فرقہ واریت: ہندوتوا گروپ نے کرناٹک میں مسلمانوں کے ذریعہ چلائی جانے والی ٹیکسیوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا

نئی دہلی، اپریل 9: ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کرناٹک میں ایک ہندوتوا گروپ، بھارت رکھشنا ویدیکے نے جمعہ کو ہندوؤں سے کہا کہ وہ مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جانے والی ٹیکسی اور ٹرانسپورٹ آپریٹرز کو ملازمت نہ دیں۔

بھارت رکھشنا ویدیکے کے اراکین نے کئی لوگوں کے گھروں کا دورہ کیا تاکہ انھیں مسلم ڈرائیوروں کی طرف سے پیش کی جانے والی ٹیکسی خدمات کا فائدہ نہ اٹھانے پر راضی کیا جا سکے۔

یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ریاست میں بی جے پی کے لیڈروں اور ہندوتوا کے حاشیہ بردار گروپوں نے مسلمان دکانداروں، حلال گوشت، تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے اور اذان کے دوران لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس ہندوتوا گروپ کے سربراہ بھارت شیٹی نے کہا ’’جب ہم مندروں یا درگاہوں پر جاتے ہیں تو ہم نان ویج نہیں کھاتے اور کسی ایسے شخص کے ساتھ جانا جو ہمارے دیوتاؤں کو نہیں مانتا یا اپنے کھانے کے انتخاب سے ہمیں ناپاک بناتا ہے، ہماری ثقافت اور مذہب کی توہین ہو گی۔ وہ ہمیں کافر کہتے ہیں اور جس طرح ان کے لیے ان کا مذہب اہم ہے اسی طرح ہمارا مذہب بھی ہمارے لیے ہے۔‘‘

ہندوتوا گروپ کے ایک اور رکن پرشانت بنگیرا نے جمعہ کو ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ مندروں اور یاترا پر جاتے وقت مسلمان ڈرائیوروں کو ساتھ نہ لیں۔

بنگیرا نے ہندوؤں پر زور دیا کہ وہ ریاست میں کسی بھی مسلم ملکیتی ٹرانسپورٹ کمپنی کو استعمال نہ کریں۔ انھوں نے دیگر ہندوتوا تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کی اپیل کی حمایت کریں۔ آئی اے این ایس کے مطابق سری رام سینا نے بنگیرا کے مطالبات کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ کئی مہینوں سے کرناٹک میں ہندوتوا گروپوں نے مسلمانوں کے خلاف کئی مہمات شروع کر رکھی ہیں۔

جنوری میں ہندوتوا گروپس نے کچھ کالجوں میں طالبات کے حجاب پہننے پر اعتراض کیا تھا۔

کرناٹک حکومت نے 5 فروری کو تعلیمی اداروں میں ایسے کپڑوں پر پابندی عائد کر دی تھی جو ’’مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو متاثر کرتے ہیں۔‘‘ 15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے اس حکومتی حکم کو برقرار رکھا اور فیصلہ دیا کہ حجاب پہننا اسلام کے لیے ضروری نہیں ہے۔

مارچ میں کرناٹک کے کئی مندروں نے بھی مسلم تاجروں پر سالانہ میلوں میں اسٹال کھولنے پر پابندی لگا دی تھی۔

ہندوتوا گروپس مساجد میں بھی لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ آواز کی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ ایک ہندوتوا گروپ شری رام سینا نے دھمکی دی تھی کہ اگر حکومت اس معاملے میں کارروائی کرنے میں ناکام رہی تو وہ احتجاج کریں گے۔

اس ہفتے کے شروع میں بنگلورو پولیس نے کہا تھا کہ انھوں نے ان عبادت گاہوں سے مائیکروفون ضبط کرنا شروع کر دیے ہیں جہاں شور کی سطح سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ حد سے تجاوز کر گئی ہے۔

8 اپریل کو بنگلورو کے شہری ادارے بروہت بنگلورو مہانگر پالیکے نے ایک سرکلر جاری کیا جس میں اتوار کو رام نومی کے موقع پر پورے شہر میں گوشت کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی۔

جمعہ کے روز کچھ ہندوتوا تنظیموں نے بھی سرکاری ملکیت والی انڈین ریلوے کیٹرنگ اینڈ ٹورازم کارپوریشن، ایئر انڈیا اور دیگر کے خلاف بھی حلال مصدقہ مصنوعات پیش کرنے کے لیے مہم شروع کی۔