کرناٹک میں حجاب پر پابندی سے متعلق کیس: سپریم کورٹ پیر کو کرناٹک ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرے گی
نئی دہلی، اگست 28: سپریم کورٹ پیر کو کرناٹک ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے ایک بیچ کی سماعت کرے گی، جس نے اسکول اور کالج کے کلاس رومز میں حجاب پر پابندی کے ریاستی حکومت کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔
جسٹس ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا کی بنچ کل ان درخواستوں پر سماعت کرے گی، جو کہ نئے چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کے کام کا پہلا دن ہے۔
اس سے پہلے ان درخواستوں کا تذکرہ سابق چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ کے سامنے کئی مواقع پر فوری سماعت کے لیے کیا گیا تھا، لیکن کیس کو سماعت کے لیے درج نہیں کیا گیا تھا۔
یہ اپیلیں عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی تھیں، جن میں کرناٹک حکومت کے اس حکم کو برقرار رکھنے کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں اسکولوں اور کالجوں کے یکساں قوانین کو سختی سے نافذ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ ’’سرکاری حکام کے سوتیلے رویے نے طلبا کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے سے روکا ہے اور اس کے نتیجے میں امن و امان کی غیر مطلوب صورت حال پیدا ہوئی ہے۔‘‘
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ اپنے حکم میں ’’اپنا دماغ استعمال کرنے میں سختی سے ناکام رہا ہے اور وہ صورت حال کی سنگینی کے ساتھ ساتھ آئین ہند کی دفعہ 25 کے تحت درج ضروری مذہبی طریقوں کے بنیادی پہلو کو سمجھنے سے قاصر رہا ہے۔‘‘
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’حجاب یا سر پر اسکارف پہننا ایک ایسا عمل ہے جو اسلام میں ضروری ہے۔‘‘
کرناٹک ہائی کورٹ نے مارچ میں کہا تھا کہ یونیفارم کا نسخہ ایک معقول پابندی ہے جس پر طلبا اعتراض نہیں کرسکتے اور تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی مختلف عرضیوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ وہ میرٹ پر نہیں ہیں۔
حجاب کا تنازع اس سال جنوری میں اس وقت شروع ہوا تھا جب اڈپی کے گورنمنٹ پی یو کالج نے مبینہ طور پر حجاب پہننے والی چھ لڑکیوں کو داخلے سے روک دیا تھا۔ اس کے بعد لڑکیاں داخلہ نہ ملنے پر کالج کے باہر احتجاج پر بیٹھ گئیں۔
اس کے بعد اُڈپی کے کئی کالجوں کے لڑکوں نے زعفرانی اسکارف پہن کر کلاس میں جانا شروع کر دیا۔ یہ احتجاج ریاست کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا اور ساتھ ہی کرناٹک میں کئی مقامات پر احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔
اس کے نتیجے میں کرناٹک حکومت نے کہا کہ تمام طالب علموں کو یونیفارم کی پابندی کرنی چاہیے اور اس وقت تک حجاب اور زعفرانی اسکارف دونوں پر پابندی لگا دی جب تک کہ ایک ماہر کمیٹی اس معاملے پر فیصلہ نہیں کرتی۔
5 فروری کو پری یونیورسٹی ایجوکیشن بورڈ نے ایک سرکلر جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ طلبا صرف وہی یونیفارم پہن سکتے ہیں جسے اسکول انتظامیہ نے منظور کیا ہے اور کالجوں میں کسی اور مذہبی لباس کی اجازت نہیں ہوگی۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر انتظامی کمیٹیوں کی جانب سے یونیفارم کا تعین نہیں کیا گیا ہے تو طلبا کو چاہیے کہ وہ ایسے لباس پہنیں جو مساوات اور اتحاد کے خیال کے مطابق ہوں اور سماجی نظم و ضبط میں خلل نہ ڈالیں۔
کچھ لڑکیوں نے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت مانگنے کے لیے کرناٹک ہائی کورٹ میں حکومت کے حکم کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔
10 فروری کو ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جب تک عدالت حتمی حکم جاری نہیں کرتی، طلبا کو کلاسوں میں کوئی مذہبی لباس نہیں پہننا چاہیے۔ حجاب کیس سے متعلق سماعت 25 فروری کو مکمل ہوئی تھی اور عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔