عوام کو ہوئیں مشکلات کو نوٹ بندی کی غلطی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، مرکز نے سپریم کورٹ سے کہا
نئی دہلی، دسمبر 6: ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایڈوکیٹ جنرل آر وینکٹ رمانی نے پیر کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے عوام کو درپیش مشکلات کو 500 اور 1000 روپے کی کرنسی پر پابندی لگانے کے مرکز کے 2016 کے فیصلے کی غلطی نہیں سمجھا جا سکتا۔
وینکٹ رمانی نے کہا ’’وہ مشکلات اور مسائل جو نوٹیفکیشن کو نافذ کرنے کے دوران پیدا ہوئے ہوں گے، انھیںمخصوص بینک نوٹ (سیزیشن آف لیبلٹیز) ایکٹ 2017 کی ایس خامیاں نہیں کہا جا سکتا جو فیصلہ سازی کے عمل کو متاثر کرتی ہیں۔‘‘
پانچ ججوں کی ایک آئینی بنچ نوٹ بندی کے اقدام کو چیلنج کرنے والی 58 درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔
8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان میں آدھی رات سے 500 اور 1000 روپے کے کرنسی نوٹوں کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ مودی نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ بدعنوانی، کالے دھن اور دہشت گردی سے لڑنے کے لیے لیا گیا ہے۔
اس وقت کئی افراد، جن میں سے بہت سے بوڑھے تھے، اپنی رقم کے تبادلے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے۔ چوں کہ لاکھوں خاندان نقدی کے بغیر پھنسے ہوئے تھے، لہٰذا بہت سے لوگوں نے پرانے نوٹوں کو درست کرنسی کے لیے تبدیل کرنے میں ناکامی کے بعد اپنی جان بھی لے لی۔
درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس مشق سے شہریوں کے متعدد آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جیسے جائیداد کا حق (آرٹیکل 300A)، مساوات کا حق (آرٹیکل 14)، کسی بھی تجارت، کاروبار یا پیشے کو جاری رکھنے کا حق (آرٹیکل 19) اور زندگی اور معاش کا حق (آرٹیکل 21)۔
پیر کے روز اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسے میں صرف عوام کو درپیش مشکلات پر غور کرنا مناسب نہیں ہے جب حکومت جعلی کرنسی، کالے دھن اور دہشت گردی کی فنڈنگ جیسے مسائل کو حل کر رہی ہو، جس نے ملک کے لیے چیلنجز پیدا کیے ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے اور اس فیصلے کی وجہ سے پیدا ہونے والی سماجی اور معاشی پریشانی کے درمیان توازن قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق وینکٹ رمانی نے کہا ’’میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ مشکلات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جانا چاہیے۔ مشکلات لامحالہ ہوں گی، میں اس پر آنکھیں بند نہیں کر رہا ہوں۔ حکومت نے بھی اس پر آنکھیں بند نہیں کیں۔‘‘
اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ اگر مشق کا ابتدائی مقصد حاصل نہیں ہوا تو بھی پوری پالیسی کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہا ’’گورننس کا ہر لمحہ اہداف کو دیکھتا ہے۔ پانچ سالہ منصوبے میں اہداف ہوتے ہیں اور پھر وقت کے ساتھ اہداف یا تو پورے ہوتے ہیں یا کئی وجوہات کی بنا پر پورے نہیں ہوتے۔‘‘
وینکٹ رامانی نے یہ بھی استدلال کیا کہ 30 دسمبر 2016 کی کٹ آف تاریخ، پرانے کرنسی نوٹوں کو جمع کرنے کے لیے مرکز کی طرف سے طے کی گئی تھی، جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہے۔