حق غالب ہو کر رہے گا

طوفان الاقصیٰ کے سبب مسئلۂ فلسطین کو اب یکسر نظر انداز کیا جانا ممکن نہیں رہا

سدید ازہر فلاحی

’صیہونی منصوبہ ناکام ہوگا اور اسرائیل سزا سے ہرگزبچ نہیں سکے گا‘۔ منصف مرزوقی
عالمی پیمانے پر حقوق انسانی کے کارکن اور مشہور سیاست داں، منصف مرزوقی کا الجزیرہ کو فلسطین اسرائیل تنازعہ کے متعلق دیے گئے انٹرویو کا خلاصہ قارئینِ ہفت روزہ دعوت کے لیے پیش ہے ۔(ادارہ)
عرب عوام کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم عرب کونسل کے صدر اور تیونس کے سابق صدر منصف مرزوقی نے غزہ پر قابض فوج کی جارحیت کو نسل کشی کا منصوبہ قرار دیا اور الجزیرہ کو اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دنیا کو سیکڑوں کی تعداد میں قتل عام کا سامنا کرنا پڑے گا، خاص طور پر جب کہ صیہونی قبضے کی غیر مشروط حمایت کی وجہ سے بیشتر بڑے ممالک میں جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
جب منصف مرزوقی سے پوچھا گیا کہ عدل و انصاف کی خاطر ہمیشہ سرگرم رہنے والے ایک جہدکار کی حیثیت سے آپ غزہ میں اسرائیلی قبضے کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کو بین الاقوامی قانون کے مطابق کیسے دیکھتے ہیں اور انہیں کس درجہ میں رکھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ نہتّے شہریوں کی آبادی پر پُرتشدد اور وحشیانہ بمباری سے اب تک ایک ہزار سات سو عمارتیں، ٹاور اور رہائشی مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ مکمل طور پر منہدم ہونے والی رہائشی اکائیوں کی تعداد سات ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے، اور انہتر ہزار سے زائد رہائشی اکائیوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے، جن میں سے تقریباً  چار ہزار چھ سواکائیاں اب رہائش کے قابل نہیں رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی شہری اپنی رہائش گاہوں سے باہر ہوگئے ہیں۔ تقریباً نو ہزار افراد شہید اور بائیس ہزار سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سے آدھے بچے اور عورتیں ہیں۔ یہ تو صرف آغاز ہے، کیونکہ وہ ایک ایسی جنگ کی بات کر رہے ہیں جو حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مہینوں تک جاری رہے گی۔ (اس انٹرویو کے بعد مذکورہ جنگی جرائم میں  مزید کئی گنا اضافہ ہوا ہے)
ہمیں اجتماعی نسل کشی کے ایک ایسے منصوبے کا سامنا ہے جو جینوسائڈ کنونشن کے آرٹیکل-2 کے متن اور جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق  آئین روم کے آرٹیکل چھ، سات اور آٹھ کے متن کے مطابق نسل کشی کا منصوبہ ہے۔ اس لحاظ سے عرب کونسل نے جس کی سربراہی کا مجھے اعزاز حاصل ہے، انسانی حقوق کی تیس بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر، 24؍ اکتوبر کو بین الاقوامی فوج داری عدالت (ہیگ، نیدرلینڈ) کے پراسیکیوٹر کے سامنے ریاست اسرائیل کے بارے میں  شکایت درج کرائی ہے اور شکایت کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم یہ تمام قوتیں اس مسئلے کو نہیں چھوڑیں گی چاہے کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے، یہ جاننا چاہیے کہ اس طرح کے جرائم زمانہ گزر جانے سے ختم ہو کر ساقط نہیں ہو جاتے۔ مطلب یہ ہے کہ مجرموں کے خلاف قانونی تعاقب ان کی موت تک جاری رہے گا۔
غزہ کے خلاف چھ جنگوں میں کیے جانے والے اسرائیلی جرائم کا ایک طویل   سلسلہ ہے اور پھر مغربی کنارے میں کیے جانے والے جرائم  بھی ہیں، اس کے باوجود دنیا بھر کی انصاف کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اسرائیل کے ان سیاسی اور فوجی رہنماؤں کے خلاف جو ان جرائم کے ذمہ دار ہیں، بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلا پا رہی ہیں کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد انسانیت نے اپنی تاریخ میں ایک بے مثال عمل کا آغاز کیا، یعنی ایک ایسی دنیا کی تعمیر جو سب کے لیے محفوظ و مامون ہو اور جہاں اقدار، قوانین اور مشترکہ اداروں کی حکم رانی ہو۔ چنانچہ 1945 میں اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور بین الاقوامی عدالت برائے انصاف اور 2002 میں بین الاقوامی فوج داری عدالت کا قیام عمل میں آیا اور 1948 کے  انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے بطن سے بہت سے بین الاقوامی معاہدے وجود میں آئے۔
ہمیں اس پوری زبردست کوشش کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر دنیا اس سے زیادہ خطرناک راستہ اختیار کرلیتی جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن آج یہ بات یقینی ہے کہ اس پورے نظام پر بنیادی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اور یہ نظام خواہ جنرل اسمبلی ہو یا سلامتی کونسل کی سطح پر ہو یا بین الاقوامی فوج داری عدالت کی سطح پر، وہ غزہ کے قتل عام اور دیگر سابقہ قتل عاموں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر قدیم عالمی نظام اسی طرح چلتا رہا تو دنیا کو، خدا نہ کرے، سیکڑوں غزہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
غزہ کے خلاف حالیہ جارحیت نے بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے نعرے لگانے والے ان ممالک کو بے نقاب کر دیا ہے جو آج کھلے عام مظلوم کی مذمت اور مجرم کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں منصف مرزوقی سے جب ان کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی کہ  کیا مغرب کا انسانی حقوق کے دفاع کا دعویٰ جھوٹا ہے یا خاص اس معاملے میں سیاسی مفادات کو اصولوں پر فوقیت حاصل ہے؟
جواب میں مرزوقی کہتے ہیں کہ مغرب کے بارے میں بات کرنے کے بجائے بعض مغربی ممالک کے بارے میں بات کرنا  زیادہ درست ہوگا۔ (مثال کے طور پر اسپین کا وہ موقف نہیں ہے جو جرمنی کا ہے) ہزاروں امریکی اور یوروپی، یہودی اور عیسائی، مظلوم غزہ کی حمایت کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ہمیں کچھ مغربی لوگوں کی طرح ایسی غلطی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے جو جہالت اور بد نیتی کی وجہ سے داعش، حماس، نہضہ، اخوان اور جماعت انصاف و ترقی کو ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کا جہاں تک تعلق ہے، اس کا من پسند استعمال، جیسا کہ اس وقت مغربی ممالک کے اکثر ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں میں دیکھا جا رہا ہے، خود انسانی حقوق کی فکر کے خلاف دلیل نہیں ہے، بلکہ ان منافق لوگوں کے خلاف حجت ہے جو اس آئیڈیا کے معیار تک نہیں پہنچ سکے۔
ذاتی طور پر، میں آدھے خالی گلاس کے بجائے آدھے بھرے ہوئے گلاس پر توجہ مرکوز کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ دینی حمیت کی بنیاد پر ترکوں کا مظاہرہ کرنا اور قومی حمیت کے بنیاد پر عربوں کا احتجاج کرنا ایک ایسی چیز ہے جس سے دل کو ٹھنڈک پہنچتی ہے، لیکن یورپ اور امریکہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کا مظاہرہ کرنا ان اقدار کی قوت اور مقبولیت کی دلیل ہے جو انسانیت کے تعلق کو تمام چیزوں سے بالاتر رکھتے ہیں اور کسی بھی قسم کے دوہرے پیمانوں  کو قبول نہیں کرتے۔
غور کیجیے کہ جب سے غزہ پر جارحیت شروع ہوئی ہے، دنیا دیکھ رہی ہے کہ مغرب کے بہت سے نام نہاد  "جمہوری” ممالک میں مظاہروں کو بہت زیادہ دبایا جا رہا ہے اور اظہار رائے کے اس حق پر پابندی لگائی جا رہی ہے جس کی ان ممالک کا قانون ضمانت دیتاہے۔ مغرب کی اس اندرونی سماجی و سیاسی صورت حال کے بطور خاص مغرب کی نوجوان نسل پر، نہایت مضر اثرات مرتب ہو رہے  ہیں، فلسطینی قوم کے خلاف جنگ اور بعض بڑے جمہوری ممالک کی طرف سے اس کی مکمل حمایت کا ایک نقصان یہ  بھی ہورہا ہے کہ ہر جگہ مغربی ممالک میں جمہوریت کی پوزیشن مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
ہم نے ان حکومتوں کے عہدیداروں سے بارہا کہا ہے کہ ایک قابض ریاست اور نسلی امتیاز (apartheid) کے لیے ان کی غیر مشروط حمایت اس نظام سے ہماری نوجوان نسلوں کی نفرت کو بڑھاتی ہے جس کو وہ غلط طور پر آپ سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ہم نے ان پر یہ واضح کیا ہے کہ عرب آمرانہ حکومتوں کے لیے ان کی حمایت اور عرب بہار کے سلسلے میں ان کا شرم ناک موقف ہمارے ممالک میں عدم استحکام اور ان کے ممالک کی طرف نقل مکانی میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ جب کہ یہی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے عروج کا بھی اصل باعث ہے جو ان کی جمہوریت کو اندر سے تباہ کر دیں گے جیسا کہ ہٹلر اور مسولینی نے پچھلی صدی کی تیس کی دہائی میں کیا تھا۔ یہ لوگ اپنے پاؤں میں گولی مارنے والے ہیں اور پھر اس کے نتیجہ پر تعجب بھی  کرتے ہیں۔
یہ ایک سوچنے والا سوال ہے کہ فلسطین کی حمایت میں عالم عرب میں اور دنیا بھر میں بہت سے مظاہرے اور مارچ ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ کیا یہ مظاہرے اور مارچ مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح کے سیاسی ایجنڈوں میں واپس سرفہرست لاکر ایک ٹھوس طریقے سے اس قضیے کو فائدہ پہنچائیں گے؟ یا کشمکش کے اس دور کے خاتمے کے بعد مسئلہ فلسطین دوبارہ سرد بستے میں چلاجائے گا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حالیہ سانحے میں صرف ایک مثبت چیز جو نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرکے، اس کا انکار کرکے اور اسے گزرے دنوں کا مسئلہ باور کراکے اس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی جو کوششیں اسرائیل کر رہا تھا وہ یقیناً ناکام ہوگئی ہیں۔ اب یہ مسئلہ پھر سے ابھر کر سامنے  آ گیا ہے اور خطے کا اہم ترین مسئلہ بن گیا ہے۔ اب یہ ایک ایسے مسئلے کے طور پر باقی رہے گا جس کے حل پر نہ صرف خطے کا بلکہ ساری دنیا کے امن کا انحصار ہے۔ عرب عوام کی بیداری کو ماضی کی چیز سمجھا جا چکا تھا اور عرب بہار کی ناکامی کے بعد اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا، اب فلسطین ایک بار پھر واپس آگیا ہے۔ یہ اب اتنی طاقت کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ  کسی بھی قیمت پر اسے نظر انداز کرکے کوئی امن حاصل نہیں ہو سکے گا۔
منصف مرزوقی نے یہ سوال کہ ایک سیاست داں اور سابق سربراہ مملکت کے طور پر، آپ غزہ کی جنگ کے بعد کی دنیا کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا ہم خطے میں نئے اتحاد اور گروپ کی نئی اور علانیہ تشکیل دیکھ سکتے ہیں؟ اگر وہ وجود میں آئیں تو ان کے خدوخال کیا ہوں گے؟ ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر تاریخ کے نقطہ نظر سے حالات کو دیکھا جائے تو سب سے اہم بات اس صیہونی منصوبے کی ناکامی ہے جو یہودیوں کے لیے محفوظ وطن کے تصور پر بنایا گیا تھا۔ آج کوئی جگہ  ایسی نہیں ہے جو یہودیوں کے لیے اسرائیل سے زیادہ غیر محفوظ ہو، خواہ وہ اس کے اندر رہتے ہوں یا باہر، اور آج غزہ پر قابض اسرائیل کے جرائم ہی ہیں جو دنیا میں یہود دشمنی کو ہوا دے رہے ہیں۔
اسرائیلیوں کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ دو ریاستوں کے قیام کے لیے کیے گئے اوسلو معاہدے سے فائدہ اٹھالیتے جو ان کے مفاد میں تھا لیکن انہوں نے نئی کالونیوں کے ذریعے دو ریاستوں کے تصور کو ناقابل نفاذ بنا کر اس تاریخی موقع کو گنوادیا۔ یہ المیہ ہے کہ کوئی اپنے تجربات اور دوسروں کے تجربات سے نہ سیکھے۔بدقسمتی سے موجودہ دائیں بازو کی حکومت کے سائے میں ہم ایسی جنگوں کی طرف بڑھ رہے ہیں جو نہیں رکیں گی اور جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن جائیں گی۔ دوسری طرف  پاگل لوگوں کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ یہ سانحہ تہذیبوں کی جنگ میں تبدیل ہو جائے۔ اس جال میں ہمیں کبھی نہیں پھنسنا چاہیے۔
آج دنیا باہم متحارب مذاہب اور نسلوں کے درمیان بٹی ہوئی نہیں ہے، بلکہ ایک طرف جمہوری، انسانی اور دوسروں کے لیے کشادگی رکھنے والی قوتیں ہیں اور دوسری طرف دائیں بازو کی، فاشسٹ، نسل پرست قوتیں ہیں جو اپنے بیانیے اور اپنی نفسیاتی بیماریوں کے خول میں بند ہیں۔
ساری دنیا کے لیے آج اس سے  زیادہ اہم ہدف کوئی نہیں ہے کہ موجودہ جنگ کو مکمل طور پر روکا جائے اور ہولناک بمباری سے عبارت ان خوفناک حالات کا  خاتمہ ہو، لہٰذا عرب سڑکوں پر احتجاجات لگاتار جاری رہے کبھی رکے نہیں، تاکہ حکومتوں پر مسلسل دباؤ پڑتا رہے کہ وہ دنیا بھر کے فیصلہ سازوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل کا استعمال کریں۔ مغربی ممالک کی سول سوسائٹیوں کی اس سمت میں کی جانے والی کوششوں کو بھی تیز کرنا چاہیے۔ ایک فوری عرب سربراہی اجلاس بھی منعقد ہونا چاہیے جس کی راہ سے تمام حکم راں اپنے حصے کی ذمہ داری سنبھالیں اور اپنی عزت و آبرو کا دفاع کریں۔
اس سانحے کو روکنا ایک اور وجہ سے بھی ضروری ہے، وہ یہ کہ اس سانحے نے چار و ناچار، ادلب اور خرطوم میں ہمارے بھائیوں کی الم ناک صورت حال پر پردہ ڈال دیا  ہے۔ دوسری طرف یوکرین کے عوام، جن کے ساتھ ہم کھڑے ہوئے ہیں، ان کے صدر نے ہماری ہی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے، وہ جس صورت حال سے دوچار ہیں اس کے بارے میں بھی میں ایک جمہوریت پسند کے طور پر یہی کہتا ہوں۔ سبحان اللہ، یہ کیسی عجیب منطق ہے کہ میں اپنے عوام کی آزادی کی بات کروں لیکن دوسرے لوگوں کو غلام بنانے کی حمایت کروں۔ میں جو تشدد روا رکھتا ہوں اس کی حمایت کروں، لیکن تم جب اس کا تشدد سے جواب دو تو میں تمہیں کہوں کہ یہ تمہارے انسان کی شکل میں جانور ہونے کا ثبوت ہے۔ جب تک ایسے ہم سنگ دل اور ماؤف دماغ والے لوگوں کا سامنا کرتے رہیں گے، ہم اس تاریک سرنگ کے دہانے سے قریب نہیں ہوں گے جس میں ہم اس وقت سر ٹکرا رہے  ہیں۔
عالمی صورت حال کے حوالے سے منصف مرزوقی سے پوچھا گیا کہ یکے بعد دیگرے حکومتوں کے بدلنے کے باوجود تیونس میں نارملائزیشن کو جرم قرار دینے کا قانون ابھی تک منظور نہیں ہو سکا ہے اور اس پر موجودہ پارلیمنٹ میں بحث کو بھی ملتوی کر دیا گیا۔ آپ کی رائے میں، فلسطین کی سرکاری اور عوامی حمایت کے موقف کے باوجود یہ قانون پاس کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ 
اس کا جواب دیتے ہوئے مرزوقی نے کہا کہ کرسئ اقتدار پر براجمان  لوگ اس بات کو مخفی نہیں رکھ سکتے کہ اس قانون کے التوا کے پیچھے بیرونی طاقتوں کا دباؤ یا خوف ہے جنہوں نے لالچ اور دھمکی کے ذریعے، دوسری عرب حکومتوں پر اس چیز کو تھوپ دیا ہے جسے وہ نارملائزیشن کہتے ہیں۔ عوامی مظاہروں نے، خاص طور پر مصر اور اردن میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ ایک فریب ہے جو دھوکے بازوں کے ذریعے دھوکہ کھانے والے لوگوں کو بیچا جارہا ہے۔ یہ ایک سراب ہے جو دھوکہ کھانے والے دھوکے بازوں سے خرید رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ نارملائزیشن امن و سلامتی (سلام) کا دوسرا نام نہیں بلکہ گھٹنے ٹیک دینے (استسلام) کا دوسرا نام ہے اور فلسطینی عوام اور عرب عوام گھٹنے ٹیکنے پر ہرگز راضی نہیں ہوں گے۔ ان لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں، ایک دن آئے گا جب وہ امن کے صحیح راستے سے واقف ہو جائیں گے اور یہ جان لیں گے کہ امن کا اس مسخرے پن سے کوئی تعلق نہیں جسے یہ نارملائزیشن کا نام دے رہے ہیں۔

 

***

 تاریخ کے نقطہ نظر سے حالات کو دیکھا جائے تو سب سے اہم بات اس صیہونی منصوبے کی ناکامی ہے جو یہودیوں کے لیے محفوظ وطن کے تصور پر بنایا گیا تھا۔ آج کوئی جگہ  ایسی نہیں ہے جو یہودیوں کے لیے اسرائیل سے زیادہ غیر محفوظ ہو، خواہ وہ اس کے اندر رہتے ہوں یا باہر، اور آج غزہ پر قابض اسرائیل کے جرائم ہی ہیں جو دنیا میں یہود دشمنی کو ہوا دے رہے ہیں۔اسرائیلیوں کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ دو ریاستوں کے قیام کے لیے کیے گئے اوسلو معاہدے سے فائدہ اٹھالیتے جو ان کے مفاد میں تھا لیکن انہوں نے نئی کالونیوں کے ذریعے دو ریاستوں کے تصور کو ناقابل نفاذ بنا کر اس تاریخی موقع کو گنوادیا۔ یہ المیہ ہے کہ کوئی اپنے تجربات اور دوسروں کے تجربات سے نہ سیکھے۔بدقسمتی سے موجودہ دائیں بازو کی حکومت کے سائے میں ہم ایسی جنگوں کی طرف بڑھ رہے ہیں جو نہیں رکیں گی اور جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن جائیں گی۔ دوسری طرف  پاگل لوگوں کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ یہ سانحہ تہذیبوں کی جنگ میں تبدیل ہو جائے۔ اس جال میں ہمیں کبھی نہیں پھنسنا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023