ہندوتوا گروپس نے مدھیہ پردیش میں ’’لو جہاد‘‘ کا الزام لگاتے ہوئے ایک ’’گربا ایونٹ‘‘ میں خلل ڈالا
نئی دہلی، اکتوبر 12: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں گربا کی ایک تقریب کے پاس موجود چار مسلم افراد کو ہندوتوا گروپ کے ارکان کے ذریعے مبینہ طور پر ’’عوامی پریشانی‘‘ پیدا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ارکان نے اتوار کو اندور کے ایک کالج میں منعقدہ تقریب میں خلل ڈالا۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ہندوتوا تنظیموں کے کارکنوں نے غیر ہندوؤں کو تقریب میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے منتظمین کے فیصلے پر اعتراض کیا۔
اندور میں بجرنگ دل کے کنوینر تنو شرما نے ٹائمز آف انڈیا سے کہا کہ یہ ’’ایونٹ ’لو جہاد ‘ کو فروغ دینے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا تھا کیوں کہ اس میں ہزاروں مسلم نوجوانوں کو داخلہ دیا گیا تھا۔‘‘
’’لو جہاد‘‘ ہندوتوا کے کارکنوں کا ایک سازشی نظریہ ہے، جس کے مطابق وہ الزام لگاتے ہیں کہ مسلمان مرد زبردستی ہندو خواتین کو شادی کے ذریعے اسلام میں شامل کرتے ہیں۔
دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق وشو ہندو پریشد کے ایک رکن ترون دیودا نے الزام لگایا کہ کووڈ 19 کے اصولوں کے مطابق کالج کو اس تقریب میں صرف 800 طلبا کو اجازت دی گئی تھی، لیکن اس نے تقریباً تین ہزار لوگوں کو ٹکٹ فروخت کیے۔
ایک رضاکار نے، جو کہ تقریب کے دوران کالج کے داخلی دروازے پر تھا، اخبار کو بتایا کہ بجرنگ دل کے ارکان نے کالج پارکنگ ایریا میں قادر منصوری نامی طالب علم کو یہ کہتے ہوئے نشانہ بنایا تھا کہ ’’وہ ان میں سے ایک ہے۔‘‘
رضاکار نے کہا ’’قادر نے انھیں بتانے کی کوشش کی کہ وہ کالج کا طالب علم ہے، لیکن وہ اسے گھسیٹ کر لے گئے۔‘‘
بجرنگ دل کے ارکان نے منصوری کے دوست عدنان شاہ کو بھی ہراساں کیا۔ رضاکار نے مزید کہا ’’پھر بجرنگ دل کے لوگ انھیں ایونٹ گراؤنڈ کے باہر پولیس وین میں لے گئے۔‘‘
دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق منصور، شاہ اور ان کے دوستوں عمر خالد اور سید ثاقب کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔
پولیس افسر سنتوش یادو نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا ’’ہم نے چار افراد کے خلاف سیکشن 151 [کوڈ آف کرمنل پروسیجر] کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کیا ہے۔‘‘
دریں اثنا سب ڈویژنل مجسٹریٹ پراگ جین نے کہا کہ چاروں افراد کو ان کے اہل خانہ کے ذریعے ضمانت کے لیے بانڈ پیش کرنے میں ناکام ہونے کے بعد جیل بھیج دیا گیا۔
لیکن اندور ویسٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس مہیش چند جین نے کہا کہ وہ ان کی حراست کے خلاف تھے۔ انھوں نے اخبار کو بتایا ’’چار نوجوانوں کے خلاف کارروائی غیر منصفانہ ہے۔‘‘
عدنان شاہ کے چچا ساجد شاہ نے کہا ’’پیر کی صبح پولیس نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ چاروں کو رہا کر دیا جائے گا لیکن انھیں ایس ڈی ایم کے سامنے پیش کیا گیا، جنھوں نے انھیں ضمانت دینے کے بجائے ہماری معلومات کے بغیر جیل بھیج دیا۔‘‘
وہیں تقریب کے منتظمین کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جین نے کہا کہ انگوں نے کووڈ 19 کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔