مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم: آل انڈیا مسم مجلس مشاورت نے آئین کی حفاظت اور تفرقہ بازی کے خلاف لڑنے کا عہد کیا
نئی دہلی، مئی 28: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (اے آئی ایم ایم ایم) نے، جو ہندوستانی مسلمانوں کی ایک اعلیٰ تنظیم ہے، تمام ہندوستانی شہریوں کے آئینی اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے ’’عدالتی، سیاسی اور دیگر تمام قانونی طور پر اجازت یافتہ راستے استعمال کرنے کا عزم کیا ہے، خاص طور پر مسلمان اور محروم اور کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے۔‘‘
یہ گذشتہ ہفتے ملک کی تمام مسلم تنظیموں کی طرف سے جاری کردہ ایک اعلامیے کا حصہ تھا۔
یہ اعلامیہ نئی دہلی میں دو روزہ قومی کنونشن کے اختتام پر جاری کیا گیا، جس میں 18 ریاستوں کے کمیونٹی کے نمائندوں نے شرکت کی، تاکہ بدلے ہوئے سیاسی حالات پر تبادلۂ خیال کیا جا سکے جس کے تحت ریاستی حکومتوں اور پولیس کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ہندوتوا شدت پسند عناصر کی طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس کنونشن کا انعقاد اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ملک بھر کے مسلمانوں میں خوف اور مایوسی پھیل گئی ہے۔
اعلامیے میں ’’سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والے تمام بے گناہوں کی مدد اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد کیا گیا ہے۔‘‘
قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کی املاک کو بلڈوز کرنے اور اکثریتی برادری کے بنیاد پرست عناصر کی طرف سے مساجد پر قبضہ کرنے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مشاورت نے ’’مساجد کی حفاظت، فرقہ وارانہ تشدد اور بلڈوزر سیاست کے معصوم متاثرین کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت اور انتظامیہ پر دباؤ بڑھانے کا اعلان کیا۔‘‘
مسلم تنظیم نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ ان مسائل کو اٹھاتے ہوئے ’اشتعال انگیز تقاریر، نسل کشی کی کھلی دھمکی اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نیشنل یا سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور اشتعال انگیز پروپیگنڈے پر لگام ڈالنے‘‘ کا عزم کیا۔
مجلس مشاورت نے میڈیا کے اس حصے کی سخت مذمت کی جو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور طبقاتی اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے میں ملوث ہے۔ انھوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ ایسے میڈیا ہاؤسز کا بائیکاٹ کریں۔
مسلم باڈی نے مختلف مسلم گروپوں کے درمیان اختلافات کو کم کرنے اور ملک میں فرقہ وارانہ امن اور ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے ہندو اور دیگر برادریوں کے سمجھ دار عناصر کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا۔
مشاورت نے ’’تمام شکوک و شبہات کو دور کرنے، فرقہ وارانہ عناصر کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے اور تفرقہ پیدا کرنے کی کسی بھی کوشش کو روکنے کے لیے‘‘ ہر طبقے اور مسلک کے لوگوں کے ساتھ مکالمے اور بات چیت کا ایک سلسلہ منعقد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
مشاورت نے ’’تمام عقائد کے منصف مزاج شہریوں‘‘ اور ’’آئینی اور جمہوری طریقوں‘‘ کی مدد سے ’’آئین ہند کو تبدیل کرنے یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا۔‘‘ مشاورت نے ملک کو ’’نفرت اور تفرقہ بازی کی آگ‘‘ سے بچانے کا بھی عہد کیا۔
مشاورت نے کہا کہ مسلمان ’’بغیر کسی سمجھوتے کے مستقل اسلام اس کے اصولوں پر عمل کرتے رہیں گے اور اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھیں گے۔ حجاب (پردہ) مسلم خواتین کی محض ایک علامتی شناخت نہیں ہے بلکہ ایک اہم مذہبی فریضہ ہے جس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
دو روزہ پروگرام کے مقررین میں اے آئی ایم ایم ایم کے صدر نوید حامد، جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی، اے آئی ایم ایم ایم کے نائب صدر ملک معتصم خان، اے آئی ایم ایم ایم کے میڈیا کوآرڈینیٹر انعام الرحمن خان، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ایس کیو آر الیاس، سابق وزیر اور اتحاد ملت کونسل کے رہنما توقیر رضا خان، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند اور مولانا محمد یاسین شامل تھے۔