
ہندوتوا کا عروج اور این سی ای آر ٹی کی آٹھویں جماعت کی تاریخ
نصاب میں جانبدارانہ تبدیلیوں اور برہمنیت کے مضر اثرات کا تجزیہ
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
نصاب میں سچائی، تنوع اور انصاف کی بحالی: بھارت کے مستقبل کا مسئلہ
گزشتہ چند ہفتوں سے راجستھان میں این سی ای آر ٹی کی آٹھویں جماعت کی تاریخ کی کتاب میں کی گئی تبدیلیوں کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ یہ احتجاج صرف طلبہ یا سماجی کارکنوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سابق شاہی خاندانوں کے افراد بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان سب کا مشترکہ خدشہ یہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ کو اسکولی نصاب میں اس طرح دوبارہ لکھا جا رہا ہے کہ اس سے ہندوتوا نظریہ کو فروغ دیا جا سکے۔ یہ احتجاج بظاہر راجستھان تک محدود ہے لیکن اس کے اثرات صرف اسی ریاست پر نہیں بلکہ پورے ملک کے تعلیمی منظر نامے پر پڑنے والے ہیں۔ گجرات، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، بہار، ہریانہ، ہماچل پردیش، اتر اکھنڈ اور جموں و کشمیر تک کے لاکھوں طلبہ یہی کتابیں پڑھیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کن تاریخوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے، کن کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان فیصلوں کے پیچھے آخر کون سے سیاسی مقاصد کار فرما ہیں؟
تاریخ کی نئی تقسیم
نصاب میں دو نمایاں عدم توازن پائے جاتے ہیں:
دہلی سلطنت اور مغلیہ عہد۔ ہندوستانی تاریخ کے وہ ادوار جو صدیوں پر محیط ہیں، محض چند سطروں میں سمیٹ دیے گئے ہیں۔ یوں سیاسی، تہذیبی، ثقافتی اور فن تعمیر کے بڑے بڑے کارنامے غائب کر دیے گئے۔
راجپوت سلطنتیں۔ تومر، چوہان، سولنکی، پرتیہار، چنڈیل، پرمار، گہر وار اور کلچری حکم رانوں کی تاریخ محض دو صفحات تک محدود کردی گئی ہے۔
مراہٹہ سلطنت : ماقبل کے برعکس مراہٹہ سلطنت کو بائیس صفحات دیے گئے ہیں، جن میں مرہٹوں کے عسکری کارناموں اور پیشواؤں کی قیادت کو نمایاں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
حقائق سے انحراف
یہ تبدیلیاں نہ صرف انتخابی یعنی سلکٹیو ہیں بلکہ کئی جگہوں پر حقائق کے خلاف بھی ہیں۔ مثال کے طور پر نقشے میں مرہٹہ سلطنت کو ان علاقوں تک پھیلا کر دکھایا گیا ہے جہاں ان کا کوئی اثر نہیں تھا۔ یہ چھپایا گیا ہے کہ مرہٹے طویل عرصے تک دکن کی سلطنتوں اور مغل دربار کے تحت خدمات انجام دیتے رہے۔
مورخ ڈاکٹر مطہر علی کے مطابق، 1679 تک اورنگ زیب کے دربار میں 96 مرہٹہ منصب دار موجود تھے، جبکہ راجپوتوں کی تعداد 72 تھی۔شیواجی کے والد شاہ جی بھوسلے بیجاپور کی خدمت میں تھے۔یہ بھی چھپایا گیا کہ مرہٹہ ریاست دراصل ایک کنفیڈریشن تھی، جہاں سندھیا، ہولکر، گائیکواڑ اور بھوسلے اپنی اپنی آزادی رکھتے اور اکثر آپس میں برسر پیکار رہتے۔ یہاں تک کہ پیشوا مغلوں کے دیے گئے القاب اور اختیارات بھی قبول کرتے تھے۔
پروپیگنڈا فلموں سے نصابی کتب تک
این سی ای آر ٹی کی کتابوں کا یہ رجحان دراصل حالیہ بالی ووڈ فلموں سے ملتا جلتا ہے۔باجی راؤ مستانی (2015) اور پانی پت (2019) میں مرہٹوں کو ’’قوم کے ہیرو‘‘ بنا کر پیش کیا گیا۔تاناجی (2020) اور چھاوا (2025) سے اس رجحان کو اور تقویت ملی۔
ان فلموں میں مسلمانوں کو ’’غاصب‘‘، راجپوتوں کو ’’ضمنی کردار‘‘ اور مرہٹوں کو ’’قوم کے محافظ‘‘ دکھایا گیا۔ اب یہی بیانیہ سرکاری نصاب میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
ہندوتوا اور مرہٹہ مرکزیت
یہ سب محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں ہندوتوا کی فکری تاریخ سے جڑی ہوئی ہیں۔آر ایس ایس 1925 میں ناگپور کے ایک مراٹھی برہمن ماحول میں وجود میں آئی جو پیشوائی دور کی بحالی کا خواب دیکھتا تھا۔
ڈاکٹر راجندر پرساد نے سردار پٹیل کو لکھا کہ: ’’یہ دراصل ایک مہاراشٹری برہمن تحریک ہے جس کا مقصد پیشوا راج قائم کرنا ہے۔‘‘
مورخین کے مطابق پیشوائی دور میں ریاست کو ’’برہمن پرتی پالک‘‘ یعنی برہمنوں کا محافظ قرار دیا گیا اور برہمن طبقے کی بالادستی کو ادارہ جاتی شکل دی گئی، یہاں تک کہ آر ایس ایس کے سربراہ گولوالکر نے راجپوت روایات کو ’’کمزوری‘‘ اور ان کی بہادری کو ’’خودکشی‘‘ قرار دیا۔
برہمنیت کے مضر اثرات
یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ نصاب میں کی جانے والی یہ تحریف صرف تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل نہیں ہے بلکہ برہمنیت کی بالادستی کو ازسرنو قائم کرنے کی ایک خطرناک کوشش ہے۔
ذات پات اور سماجی تقسیم
پیشوائی دور میں برہمنیت کا سب سے بڑا مظہر ذات پات کا گھناؤنا نظام تھا۔ جس میں شودروں اور دلتوں کو انسانی درجے سے نیچے سمجھا گیا۔ انہیں تعلیم، زمین، دولت اور یہاں تک کہ عبادت گاہوں تک کی رسائی سے محروم رکھا گیا۔ اس نظام میں خواتین کی کوئی حیثیت تھی ہی نہیں۔ ان پر سماجی اور مذہبی پابندیاں عائد کی گئیں۔ انہیں وراثت، تعلیم اور عوامی زندگی سے محروم رکھا گیا۔
علم اور دولت پر قبضہ
برہمن طبقہ علم و دولت پر قابض رہا۔ ویدوں اور مذہبی یعنی دھارمک علوم کی رسائی صرف انہی تک محدود رکھی گئی۔ باقی طبقات کو ناخواندگی اور پسماندگی میں دھکیل دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ برہمنیت کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں، جیوتی با پھولے نے اپنی کتاب ’غلام گیری‘ میں پیشواؤں کے ظلم کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے دکھایا کہ کس طرح برہمنیت نے شودروں اور عورتوں کو صدیوں سے غلام بنا کر رکھا ہے۔اسی طرح ڈاکٹر امبیڈکر نے ذات پات کے نظام کو ’’ہندوستان کی سب سے بڑی لعنت‘‘ کہا اور برہمنیت کو سماجی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔
موجودہ دور میں برہمنیت کی بازیافت
ہندوتوا تحریک برہمنیت کی اسی پرانی روح کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو سماج میں طبقاتی تفاوت اور برہمنوں کی بالادستی کو تقویت دیتی ہے۔ اس تحریک کے ذریعے مرہٹہ پیشوائی کی بالادستی کو ’’ہندوستانی ورثہ‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، گویا کہ یہی وہ اصل تہذیب ہے جس پر ہندوستان کا تشخص قائم تھا۔ اس کے ساتھ ہی مسلم عہد کی علمی، ثقافتی اور تہذیبی خدمات کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور اس کی جگہ ’’برہمن راج‘‘ کا خواب دکھایا جا رہا ہے۔ بالی ووڈ اور نصابی کتابوں کے ذریعے نئی نسل کو یک طرفہ تاریخ پڑھائی جا رہی ہے، جس میں صرف ایک مخصوص نظریے کو فروغ دیا جاتا ہے اور تاریخ کی حقیقتوں کو چھپایا جاتا ہے، تاکہ ایک مکمل اور متوازن تصویر سامنے نہ آئے۔یہ صرف تعلیمی نصاب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی سماجی ہم آہنگی اور تکثیری روایت کے خلاف ایک منظم اور منصوبہ بند حملہ ہے۔
این سی ای آر ٹی کی آٹھویں جماعت کی تاریخ میں کی جانے والی تبدیلیاں ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ یہ محض ماضی کے چند ابواب کی ترمیم نہیں ہیں بلکہ باقاعدہ ایک سیاسی پروجیکٹ ہے۔ اس کا مقصد ہندوستان کی نئی نسل کو ایسی تاریخ پڑھانا ہے جو ہندوتوا کے نظریے اور برہمنیت کی بالادستی کو ’’قومی ورثہ‘‘ ثابت کرے۔ اگر آج ہم نے اس تحریف کو چیلنج نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہندوستان کی اصل تاریخ، اس کی تکثیری روح، ہندو مسلم مشترکہ ورثہ اور ذات پات مخالف تحریکوں سے ناآشنا رہیں گی۔
چند سفارشات
مؤرخین، محققین اور ماہرین تعلیم کو متحد ہو کر نصاب میں توازن قائم رکھنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔
برہمن وادی بیانیے کے مقابلے میں ہندوستان کی تکثیری تاریخ پر مبنی تحقیقی کتابیں اور مضامین شائع کیے جائیں۔
یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں متبادل نصاب تیار کیا جائے۔
والدین، اساتذہ اور طلبہ میں شعور بیدار کیا جائے تاکہ وہ نصاب میں ہونے والی تحریفات پر سوال اٹھا سکیں۔
سول سوسائٹی اور سماجی تنظیموں کے ذریعے نصاب کے متوازی تعلیمی پروگرام چلائے جائیں۔
میڈیا، اخبارات اور آن لائن پلیٹ فارموں پر علمی و عوامی مباحثے منعقد کیے جائیں تاکہ اصل تاریخ عوام تک پہنچے۔
پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اپوزیشن جماعتوں کو یہ مسئلہ بار بار اٹھانا چاہیے تاکہ حکومت پر دباؤ بڑھے۔
ملک گیر سطح پر نصابی تبدیلیوں کے خلاف ایک مشترکہ عوامی مہم چلائی جائے۔
طلبہ تنظیموں، اساتذہ یونینوں اور تعلیمی اداروں کو مل کر نصاب میں توازن بحال کرنے کی جدوجہد کرنا چاہیے۔
یہ وقت ہے کہ ہم نصاب میں سچائی، تنوع اور انصاف کی بحالی کے لیے آواز اٹھائیں کیونکہ یہ مسئلہ صرف تاریخ کا نہیں بلکہ بھارت کے مستقبل کا ہے۔
***
این سی ای آر ٹی کی آٹھویں جماعت کی تاریخ میں کی جانے والی تبدیلیاں ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ یہ محض ماضی کے چند ابواب کی ترمیم نہیں ہیں بلکہ باقاعدہ ایک سیاسی پروجیکٹ ہے۔ اس کا مقصد ہندوستان کی نئی نسل کو ایسی تاریخ پڑھانا ہے جو ہندوتوا کے نظریے اور برہمنیت کی بالادستی کو ’’قومی ورثہ‘‘ ثابت کرے۔ اگر آج ہم نے اس تحریف کو چیلنج نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہندوستان کی اصل تاریخ، اس کی تکثیری روح، ہندو مسلم مشترکہ ورثہ اور ذات پات مخالف تحریکوں سے ناآشنا رہیں گی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2025