق کی فتح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان تمام بنیادی رکاوٹوں کو دور کرنے کے بعد اسے اعلی تجارتی درجہ دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحت اور پر امن سماجی زندگی کے لیے نہایت خطرناک اوامر جیسے شراب، منشیات، جوا، عصمت فروشی، بدکاری، ہم جنس پرستی اور سگریٹ نوشی، ہر سال دنیا میں 120 ملین سے زیادہ افراد کی جان لے لیتی ہے۔
ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود عالمی تجارتی منڈی میں یہی سب کچھ فروخت کیا جا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خود غرض سیاست دانوں، دولت کے لالچی تاجروں کے نزدیک ان حوادث کی کوئی اہمیت نہیں، انہیں بنی نوع انسان کی صحت اور بہبودی کی کوئی پروا نہیں۔ اس کے باوجود ہم جنس پرستی کا فلسفہ یہ ثابت کر سکا ہے نہ کر پائے گا کہ اس خبیث کام پر عمل کرنے سے انسانیت کی کونسی خدمت انجام دی جا رہی ہے؟ ان کی تمام تر کوششیں حیران کن ہیں؟ بالفاظ دیگر ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دینا دراصل قتل، دہشت گردی اور عصمت ریزی کو جائز قرار دینے کی کوشش ہے حالاں کہ سماج کے لیے ہم جنس پرستی ان تمام بڑے بڑے گھناونے جرائم میں سے ایک خطرناک جرم ہے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ایک طرف مرد و زن کے درمیان ہونے والی فطری شادیوں کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے اور ہم جنس پرستوں کے درمیان شادیوں کی نہ صر ف پذیرائی ہو رہی ہے بلکہ اسے فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان تمام غیر انسانی کارروائیوں کا مقصد اس خبیث ٹولے کی تعداد کو بڑھانا ہے۔ ان خبیثوں سے بچوں کی پیدائش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے یہ دوسرے لوگوں کی ناجائز اولاد گود لیتے ہیں، انہیں پالتے ہیں۔ چنانچہ ان ہم جنس پرست نام نہاد والدین کی صحبت میں پلنے بڑھنے والے معصوم بچوں کی زندگی پر ان والدین کی خبیث عادات و اطوار کا اثر پڑنا فطری بات ہے اور عموما ان بچوں کو اپنے ہی گھر سے ہم جنس پرستی کی تربیت مل جاتی ہے۔ حقیقی والدین سے محروم ان معصوم بچوں لیے یہ نام نہاد والدین، فطری والدین کا نعم البدل ہرگز نہیں ہوسکتے، نہ انہیں ان گود لیے بچوں سے کوئی فطری لگاو ہوتا ہے بلکہ ان بچوں کا جنسی استحصال ان کے یہی منہ بولے مانباپ کرتے ہیں۔
یہ کہنا کہ ہم جنس پرستی ایک فطری عمل ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ دنیا میں ہونے والے تمام جرائم بھی فطری ہیں جن پر گرفت نہیں ہونی چاہیے۔ کیا بدنام زمانہ عادی مجرمین کی مدد کے لیے جرائم کو قانوناً جائز قرار دے کر انہیں جرائم کرتے رہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ کیا ان مجرموں کو لوگوں کے ساتھ مساویانہ اور امتیازی سلوک نہ کرنے کی وجہ سے انہیں قانونی تحفظ دیا جاسکتا ہے؟ ہم جنس پرستی ایک ایسا رشتہ ہے جن کے ہاں اولاد پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قدرتی قوانین میں بے ضابطگی پیدا کرنے والوں میں پلنے والی بیماریوں کو سماج میں قبول کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے موثر علاج اور قانونی مشاورت کی ضرورت ہے۔ صحیح جنسی تعلقات اور ہم جنس پرستی کے درمیان وہی تعلق ہے جو تغذیہ بخش غذاوں اور شراب و منشیات کے درمیان پایا جاتا ہے۔ شراب اور منشیات ہرگز غذا نہیں ہو سکتے لیکن اگر ان کا باضابطہ استعمال شروع کردیا جائے تو بہت جلد انسان ان کا عادی بن جاتا ہے۔ ہم جنس پرستی بھی ایک لت ہے جس کا علاج قانونی پابندیوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے شراب اور منشیات پر مکمل پابندی عائد کی جائے، مجرموں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے اور ضرورت پڑنے پر انہیں جیلوں میں بند کر دیا جائے۔ ان کا طبی علاج بھی ضروری ہوگا۔ ان کے سامنے مرض ایڈز سے مرنے والے 45 ملین افراد کی تفصیلات پیش کی جاسکتی ہے۔ ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دینے سے یقینا ایڈز اور دیگر جنسی بیماریاں جنہیں امراض خبیثہ بھی کہا جاتا ہے، تیزی سے پھیلیں گی اور اس بیماری سے متاثر ہونے والے انسان تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے اور آخر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں گے اور اپنے پیچھے دنیا میں اس بیماری کے مہلک اثرات بھی چھوڑ جائیں گے۔ آج ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو جنسی طور پر الگ تھلگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرے صحت مند افراد میں یہ مرض پھیلنے نہ پائے۔
یاد رکھیے کہ انسانوں کے ہم جنس پرستی کے حقوق اور ہم جنس پرستوں کے انسانی حقوق میں بہت فرق ہے۔ انسانوں کے ہم جنس پرستی کے حقوق کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں جب کہ ہم جنس پرستوں کے انسانی حقوق کے حصول کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ ہم جنس پرستوں کو سماجی توجہ اور طبی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں معاشرے کے ذی اثر غیر سماجی عناصر کی جانب سے دی جانے والی غیر مجاز سزاوں سے بچانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرے میں عام لوگوں کے ساتھ گھل مل کرحسب معمول زندگی گزار سکیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک مرتبہ ہم جنس پرستی پر قانونی پابندی عائد ہو جائے گی تو اس کی تجارتی حیثیت بھی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ نئے ہم جنس پرست پیدا نہیں ہوں گے اور نئے ہم جنس پرستی میں مبتلا افراد کو اس مہلک بیماری کو ترک کرنا آسان ہو جائے گا۔ چنانچہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم جنس پرستی ان لوگوں کے لیے غیر قانونی ہی رہنی چاہیے، لیکن جو اس بری عادت کے چنگل سے چھٹکارا پانا ہی نہیں چاہتے ان کی کونسلنگ کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ کسی بھی قسم کی بیماری سے چھٹکارے کے لیے علاج کا حق، بشمول قاتل ہر انسان کو حاصل ہے۔
ہم پر امید ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ بھارت سرکار ہم جنسوں کے درمیان شادیوں کے خلاف مجبوراً ہی سہی لیکن اپنا مقدمہ پیش کرے گی۔ دوسری طرف ہم عدالت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس مقدمے کا فیصلہ خالصتاً انسانی زندگی، خاندانی سکون اور سماجی نظم و نسق پر پڑنے والے خطرناک اثرات اور نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرے گی نہ کہ عام شاطرانہ اور بے بنیاد دلائل کی بنیاد پر اور دولت کے پجاری لالچی تاجروں کی عیاری سے متاثر ہو کر؟ بلکہ وہ عوام کی صحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور سماج میں مستقل امن کے قیام کو ترجیح دیتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔
( ترجمہ: سلیم الہندیؔ ۔حیدرآباد)
(ڈاکٹر جاویدؔ جمیل، معروف ادیب، مصنف اور صدر اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ، یینیپویا یونیورسٹی منگلورو ہیں جنہوں نے بیس سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں ان کی تازہ کتاب
A systematic study of the Holy Quran شامل ہے)
***

 

***

 جنسی انقلاب نے ہمیں سکھایا ہے کہ جنسی تعلقات، زندگی کے لیے نہیں ہیں بلکہ زندگی ہی جنسی تعلقات کے لیے ہے اور اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنا ہمارا فرض اور ذمہ داری ہے۔اگر عدالت اس پر اعتراض کرتی ہے تو اسے انسانیت کے ساتھ برتاو کے آداب بتائے جانے چاہئیں۔ اگر وہ کوئی مذہبی قائدین ہیں تو انہیں ان کی ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا جانا چاہیے۔ اگر کوئی ماہر اخلاقیات اس پر اعتراض کرتا ہے تو اس کا ہمیں ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 اپریل تا 08 اپریل 2023