ہائی کورٹ نے ریاست کے رہائشیوں کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کی نوکریوں میں 75 فیصد ریزرویشن کے ہریانہ حکومت کے قانون پر روک لگائی

نئی دہلی، فروری 3: لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے جمعرات کو ہریانہ حکومت کے اس قانون پر عبوری روک لگا دی ہے جو ریاست کے باشندوں کو نجی شعبے کی ملازمتوں میں 75 فیصد ریزرویشن فراہم کرتا ہے۔

جسٹس اجے تیواری اور پنکج جین کی بنچ نے ہریانہ اسٹیٹ ایمپلائمنٹ آف لوکل کینڈیڈیٹس ایکٹ 2020 کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی پر یہ حکم دیا۔

یہ قانون نومبر میں نافذ کیا گیا تھا اور 15 جنوری کو نافذ ہوا تھا۔

پرائیویٹ ملازمتوں میں ریزرویشن 2019 کے اسمبلی انتخابات کے دوران جن نائک جنتا پارٹی– ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتحادی پارٹنر کے ذریعے کیے گئے کلیدی وعدوں میں سے ایک تھا۔

ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ہریانہ میں رہتے ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ریاست کا باشندہ ہونے کا درجہ حاصل کرنے کے لیے کسی شخص کا ریاست میں پیدا ہونا یا کم از کم 15 سال سے وہاں مقیم ہونا لازمی ہے۔

کمپنیوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ اگر وہ ہریانہ میں مناسب امیدوار نہیں ڈھونڈ سکتے ہیں تو وہ باہر سے لوگوں کی خدمات حاصل کریں۔ تاہم انھیں حکومت کو اس فیصلے سے آگاہ کرنا ہوگا۔

یہ ایکٹ ایسی ملازمتوں کا احاطہ کرتا ہے جو مجموعی ماہانہ تنخواہ کے طور پر 30,000 روپے تک ادا کرتے ہیں اور ان کا اطلاق ریاست بھر میں کمپنیوں، سوسائٹیوں، ٹرسٹوں پر ہوتا ہے۔

مارچ میں فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے کہا تھا کہ یہ ریزرویشن صنعتی ترقی اور نجی سرمایہ کاری کے لیے تباہ کن ہوگا۔

بعد ازاں اس سال فروری میں فرید آباد انڈسٹریز ایسوسی ایشن نے ہائی کورٹ میں یہ کہتے ہوئے اس کی مخالفت کی کہ یہ ایکٹ غیر آئینی ہے۔

عرضی میں کہا گیا تھا ’’یہ ایکٹ نجی ملازمت میں ریزرویشن کو مؤثر طریقے سے فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور نجی آجروں کے اپنے کاروبار اور تجارت کو انجام دینے کے بنیادی حقوق میں حکومت کی طرف سے غیر معمولی مداخلت کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ایکٹ ہندوستان میں مشترکہ شہریت کے خیال کے خلاف ہے اور یہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں ناکام ہے۔

دوسری طرف ہریانہ حکومت نے دلیل دی کہ یہ ایکٹ صرف ’’جغرافیائی درجہ بندی‘‘ کرتا ہے، جس کی آئین کے تحت اجازت ہے۔

حکومت نے دلیل دی کہ یہ قانون ہریانہ میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے نافذ کیا گیا ہے۔

حکومت نے کہا کہ ’’ریاست میں صنعت کاری کی وجہ سے بہت زیادہ اراضی کا حصول ہوا ہے جس کے نتیجے میں زراعت کے شعبے میں ترقی اور روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں۔‘‘

دریں اثنا ہائی کورٹ کے حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالہ نے کہا کہ ریاستی حکومت ریاست میں نوجوانوں کے روزگار کے مواقع کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔